اﷲ کے نام پی دے دو بابا ۔اﷲ تمھاری مراد
پوری کرے گا ۔ بیٹی ! ماں باپ کا صدقہ دے دو خدا تمھارے نصیب اچھے کرے ۔اﷲ
تیرے بچے جیئیں ۔جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔اندھے فقیر
کو دہتا جا بابا ۔یہ ایسی دعائیں ہیں جو پاکستان کے کسی بھی چوک بھی سے
گزرتے ہو ئے آپ کو ملیں گی ۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر ہر شخص ترس کھاتا ہے ، جو
شخص پریشان ہوتا ہے کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے وہ لازمی ان فقیرو ں کو
کچھ نہ کچھ دیتا ہے ۔
اگر آپ اسلام آباد سے راولپنڈی کی جانب عازم ِ سفر ہیں تو ایر پورٹ روڈ پر
آپ کو فقیروں کی بہتات نظر آئے گی ۔اس کے علاوہ راولپنڈی اور دیگر چھوٹے
بڑے شہروں میں خصوصا بازاروں ، بس اڈوں ، لاری اڈوں پر آپ کو جگہ جگہ بھیک
ماننگنے والے افراد نظرا ٓئیں گے ۔ بیھیک مانگنے والوں میں ہر عمر کے افراد
، بچے ، بوڑھے ، جوان ،مرد ، عورتیں سبھی شامل ہیں ۔ ان میں سے کوئی اندھا
ہے تو کوئی لنگڑاہے ۔کسی کو کوئی عارضہ لاحق ہے تو کسی کو کوئی ۔ان میں سے
کچھ تو واقعتا کسی معذوری کا شکار ہوتے ہیں جبکہ اکثر و بیشتر ان بیماریوں
کا شکار نہیں ہوتے ۔ ان میں سے کچھ کو تو اغواء کے بعد اعضاء کاٹ کر سڑکوں
کے کنارے بھیک مانگنے کی غرض سے بیٹھا دیا جاتا ہے اور اس میں ان کی اپنی
کوئی مرضی شامل نہیں ہوتی ۔جبکہ کچھ کو کوئی عارضہ لاحق نہیں ہوتا وہ صرف
اداکاری کر رہے ہوتے ہیں ۔کسی بھی سفید پوش شخص کے لیے بھیک مانگنا ، اپنی
عزت ِ نفس کا سودا کرنا انتہائی مشکل امر ہے ۔ جو عموما حقدار ہوتے ہیں وہ
بھیک مانگنے سے بھی گریز کرتے ہیں ۔ ارض ِوطن میں بھیک مانگنے والے غریب
نہیں بلکہ بھیک ایک پیشہ کے طور پر رائج ہو چکی ہے ۔ پورے پورے خاندان اس
پیشہ سے وابسطہ ہیں ۔ یہی نہیں ان کے باقاعدہ قبیلے ہیں جہاں ان کا ایک
ٹھیکے دار ہوتا ہے جو ایک مخصوص علاقے کے سردار کے طور پر کام کرتا ہے اور
اس علاقے میں بھیک مانگنے والوں سے باقاعدہ حصہ وصول کرتا ہے ۔ٹھیکیدار ایک
مضبوط شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس کے اپنے خدمات گار ہوتے ہیں جوکہ اس کی
حفاظت بھی کرتے ہیں اور اس کا رعب بھی قائم رکھتے ہیں ۔یہ خدمت گا ر یا
نوکر ٹھیکیدار کو حصہ نہ دینے والوں یا حصہ دینے سے گریز کرنے والوں کو
سزائیں بھی دیتے ہیں ۔ ان قبیلوں میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ۔ان
قبیلوں میں سزا پانے والوں کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ، نہ ہی
یہاں سے کوئی رپورٹ درج کروائی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی کورٹ کچہری کے چکر
میں پڑھتا ہے اور نہ ہی کوئی ٹھیکیدار کے خلاف آواز اٹھانے کی جسارت کر
سکتا ہے ۔
ہر قبیلے کا ایک علاقہ مخصو ص ہوتاہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ ہر ایک
