پولیس رویے!

 جس اخبار میں کوئی خبر مجھے کالم لکھنے کی دعوت دیتی ہے، یا میں اپنے طور پر اس خبر کو اہم تصور کرتا ہوں۔ میں اسے الگ رکھ لیتا ہوں، پہلے تو اسی روز اس خبر کی خواہش پوری کردی جاتی ہے، مگر بعض اوقات زیادہ خبروں کی وجہ سے یا اپنی نجی مصروفیت کی بنا پر خبر کو کالم کا رنگ نہیں دیا جاسکتا۔ یوں اخبارات اکٹھے ہوتے رہتے ہیں، پھر جب ’’خاتونِ اول‘‘ اخباروں کے اُس ڈھیر کو ردی فروش کے حوالے کرنے اور اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کا پروگرام بناتی ہیں تو از راہِ کرم مجھے ایک مرتبہ اخبارات پر نظر ثانی کرنے کی اجازت مرحمت فرما دیتی ہیں۔ میں ان اخبارات کی چھانٹی کرتا ہوں، بہت سی اہم خبریں اپنی معیاد پوری کرچکی ہوتی ہیں، اور بعض ضروری اور سدا بہار خبریں پھر دامن تھام لیتی ہیں۔ اب چھٹی والے دن جب مجھے ’اوپر‘ سے ایسا ہی حکم ملا تو میں نے مجبوراً اخبارات کی ورق گردانی کی تو چندروز قبل کی ایک خبر نے میرا ہاتھ روک لیا، میں نے وہ اخبار الگ کرکے باقیوں کو پروانہ آزادی جاری کردیا۔ خبر پولیس کے بارے میں تھی اور معاملہ پولیس رویوں کا تھا۔

بہاول پور کے ضلعی پولیس افسر کی ہائی کورٹ میں پیشی تھی، یہاں ذرا رک کر اندازہ لگایئے کہ اِن صاحبان کی عدالت میں پیشی اسی وقت ہوتی ہے، جب یہ اپنے اختیارات سے دو قدم آگے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ عدالت کے احاطے میں ایک مقام ایسا آتا ہے جہاں گاڑی آگے لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہاں پولیس کی نفری جج صاحبان کی سکیورٹی کے لئے موجود ہوتی ہے۔ سب انسپکٹر نے اپنے ہی ضلعی افسر کی گاڑی آگے لے جانے سے روک دیا، صاحب نے اصرار کیا، ماتحت نے انکار۔ موقع پر چونکہ ماتحت ہی بااختیار تھا اور آگے ہائی کورٹ کے جج صاحبان کا معاملہ تھا، لہٰذا ڈی پی او صاحب نے بہتری اسی میں جانی کہ گاڑی سے اتر کر چند قدم پیدل چل لیں۔ ایسے مواقع پر عام طور پر افسر اپنے ماتحت کے ایسے رویے پر شاباش بھی دے دیا کرتے ہیں،مگر جہاں ایسے ماتحت کم ہیں وہاں ایسے افسران کی بھی کمی ہوتی ہے۔ موصوف پیشی سے فارغ ہوکر اپنے دفتر پہنچے تو اپنی شان میں گستاخی کرنے والے سب انسپکٹر کی معطلی کے احکامات جاری فرما دیئے۔ ظاہر ہے یہ معاملہ بھی جج صاحب کے سامنے پیش ہوگیا، اب ڈی پی او کو ہی طلب نہ کیا گیا بلکہ ان کے ساتھ آر پی او کی بھی پیشی پڑ گئی، بعض اوقات اپنے ماتحت کی کسی بات کی وجہ سے افسر کی شامت بھی آجایا کرتی ہے۔ عدالت میں پہنچ کر ڈی پی او نے معطلی کے احکامات واپس لئے اور آرپی او نے نہایت مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے معاملہ کو سلجھانے کا وعدہ کیا، انہیں اندازہ تھا کہ ڈی پی او کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہوگا۔ ڈی پی او کی جرات کی داد دینی چاہیے، جنہوں نے ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل کو دلچسپ رخ دے دیا، کہ عدالت سے واپس آکر موصوف نے جس سب انسپکٹر کی معطلی ختم کی تھی، اب اس کا تبادلہ کردیا۔ اس مرتبہ جسٹس صاحب نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او کو عدالت طلب کیا۔ ایسے مواقع پر جو کچھ روداد ہوتی ہے، وہ کسی بھی صورت میں کسی شریف اور معقول آدمی کے حق میں بہتر نہیں ہوتی، چنانچہ ڈی پی او صاحب عدالت سے اپنی عزت افزائی کے بعد واپس لوٹ آئے۔

پولیس کا یہ رویہ کوئی ایک دفعہ منظر پر نہیں آیا، ان کا معمول ہے، بہاول پور میں ہی ایک آرپی او ایسے گزرے ہیں، جنہوں نے اپنے دفتر کے آگے سے گزرنے والی سڑک پر سے بھاری ٹریفک بند کروا دی تھی۔ وہ سڑک بہاول پور سے بہاولنگر کی طرف جانے والا واحد راستہ تھا، یہ ٹریفک چار کلومیٹر کا چکر کاٹ کر صاحب کے دفتر سے تھوڑا سا آگے دوبارہ اسی سڑک پر ملتی تھی، تاہم اس چکر میں یہ ٹریفک ایک گرلز کالج، گرلز ہائی سکول،ریڈیو سٹیشن اور سینٹرل جیل جیسے مقامات سے گزر کر آتی تھی،تعلیمی اداروں میں چھٹی کے وقت روزانہ سڑک بلاک ہوتی تھی۔ وہ آرپی او بعد میں پنجاب کے پولیس سربراہ بھی بنے۔ پولیس کے یہ افسران جب کسی سیمینار یا تقریب میں گفتگو کرتے ہیں تو ان سے زیادہ معقول اور بہترین سوچ کا آدمی کوئی دوسرا نہیں ہوتا ، مگر جونہی وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر اختیارات کا استعمال کرتے ہیں تو وہ وہی روایتی پولیس والے بن جاتے ہیں جن اوصاف کی بنا پر پولیس بدنام ہے۔ براہِ راست بھرتی ہونے والے نوجوان پولیس افسران سے بہتری کی توقعات تھی، مگر وہاں بھی مایوسی کے بادل ہی دکھائی دیتے ہیں، یہ لوگ بہت جلد نمک کی کان میں جاکر نمک ہوجاتے ہیں۔ بہت کم افسران ہیں، جو اخلاق اور کردار میں اپنا نام روشن کرتے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 435651 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.