کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ؟؟؟ ۔۔۔

کراچی دو کروڑ سے زائد آبادی والا میٹروپولیٹن سٹی جو بے پناہ مسائل کی آماجگاہ ہے ، یہاں کے شہری جن بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ان میں سے ایک ذرائع نقل و حمل ہے۔ جو کہ کسی بھی بڑے شہر کی بنیادی سہولتوں میں سے ایک ہے۔ قیام پاکستان کے اوائل میں کراچی گرچہ ایک چھوٹا شہر تھا لیکن اس وقت بھی شہریوں کیلئے اومنی بس اور ٹرام وے سسٹم جیسی ٹرانسپورٹ کی سہولتیں دستیا ب تھیں بعد ازاں ٹرام وے سسٹم کو ختم کر دیا گیا اور دو بڑے ذرائع کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور لوکل ریلوے سسٹم (سرکلر ریلوے ) کا قیام عمل میں آیا۔KTC نے کراچی میں درآمد شدہ بسوں سے ایک سسٹم قائم کیا اور سرکلر ریلوے نے کراچی کے اہم تجارتی اور صنعتی علاقوں کو آبادی سے ملاکر شہریوں کو سہولت فراہم کی اور ایک عرصے تک یہ دونوں سسٹم کراچی کے شہریوں کی ٹرانسپورٹ کی ضرورت پوری کرتے رہے۔ ہزار ہا افراد ان بسوں اور ٹرینوں سے بہ سہولت سفرکیا کرتے تھے۔ لیکن1997 میں کے ٹی سی اور1999میں لوکل ریلوے سسٹم ختم کرکے شہر کو ٹرانسپورٹ مافیا کے سپرد کر دیاگیا۔ جس نے کراچی میں منی بسیں متعارف کرائیں، یہ منی بسیں پبلک ٹرانسپورٹ کے معیار پر بالکل بھی پورا نہیں اترتی تھیں،جو منی ٹرک کے چیسز پر باڈی بنا کر بس کی صور ت میں ڈھالی گئی تھیں۔ شہری ان دڑبہ نما بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ وقت کے ساتھ یہ بسیں بھی خستہ حال ہو گئیں لیکن کراچی کے بد نصیب شہریوں کے نصیب میں یہ ہی بسیں رہ گئیں،ان بسوں میں سفر کی اذیت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔چنانچہ اس مشکل کے حل کے طور پر شہریوں نے بادل نخواستہ استطاعت نہ رکھنے کے باوجود اپنی آمدنی پر خرچ کا ایک بڑا بوجھ ڈالتے ہوئے کار یا موٹر سائیکل خرید لیں، نتیجتاًشہر کی سڑکیں گاڑیوں سے بھر گئیں اور ٹریفک جام رہنا معمول ہو گیا۔جسکی وجہ سے ملازمت پیشہ افراد کا وقت پر دفتروں اور دیگر کام کی جگہوں پر نہ پہنچنا، طلبہ کا اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں تک نہ پہنچنا معمول بن گیا، خصوصاًامتحانات کے دنوں میں توصورتحال اور بھی نازک ہو جاتی ہے جب ٹریفک جام کی وجہ سے کئی طلبہ کا امتحانی مرکز تک وقت پر نہ پہنچنے پر مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ فیکٹری مالکان اور کاروباری حضرات بھی اس صورتحال سے مبرّا نہیں ، کاروباری سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ’’ٹریفک جام‘‘بظاہر یہ چھوٹا سا لفظ اپنے اندر کتنی ہولناکی لئے ہوئے ہے اس کا اندازہ صرف وہ لوگ لگا سکتے ہیں جن کے پیاروں نے ٹریفک جام میں پھنسی ایمبولینس کے اندر تڑپ تڑپ کر جان دی یا وہ جو کسی بلڈنگ یا فیکٹری میں لگی آگ میں پھنسے اپنوں کوبچانے کی امید میں فائر انجن کے پہنچنے کا انتظار کر تے رہے۔وقتی طور پر ٹریفک جام میں اس وقت کمی آئی جب شہر میں فلائی اوورز اور انڈر پاسزکی تعمیرات کی گئیں جس سے کسی حد تک ٹریفک کی روانی میں اضافہ ہوا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر میں گاڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا، اور پھر وہی ٹریفک جام۔۔۔