قبیلے نے آپس میں علاقے بانٹ رکھے ہیں اور مخصوص علاقے میں ایک حق کے ساتھ
بھیک مانگتے ہیں ۔ ایک علاقے کے لوگ (فقیر) دوسرے علاقے میں بھیک نہیں مانگ
سکتے ۔ ہمارے ملک میں بھیک ایک بہت بڑے شعبے کے طور پر متعارف ہو چکی ہے ۔
پاکستان میں ایک بہت بڑی رقم بھیک کے طور پر دی جاتی ہے جو کہ زکوۃ اور
ٹیکسوں سے الگ ہے ۔ بھیک میں دو روپے سے لے کر سو روپے تک دئیے جاتے ہیں ۔پاکستان
میں بھیک مانگنے والوں کی فی کس آمدنی چھ ڈالر یومیہ پاکستانی سات سو روپے
تک ہے ۔ جبکہ محنت مزدوری یا دفاتر میں کام کرنے والے پڑھے لکھے افراد زیاہ
سے زیادہ اوسط پانچ سو سے ایک ہزار رپے تک کما پا تے ہیں ۔یومیہ کمائی جانے
والی بھیک میں سے بعض اوقات بیس سے پچاس روپے ٹھیکے دار کو دئے جاتے ہیں
جبکہ کبھی کبھار یہ رقم بڑ ھ کر سو تین سو یا چار سو تک پہنچ جاتی ہے ۔ ایک
سروے کے مطابق پاکستان میں ستر بلین ڈالر چندہ میں دئے جاتے ہیں ۔ بھیک
مانگنے والوں کی آمدنی 30 ہزار ماہانہ ہے ۔پڑھے لکھے گریجویٹ افراد کی
تنخواہ اوسط بیس سے پچیس ہزار روپیہ ماہانہ ہے جبکہ ایک عام مزدور کی آمدنی
زیادہ سے زیادہ 20 ہزار تک ہے ۔ ان مزدوروں میں پڑھے لکھے افراد بھی شامل
ہیں ۔ ملکی بجٹ میں مزدور کی کم سے کم تنخواہ آٹھ ہزارتک مقرر کی گئی جو
ایک فقیر یا بھیک مانگنے والے کی آمدنی سے کہیں کم ہے ۔
کہا جاتا ہے کسی زمانے میں ایک امیر شخص رہتا تھا اس نے ایک بار سنا کہ اﷲ
ہر حال میں انسان کو رزق دیتا ہے ۔یہ سننا تھا کہ اس کے دل کی حالت بدل گئی
اس نے اپنا ہر کام چھوڑا اور ایک جنگل میں نکل گیا ۔ وہاں ایک درخت کے نیچے
جا بیٹھا ۔ اب نہ وہ محنت کرتا نہ کام کاج یہاں تک کہ اس کی حالت خراب ہونے
لگی ۔ ایسی حالت میں ایک قافلے کا وہاں سے گزر ہو ا وہ اس کو کچھ کھانے
پینے کا سامان دے گئے ۔ دن اسی طرح گزرتے رہے ۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک
کتا ہے جو کہ اپائج ہے ۔ رزق کی تلاش سے قاصر ہے ایک باز اس کے منہ میں ایک
گوشت کا ٹکڑا ڈال کراڑ جاتا ہے ۔ یہ دیکھ کر اس نے سبق حاصل کیا کہ رزق تو
اﷲ نے دینا ہے تو یہ بہتر ہے کہ دوسروں کو کھلانے والا بنا جائے بنسبت اس
کے کہ دوسروں کے ہاتھوں کی جانب دیکھا جائے کہ کوئی ہمارے رزق کا وسیلہ بنے
گا ۔ پہلے وہ رزق دینے کا وسیلہ تھا اب وہ دوسروں کا محتاج ہے یہ سوچ کر اس
نے فیصلہ کیا کہ وہ واپس اپنا کام کاج شروع کرے گا ۔یہ سوچ اسے جنگل سے
واپس دنیا میں لے آئی ۔یہ واقعہ کہا ں تک سچ ہے یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن
اس سچائی سے کوئی انکار بھی نہیں کہ خود کما کر کھانے والا اس کی نسبت ہزار
گنا بہتر ہے جو دوسروں کی جانب اس امید سے دیکھا جائے کہ کوئی رزق کا وسیلہ
بنے گا ۔
یہا ں نبی پاک ﷺ کی حیات مبارکہ سے ایک واقعہ تحریر کرتی چلوں ۔ابن عمر سے
روایت ہے کہ زمانہ نبوت ﷺ میں جب ایک شخص بارگاہ ِ رسالت میں حاضر ہوا اور
