بھٹوں پر چائلڈ لیبر!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
حکومت پنجاب کی طرف سے کچھ مہینے
قبل ایک مہم چلائی گئی تھی، جس میں خوردونوش کی اشیاء میں سے مضرصحت ثابت
ہونے پر ان ہوٹلوں، مشروبات وغیرہ کو سیل کردیا جاتا تھا۔ اس مہم کی زدمیں
بڑی بڑی چینز، بڑے ہوٹل اور مشروبات کی ڈسٹریبیوشنزآئیں۔ کسی کو سیل کیا
گیا تو کسی کو جرمانہ، کسی کو وارننگ دی گئی تو کسی کو معافی۔ اس ادارہ کی
سربراہ عائشہ ممتاز کا نام معیار پرکھنے کا استعارہ بن گیا، انہیں ٹی وی
کوریج ملنے لگی، انٹرویو شائع ہونے لگے۔ کہنے والوں نے یہ کہنا شروع کردیا
کہ فلاں محکمے کو بھی ایک ’عائشہ ممتاز‘ کی ضرورت ہے، گویا جہاں سے ملاوٹ
یا خرابی کا خاتمہ درکار ہوتا وہاں عائشہ ممتاز کو یاد کیا جاتا۔ اس مہم سے
عوام خوش ہوئے، کیونکہ ہم لوگ مولا جٹ سٹائل سے بہت جلد اور بہت زیادہ
متاثر ہوتے ہیں۔ اس مہم کا ایک نقصان بھی ہوا، جس مقامی افسر کو کسی سے
کوئی رنجش ہوتی وہ ہوٹل یا فاسٹ فوڈ یا مشروب کی دکان کو سیل کردیتا، چونکہ
حکومت کا دباؤ بھی تھا اس لئے وہ معاملہ جلدی قابو میں نہیں آتا تھا ،
مقامی انتظامی افسران نے خوب اپنی من مانی کی اور لوگوں کو خوب ہراساں کیا۔
تاہم اس مہم کا مجموعی تاثر اچھا رہا۔ مگر یہ مہم رکتے رکتے شاید رک ہی گئی
ہے۔
آج کل اینٹوں والے بھٹوں پر کام کرنے والے بچے حکومتی ایوانوں میں زیر بحث
ہیں۔ یقینا پنجاب حکومت کی طرف سے ’چائلڈ لیبر ‘ کے خلاف کوئی مہم جاری ہے۔
اینٹوں والے بھٹوں پر بچوں سے کام لینے کے پاداش میں بھٹہ مالکان کی
گرفتاری اور بھٹوں کو سیل کرنے کا عمل زور وشور سے جاری ہے۔ہر روز اسی قسم
کی خبریں نام اور مقام کی تبدیلی کے ساتھ اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ بھٹے
پر موجود کسی بھی ذمہ دار کو گرفتار کیا جارہا ہے اور بھٹوں کو سِیل کیا
جارہا ہے۔ یہ مہم بھی اسی جوش و خروش سے جاری ہے ، جس طرح کھانے پینے کے
سامان میں ملاوٹ یا مضر صحت کا معاملہ درپیش تھا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ مہم
بھی نہایت مثبت اثرات کی حامل ہے، ان بچوں کا مستقبل بن جائے گا، جو بچے آج
اینٹیں پکا اور بنا رہے ہیں ، وہ کل کے مزدور ہی ہونگے۔ اس صورت میں
مزدوروں کے بچوں کی قسمت میں مزدوری ہی لکھی دکھائی دیتی ہے۔ مگر یہ فطرت
کا اصول نہیں، بلکہ یہ بچے معاشرے اور حکومت کے ہاتھوں سے تباہی کے گڑھوں
میں گر رہے ہیں، اگرچہ اس میں کسی حد تک والدین کا قصور بھی ہے،مگر زیادہ
ذمہ داری حکومت اور معاشرے پر ہی عائد ہوتی ہے۔
بھٹوں پر بچوں کا کام کرنا تو جو کچھ تکلیف دہ ہے، اور حکومت اپنے احکامات
اور اقدامات کی صورت میں کچھ کرتی دکھائی دیتی ہے، وہاں اگر بڑوں کو کام
کرتے دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، انسان کا دماغ چکرانے لگتا ہے، جب
مئی جون کی جھلسا دینے والی گرمی میں یہ لوگ بھٹے کے اندر سے پختہ اینٹیں
نکال رہے ہوتے ہیں، ان کے چاروں طرف بھٹے کی گرمی ہوتی ہے اور اوپر سورج
بھی آگ برسا رہا ہوتا ہے۔ معاملہ صرف گرمی کا ہی نہیں، بلکہ مٹی اور گرد
وغبار کی وجہ سے انہیں پہنچاننا مشکل ہوجاتا ہے، وہ بھوت بنے بھٹے کے اندر
سے گدھوں پر اینٹیں لادتے ہیں اور باہر نکال کر پھینکتے ہیں، بہت سے مزدور
وہاں سے بیل گاڑیوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں پر لاد کر باہر کے لوگوں کو مہیا
کرتے ہیں۔ اگرچہ اینٹ کا بنایا جانا انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے، کیونکہ
گھر اﷲ تعالی کی ایک بڑی نعمت ہے، عمارات کی تعمیر سے ترقی کا تاثر بھی
پیدا ہوتا ہے۔ مگر جس ماحول میں یہ لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں، اس کی مزدوری
عام مزدور سے بہت زیادہ ہونی چاہیے۔ کیونکہ وہ اپنی صحت کو قربان کرکے یہ
خدمت سرانجام دے رہے ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں بچوں کا عالم کیا ہوگا، بچے
ویسے بھی مزدوری کے لئے پیدا نہیں ہوئے، ہم انہیں مزدور بنا دیتے ہیں۔
حکومت کا یہ اقدام اگرچہ قابل تحسین ہے، مگر ہم کسی مہم کو اٹھا کر بھا گ
لیتے ہیں اور چند ہی روز میں ایک کو چھوڑ کر کسی اور مہم کو اٹھا لیتے ہیں،
یوں یہ مہمات اپنی منزل پانے کی بجائے مذاق کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ ایک
محدود وقت تک تو لوگ پریشان رہتے ہیں، مگر کچھ ہی عرصہ بعد وہ مصیبت کے منہ
سے نکل چکے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ہمیں دور دراز بھٹوں پر چھاپے مارنے کی
بجائے اپنے دفاتر جاتے ہوئے راستے میں بھی ایک نظر ڈالنی چاہیے، جب صبح
دفاتر کا وقت ہوتا ہے تو ہر ورکشاپ، موٹرسائیکل مکینک اور اسی قسم کے دیگر
مقامات پر ’’چھوٹے‘‘ صفائی کر رہے ہوتے ہیں، ان کی تعداد کا اندازہ لگایا
جانا اور تدارک کرنا بھی ضروری ہے۔ |
|