فی زمانہ پبلک ٹرانسپورٹ یا ما س ٹرانزٹ کسی بھی ملک کی مضبوط معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ دنیاکے کسی بھی شہر میں اس سہولت کا نہ ہونا بہت تعجب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔شہری خواہ کسی فیکٹری سے وابستہ ہوں، یا کسی بینک سے یا کسی ہسپتال میں خدمات انجام دے رہے ہوں یاپھران کے اپنے کاروبار ہوں ان کیلئے اپنی کام کی جگہوں تک وقت پر پہنچنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔اسی لئے دنیا میں حکومتیں اپنے شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم لازمی فراہم کرتی ہیں اس نظام کی بدولت شہری نہ صرف وقت پر اپنے آفس پہنچ پاتے ہیں بلکہ بہترین سہولتوں کی وجہ سے بنا تھکان پنی منزل مقصود پر پہنچتے ہیں اوراپنی توانائیاں اپنے کام پر صرف کر کے زیادہ فائدے حاصل کرتے ہیں۔جس سے ملک کی GDPکے ساتھ ساتھ ریوینیو میں بھی اضافہ ہوتاہے۔بیرونی سرمایہ کاروں کی اس شعبہ میں شمولیت سے ملک میں سرمایہ لایا جاسکتا ہے۔امریکیوں کے مطابق اس شعبہ میں ہر دس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری پر ملک کی پیداوار میں تیس ملین ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے۔امریکہ میں اس شعبہ میں ہر ایک بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر 47500 روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی خود بخود روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں جیسا کہ کنسٹرکشن، مینوفیکچرنگ انڈسٹریز، فنانس ، انشورنس،رئیل اسٹیٹ ، خدمات، ہول سیل اور ریٹیل کے کاروبار میں۔ پراپرٹی کی ویلیو اور ڈیمانڈ میں اضافہ ہوتا ہے جس سے پراپرٹی کے شعبے سے ہونے والے محصولات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں توانائی کی ضرورت کو درآمد شدہ تیل و گیس سے پورا کیا جاتا ہے جس پر ملک کے زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے، اب یہ بات مان لی گئی ہے کہ تیل اور انرجی میں بچت کیلئے سب سے بڑا راز پبلک ٹرانسپورٹ یا ماس ٹرانزٹ میں ہی پوشیدہ ہے، عوام کو اس کے ذریعے سفر کی سہولت فراہم کر کے لاکھوں چھوٹی گاڑیوں میں خرچ ہونے والے تیل کو بچایا جا سکتا ہے۔ اور غیر ملکی تیل کی درآمد پر انحصار کم کیا جا سکتاہے۔

باوقار سفری سہولتوں کی وجہ سے عوام اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرنے کی بجائے ان ٹرانسپورٹ سسٹم سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں نتیجتاً سڑکوں پر سے ٹریفک کم ہو جاتا ہے اور ٹریفک جامنگ سے نجات ملتی ہے۔ہر قسم کی ایمرجنسی کی صورت میں اس سے نمٹنے والے اداروں کو اپنی کاروائیاں کرنے میں آسانی ہوتی ہے جیسا کہ ایمبولنس کے ذریعے مریض کو وقت پر ہسپتال پہنچایا جا سکتا ہے۔ فائر بریگیڈ کا عملہ تیزی سے کسی آگ کو بے قابو ہونے سے پہلے ہی قابو کرنے کے لئے پہنچ سکتا ہے اور اسی طرح کسی بھی قدرتی آفت سے نمٹنے کیلئے نقل و حمل میں آسانی رہتی ہے۔

ایک اور مسئلہ جس نے تمام دنیا کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے وہ ہے فضائی آلودگی (Pollution) ، اس سے نمٹنے کے لئے بھی حکومتوں کو اپنے بجٹ میں خاصی رقم مختص کرنی پڑتی ہے۔ ماس ٹرانزٹ کے نظام سے اس مسئلے پر بھی کافی حد تک قابو پایا جاتا ہے، اس نظام کی بدولت فضائی آلودگی میں بہت حد تک کمی واقع ہوتی ہے۔ ماس ٹرانزٹ سسٹم کی وجہ سے ماحول میں کاربن مونو آکسائیڈ میں95% ، Volatile organic compound میں 90% اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں 50% تک کی کمی واقع ہوتی ہے،شہریوں کو صاف ستھری فضا اور ہوا میّسر آتی ہے جسکی وجہ سے پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں کے علاوہ اور دیگر بیماریوں کے بڑھنے میں کمی آنے سے حکومتوں کے صحت کے شعبہ میں بڑھتے اخراجات پر قابو پایا جاسکتا ہے ، مزید یہ کہ شہریوں کوبھی علاج معالجے پر آنے والے اخراجات میں کمی کی وجہ سے معاشی مسائل سے نجات ملتی ہے۔