کچھ مانگا ۔ نبی پاکﷺ نے عطاء فرمایا۔ جب وہ شخص چلا گیا تو نبی پاک ﷺ نے
یوں فرمایا اگر تمھیں پتہ چل جائے کہ مانگنے ( بھیک ) کا مطلب کیا ہے تو تم
میں کوئی کبھی کچھ نہ مانگے ۔ سنن نسائی ۔۲۵۸۶
ایک اور جگہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ تمھارے لیے یہ بہتر ہے کہ تم
لکڑی کا ایک گٹھا اٹھاؤ اور اسے بچو بنسبت اس کے کہ کسی سے مانگو اور وہ
انکار کرے ۔ (بخاری اور مسلم )
ایک اور جگہ ارشارد ہوتا ہے کہ بے شک دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے
بہتر ہے ۔
اسلام ان لوگوں کی شدت سے مخالفت کرتا ہے جو کہ محنت سے جی چرائیں اور
معاشرے کے ایک بے کار رکن کی حیثیت سے زندگی بسر کریں کیونکہ یہ اﷲ کی
ناشکری میں شمار ہوتا ہے اور توکل کے بر خلاف عمل ہے ۔بھیک مانگنے کے لیے
انسان کو سب سے پہلے اپنی غیرت کا سودا کرنا پڑھتا ہے جس کی اکوئی مذہب
اجازت نہیں دیتا ۔ اسلام میں محنت مزدوری کرکے کمانے کو بھیک یا مانگنے کی
نسبت پسندیدہ قرار دیا ہے ۔ اسلام بھیک ، کاہلی اور بے عملی کو سختی سے
روکتا ہے کیونکہ کسی سے مانگنا انسان کی عزت ِ نفس پر ایک ضرب ہے اورمانگنا
انسان کی شخصیت کو تباہ کر دیتا ہے ۔ اگر بھیک رائج ہو جائے پورے پورے
خاندان اس کو پیشہ کے طور پر اپنائیں تو یہ معاشرے میں موجود بے عمل اور
کاہل طبقہ بن جاتا ہے جو خود تو محنت مشقت نہیں کرتا بلکہ دوسروں کی محنت
کی کمائی کواپنی زندگی گزارنے کا ذریعہ بنا لیتا ہے اور وہ لوگ جو محنت
مزدوری کرکے اہنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں وہ دعا کی خاطر یا بددعاء کے ڈر سے
اپنی کمائی کا حصہ ان فقیروں کو لازما دیتے ہیں ۔ اس طرح یہ ان لوگوں کا
بھی حق مارتے ہیں جو کہ حقیقتا اس روپے کے حقدار ہیں ۔اسلام ایک جانب تو
بھیک کو ناجائز قرار دیتا ہے جبکہ دوسری طرف ا اسلام حکم دیتا ہے کہ مخیر
شخص خود سے غریب ، نادار اور بے کس کو کھانا کھلائے اور مانگنے والے کو
خالی ہاتھ نہ لوٹائے ۔یعنی اسلام ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں
ہر ایک کی عزت ِ نفس محفوظ ہو۔ کسی نادار اور غریب کی یہ نوبت نہ آئے کہ وہ
امیر کے پاس کچھ مانگنے کو آئے یا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے ۔جہاں ہر شخص
عزت و آبرو کی زندگی گزارے ۔
بھیک ہمارے معاشر ے میں ناسور کی طرح پھیلتی جا رہی ہے اس ناسور کے خاتمے
کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ حکومت ، مخیر حضرات یا این جی اوز کو
پورے ملک میں ایسے ادارے قائم کرنے چائیں جو بھیک مانگنے والوں کو کوئی ہنر
سکھا سکیں اور وظیفہ بھی دیں ۔ اس کے علاوہ عوام کو ایسے بھکاریوں کو بھیک
دینے سے گریز کرنا چاہیے جو بظاہر تندرست نظر آتے ہوں تاکہ بھیک کو پیشہ کے
طور پر نہ اپنایا جا سکے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی نہ ہو ۔
|