میں اپنے ادارے میں بہت خوش ہوں

کسی دانا کا قول ہے ـــــ’’یااُسے حاصل کرو جو آپ چاہتے ہیں یا اُسی کو چاہو جو آپ پاس ہے‘‘آج ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو زمانے بھر کا دکھ اپنے سینے میں سمیٹے ستم ہائے گردشِ لیل و نہار کا نوحہ کرتے نظر آتے ہیں ،ان میں اکثر و بیشتر اپنے ادارے کا ،اپنے ساتھی ملازمین ،اپنے باس سے شکوہ کرتے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں ،کسی کو شکوہ ہے کہ میری صلاحیتوں کا اعتراف نہیں کیا جاتا،کو ئی اس بات سے نالاں ہوتاہے کہ اسے خاطر خواہ توجہ نہیں ملتی،کوئی اس بات کو دل پر لئے بیٹھا ہوتاہے کہ وہ دس آدمیوں کاکام کرتاہے مگر ادارے میں اس کا کوئی مقام نہیں،کوئی یہ کہتا ہوا ملتاہے کہ چند چاپلوس لوگ بڑے بنے بیٹھے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔

راحت ریاض کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا ،وہ جب ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازم ہوا تو اسے اپنی صلاحیتوں پر بڑا مان تھا ،وہ سمجھتاتھاکہ وہ جو کام کررہاوہ بڑے بڑے سنئیرلوگ بھی نہیں کررہے ہیں ،خود سری اور خوش فہمی کے ساتھ ساتھ دوسروں پر تنقید نے بہت جلد راحت ریاض کی ’’راحت‘‘ چھین لی ،اس کی دل کی ’’ریاضت‘‘ غارت کردی ،وہ مایوس سا رہنے لگا ،اسے اپنے ادارے اور شرکاء کار سے نفرت سی ہونے لگی۔ اس نے کئی سنئیر افسران سے بات بھی کی کہ یہاں اندھیر نگری، چوپٹ راج کا معاملہ ہے،کئی لوگوں نے اسے سمجھایا کہ ایسا نہیں ہوتا جو آپ چاہ رہے ہیں،اداروں کا اپنا نظام ہوتاہے تم کل ہی تو آئے ہو، تمہاری خواہش پریہاں کا پورا سیٹ اپ تبدیل کیا سکتاہے نہ کہیں ایسا ہوتاہے ،مگر راحت ریاض کوکو ئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی،اس پر بس یہی ایک بھوت سوار تھا کہ یہاں اس کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی جارہی،ان سوچوں سے اس کی ذہنی پریشانیوں میں اضافہ ہوتاچلا گیا۔بالآخراس نے اپنے حالات کے حوالے سے اﷲ والے سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا ،اور یہ عزم ِمصمم کر کے سو گیا کہ کل پہلی فرصت میں کسی حقیقی بزرگ کے قدموں میں پہنچ جاؤں گا اور ان کے سامنے اپنی اندرونی کی کیفیت رکھوں گا پھروہ جو مشورہ دیں گے میں من و عن قبول کرلوں گا ۔

اگلے دن راحت ریاض ایک اﷲ والے کی خدمت میں حاضر ہوااور ان سے کہا ’’مجھے اپنے ادارے میں دوسروں سے شکایت ہے ،اپنے ساتھ بے روخی کا گلہ ہے ‘‘راحت ریاض اپنے تئیں ابھی تمہید ہی باند رہا تھاکہ اﷲ والے بزرگ نے کہا بس بیٹے میں تمہارا مدعا سمجھ گیا ہوں ،راحت نے کہا،ح،ح،ح،حضرت مجھے پوری بات کرنے دیں۔ مگر بزرگ نے کہا بچے میں تمہاری پوری کہانی سمجھ گیا ،اب تم میری دو باتیں سن لو اور اس پر ایک مہینے تک عمل کرکے دیکھ لو اگر تمہارا مسئلہ حل نہ ہوا تو دوبارہ آجانا، میں اس وقت تمہاری پوری بات سنوں گا اور پھر کوئی دوسرا حل بتادوں گا،اب تم میری بات غور سے سننا اور اس پر عمل کرنا ان شاء اﷲ دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی تمہاری ہر پریشانی حل ہوجائے گی ۔

بزرگ دھیمے انداز میں کہنے لگے ’’بیٹے دیکھو،یہ دنیا ایک عارضی قیام گاہ ہے یہاں ہم جو بھی اچھے یابرے اعمال کرتے ہیں اس کا ہم سے حساب لیا جائے گا،تم جہاں کام کرتے ہووہاں مختلف لوگ ہوں گے ،الگ الگ مزاج رکھتے ہوں گے ،ایسا نہیں ہوسکتاکہ سب کی آپ کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ہو ،ضروری نہیں کہ وہ سب آپ سے متفق ہوں ،کچھ لوگ آپ سے سنئیر ہوں گے آپ ان تک نہیں پہنچ سکتے ،کچھ آپ سے جونئیر ہوں گے وہ تم تک نہیں پہنچ سکتے ،بس آپ نے دو ہی باتیں پلے باندھنی ہے کہ ’’آپ کے ادارے میں جب کوئی کام چوری کرتاہے اور اس کا بوجھ آپ کو اٹھانا پڑتاہے تو اس کا اﷲ اس سے حساب لے گا ،اس کو قیامت کے روز سزا دیں گے ۔اور جب کوئی آپ پر ظلم کرتاہے تو اﷲ مظلوم کا ساتھی ہے اﷲ غیب سے آپ کی مددکرے گا تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔

اس مختصر نصیحت کے بعد بزرگ نے راحت ریا ض سے کہا، بیٹے اب جاؤ ، اگرایک ماہ بعد بھی تمہاری پریشانی ختم نہ ہوئی تو میرے پاس آنا،راحت ریاض گھر لوٹ آیا ،بزرگ کی باتوں پر سختی سے عمل کرنے لگا ،کمپنی میں اپنے کام سے کام رکھنے لگا،اس نے دوسروں کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا کہ کون کیا کررہا ہے کیا نہیں کررہا ،اس اپنی ہی ذمہ داریوں پر توجہ دینا شروع کردی کہ میں نے کیا کرنا ہے،ادارے نے مجھ پر کیا فرائض عائد کئے ہیں اور آیا میں ان پر کما حقہ عمل کررہا ہوں یا نہیں ۔ابھی بزرگ کی ہدایات پر عمل کئے اسے پچیس دن ہوئے تھے کہ راحت ریاض نے ایک روز قلم کاغذ اٹھا یا ،وہ اس بزرگ کے نام خط لکھ رہا تھا ۔

’’بعد از سلام حضرت آپ کا بہت بہت شکریہ، اﷲ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ،میری تمام پریشانیاں ختم ہوچکی ہیں،اب مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ،میں اپنے ادارے میں بہت خوش ہوں ۔
 
Shehbaz Khail
About the Author: Shehbaz Khail Read More Articles by Shehbaz Khail: 9 Articles with 9717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.