لیکن ان تمام نکات پر صرف ان ممالک میں سوچا جاتا ہے جہاں عوام کی تکالیف کو تکلیف آنے سے پہلے محسوس کر لیا جاتا ہے اور قبل از وقت پلاننگ کرکے ان مسائل سے نمٹ لیا جاتا ہے۔جسکی وجہ سے نہ صرف عوام خوشحال ہوتی ہے بلکہ ملکی خزانے پر بھی بوجھ کم ہوتا ہے۔اگر ہم اپنے پڑوسی ملک سے موازنہ کرتے ہوئے ممبئی کو لیں تو برٹش دورسے بنائے گئے لوکل ریلوے سسٹم کو بتدریج ترقی دی جاتی رہی ، آج ممبئی میں روزانہ 2343 لوکل ٹرین چلتی ہیں جس سے روزانہ 75 لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں، ایک لمحے کو تصور کر کے دیکھیں کہ اگر یہ لوکل ٹرین سسٹم ختم کر دیا جائے تو یہ 75 لاکھ لوگ سڑکوں پر ہونگے تو ٹریفک کا کیا عالم ہو گا۔مہاراشٹرگورنمنٹ بڑھتی آبادی کا ادراک کرتے ہوئے مسلسل بہتر ٹرانسپورٹ سسٹم فراہم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ، ممبئی میٹرو اور ممبئی مونو ریل جیسے منصوبے تکمیل کے مراحل طے کر رہے ہیں اور ان منصوبوں کی کچھ لائنز پر تو آپریشن شروع ہو چکا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ان مسائل کو اہمیت نہیں دی جاتی کیونکہ ہمارا مقتدر طبقہ اول تو اعلیٰ اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے جو پیدا ہی حکمران بننے کے لئے ہوتے ہیں۔جو غریب اور متوسط طبقے کے مسائل سے بالکل نہ واقف ہوتے ہیں، مہنگی ترین ،شیشہ چڑھی ائرکنڈیشن گاڑیوں میں سفر کرنے والے یہ غریب عوام کے مسائل کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔دوم یہ کہ ان کا تعلق زیادہ تر دیہی علاقوں سے ہوتا ہے،وہ شہری علاقوں کواپناتے نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں کئی دہائیوں سے ماس ٹرانزٹ کے منصوبوں کے حوالے سے بات تو ہوتی ہے لیکن اس کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا،حتیٰ کہ پچھلے دس سالوں سے جاپان کے تعاون سے سرکلر ریلوے پروجیکٹ پرابتدائی کام کرنے کے باوجودسندھ گورنمنٹ اس پروجیکٹ کو شروع نہیں کر سکی۔جاپانیوں نے بر ملا سندھ حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اس پروجیکٹ میں سنجیدہ نہیں۔علاوہ اذیں عوام کو بہلانے کے لئے سندھ گورنمنٹ نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم ، گرین لائن اور اورنج لائن جیسے منصوبوں کو جنم دیا لیکن یہ منصوبے کچھ ہی دن میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہی دم توڑ گئے ۔ اور کراچی کے عوام کسی بھی کلر کی لائن والے ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے منصوبے پر عملدرآمد کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔

کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ جس طرح یہاں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے پر معیشت پر منفی اثرات پڑتے ہیں، اسی طرح یہاں بہتر سہولتیں فراہم کرنے سے شہریوں کو اور زیادہ متحرک کر کے مثبت اثرات بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس معاملے میں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے، لہذا اب مزید وقت ضائع کئے بغیرحکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیئے۔
Muhammad Shafi Siddiqui
About the Author: Muhammad Shafi Siddiqui Read More Articles by Muhammad Shafi Siddiqui: 2 Articles with 1838 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.