یادیں بڑی عجیب ہوتی ہیں اچانک ہی بن بلائے
مہمان بن کر حاضر ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسی ہی یاد میرے دل کو بےچین کیے رکھتی
ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم نے میٹرک کےامتحانات سے فراغت کے بعد ایک
سکول بطور والنٹیئر جوائن کیا۔ ان دنوں پڑھانے کا شوق سر چڑھ کر بول رہا
تھا۔سب کی رائے بھی یہی تھی کہ ہم ایک اچھی ٹیچر بن سکتے ہیں۔بچپن سے ہی
بیڈ اور دیواروں کو پڑھاتے جو رہے ہیں۔ہمیں تیسری جماعت کو پڑھانے کی ذمہ
داری دی گئی جو ہم تن دہی سے انجام دے رہے تھے۔ پڑھائی کے معاملے میں اس
وقت ہم خاصے اصول پسند تھے۔ بچوں کو جی جان سے پڑھا کے اپنا فرض پورا کر
رہے تھے۔ لڑکوں کو پڑھانا قدرے مشکل ہے۔ لڑکے لاابالی اور غیر ذمہ دار ہوتے
ہیں مگر ہمارا ماننا ہے کہ وہ لڑکیوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔لڑکیاں اس بات
سے اختلاف کریں گی مگر حقیقت یہی ہے۔ خیر ہمارے بہت سے طالب علموں میں ایک
بہت شاندار طالب علم بھی تھے جو ہمیں ہر وقت عاجز کیے رکھتے تھے۔ پیار سے
سمجھا سمجھا کے ہم تھک چکے تھے۔ ایک دن اس بچے کی کسی غلطی پر طیش میں آ کر
ہم سے ہاتھ اٹھ گیا۔ ہم جو چھوٹا بہن بھائی نہ ہونے کے باعث مارنے کا سوچ
بھی نہیں سکتے تھے، یہ کام کر گزرے۔ ابھی ہمارا ہاتھ اس کے ایک گال کو ہی
سرخ کر پایا تھا دوسرا ہاتھ ہوا کو چیرتے ہوئے سرخ کرنے کو تیارتھا کہ اس
طالب علم کی بات پر ہوا ہی معلق رہ گیا۔ہمیں اپنے کانوں پر یقین ہی نہ آیا۔
کچھ دیر تو ہم حیران و پریشان اس طالب علم کو دیکھتے رہے مگر پھر سنبھل کر
اپنے تنے ہوئے اعصاب کو معمول پر کیا۔اس طالب علم کا کہنا تھا کہ چونکہ ہم
اردو بولنے والے ہیں اور وہ خود پٹھان ہے تواسلئے ہم اسے ماررہے ہیں۔ان
دنوں کراچی میں نسلی فسادات عروج پر تھے۔ کٹی پہاڑی سے ہر شہری خوفزدہ نظر
آتا تھا۔ ہم نے اپنےلہجے کو نرم رکھ کے اس طالب علم کو دل سے سمجھایا۔
نجانے اس کے دل پر جمی نفرت کی گرد ہٹی کہ نہیں مگر وہ ہمیں سوچ کا ایک نیا
در دے گیا۔ بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں جن کا کام صرف خوشبو بکھیرنا ہوتاہے۔
اگر نفرت کی رمق پاس سے گزرجائے تو پھول بکھرجاتے ہیں۔ کورے کاغذپر جو بھی
قرطاس کیا جائے وہ تا حیات اس کے ساتھ رہتا ہے۔ بچوں کا بھی یہی حال ہے۔
معصوم پودوں کو محبت کی نشو نما میں پروان چڑھایا جائے تو وہ تناور درخت بن
کر معاشرے میں محبت و خلوص کا سایہ بن کر کڑی دھوپ سے بچاتے ہیں۔ایک بچے کی
ذہن میں پنپنے والی سوچ اس کے معاشرے کا عکس ہوتی ہے۔ آج کل بچوں کی پرورش
میں ماں باپ اور استاد کے ساتھ ساتھ میڈیا کا بھی اہم کردار ہے۔ میڈیا جو
دکھاتا ہے وہ ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے بچے بھی دیکھتے ہیں۔ اور کمپیوٹر سے
بھی تیز اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ اگر ایک بچہ نسلی بنیادوں کی
نفرت کے متعلق سوچ سکتا ہے بول سکتا ہے تو اس سے بڑھ کے ہماری بدنصیبی کیا
ہوگی۔ لسانی، مذہبی اور نسلی نفرتوں کے بیج ہمارے بچوں میں منتقل ہو رہے
ہیں ہمیں کسی دوسرے دشمن کی ضرورت نہیں۔ اپنے دشمن ہم خود ہی ہیں۔ ہر بات
پہ روتی عوام، چھوٹی چھوٹی باتوں پر واویلا مچاتا میڈیا،جھوٹ کےریکارڈ
توڑتے سیاستدان اگر اب بھی نہ سدھرے تو ٹہنیوں پر لگے پھول نفرت کی تپش
سےجل کر مرجھا کے خدانخواستہ خزاں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ |