ماں کا لفظ ذہن میں آتے ہی محبت
کے ایک گہرے سمندر کا تصور ابھرتا ہے۔ ایسی محبت جس کی مثال اور نظیر ملنا
مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی جب بندے سے اپنی
محبت کا ذکر کیا تو ماں کی محبت کا حوالہ دیا کہ اسے اپنے بندے سے ماں کی
نسبت ستر گنا زیادہ محبت ہوتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ سے جب کسی نے پوچھا کہ میری
محبت کا سب زیادہ حقدار کون ہے تو جواب ملا ماں، سوال کرنے والے نے دوبارہ
پوچھا کہ اس کے بعد کون ہے، تو پھر جواب ملا کہ تیری ماں، تیسری بار پوچھنے
پر بھی فرمایا تیری ماں اور جب چوتھی بار پوچھا گیا تو حضور اکرم ﷺ نے
فرمایا کہ تیرا باپ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بچے کو جنم دینے والی ماں اس کی
محبت کی سب سے زیادہ حقدار ہوتی ہے۔ اسی لئے فرمان ربانی ہے کہ والدین کو
اف تک نہ کہو۔ آج کی سوسائٹی میں دیکھیں تو مغرب کی اندھی تقلید کرنے والوں
نے یہاں بھی ”اولڈ ہوم“ بنانے شروع کر دئیے ہیں تاکہ جب والدین بوڑھے
ہوجائیں تو انہیں وہاں ”جمع“ کرایا جاسکے، یہ ہم نے کیسا وطیرہ شروع کردیا
ہے کہ وہ والدین جن کے لئے اپنے بچوں سے بڑھ کر اس دنیا میں اور کچھ نہیں
ہوتا، جو اپنے بچوں کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں تاکہ وہ اس دنیا میں کوئی
مقام حاصل کرسکیں اور جب وہی بچے اپنے ماں باپ کے طفیل، ان کی محنت اور
کوشش سے اور ان کی دن رات کی دعاﺅں سے کسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کے
پاس انہی ہستیوں کے لئے نہ تو وقت ہوتا ہے نہ ہی وسائل کہ ان کے آخری ایام
کے لئے کچھ کرسکیں، ان کی خدمت کرسکیں اور اپنے اللہ سے اجر عظیم جبکہ اللہ
تعالیٰ نے والدین کو وراثت میں بھی حصہ دار بنایا ہے کہ اگر کوئی بچہ فوت
ہوجائے تو اس کی وراثت میں اس کے دیگر وارثان کے ساتھ اس کے والدین بھی حصہ
دار ہوتے ہیں۔
امریکہ اور یورپ کی تقلید میں ہم نے بھی سال میں ایک ایک دن والدین کے لئے
مخصوص کر چھوڑا ہے کہ ”فادرز ڈے“ یا ”مدرز ڈے“ پر والد یا والدہ کو پھولوں
کا ایک گلدستہ یا کیک کی صورت میں کوئی تحفہ بھیج کر اپنے فرائض سے سبکدوش
ہوجاتے ہیں جبکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پورا سال ہی ”فادرز ڈے“ اور”مدرز ڈے“
ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو یہاں تک سہولت دے رکھی ہے کہ اگر وہ
اپنے والدین کو پیار سے دیکھتا بھی ہے تو اس کے لئے حج و عمرہ کا ثواب اور
اجر لکھ دیا جاتا ہے اور وہ بھی ایسا حج اور عمرہ جو اللہ تعالیٰ نے قبول
منظور فرما لیا ہو....! اگر ہم اپنی سوسائٹی پر نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا
ہے کہ ہم دنیا میں مگن ہوکر آخرت کو تو بھول ہی چکے ہیں، ہر روز والدین پر
ظلم و تشدد کی خبریں میڈیا پر جگہ بناتی ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک
نہیں رینگتی، البتہ جب والدین یا ان میں سے کوئی رخصت ہوجائے، دنیائے فانی
کو چھوڑ کر اللہ کے پاس چلا جائے تو اولاد ایسا ظاہر کرتی ہے کہ جیسے انہیں
اس جانے والے سے زیادہ پیار، محبت اور عقیدت کسی اور کے ساتھ تھی ہی نہیں۔
کیا ہم روزانہ دیکھتے نہیں کہ اولاد خصوصاً بیٹے اپنی بیویوں کے غلام بن کر
کس کس طرح اپنے ماں باپ کو ستاتے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں اور خاص
طور ماﺅں کے ساتھ تو انتہائی برا سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ اس لئے کہ ماں
کچھ کماتی نہیں، اس کی عمر بھر کی کمائی اور پونجی تو اس کی اولاد ہوتی ہے،
اس کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہوتے ہیں جن پر وہ ہر لمحہ اپنی جان
تک قربان کرنے کے لئے تیار نظر آتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میرے پاس ایک بزرگ خاتون تشریف لائیں، کہنے لگیں کہ ان کا
بیٹا اپنی بیوی کے دباﺅ میں آکر ان کے ساتھ مار پیٹ کرتا ہے، کھانا نہیں
دیتا اور کہتا ہے کہ اس گھر سے نکل جاﺅ، وہ گھر جو اس خاتون کی ملکیت تھا
اور جس نے ساری عمر محنت مشقت کر کے وہ گھر بنایا تھا، بیٹا بھی اکلوتا تھا،
دوبارہ گویا ہوئیں کہ اب اس عمر میں کہاں جاﺅں؟ میرا خاوند بھی عرصہ دراز
ہوا فوت ہوچکا ہے، میں نے محنت مزدوری کر کے بیٹے کو پڑھایا لکھایا اور
اچھی جگہ اس کی شادی کی، بیٹیاں بھی اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں، جاﺅں تو
کہاں جاﺅں؟ پھر خود ہی کہنے لگیں کہ میں چلی تو جاﺅں، کہیں بھی دوبارہ محنت
مزدوری کر کے پیٹ پال لوں لیکن مجھے اپنے پوتے سے بہت پیار ہے، اس میں میری
جان ہے اس کے بغیر تو میں مر جاﺅں گی، بس یہی سوچ کر بیٹے کے ظلم برداشت
کرتی رہتی ہوں کہ شائد کسی روز اسے سمجھ آجائے، میں نے کہا اگر آپ چاہیں تو
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے بیٹے کو اس گھر سے بے دخل کروادیا جائے کیونکہ
وہ گھر تو آپ کی ملکیت ہے، تڑپ کر بولیں کہ ہرگز نہیں، میرا سب کچھ اسی کا
تو ہے، اگر ایک دو تھپڑ مار بھی لیتا ہے، کھانا بند بھی کردیتا ہے تو کوئی
بات نہیں میں اس کو بیدخل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی....!
اسی طرح میرا ایک جاننے والا ہے، اس کے ہمسائے میں ایسے ہی ایک بیٹا اپنی
ماں کے ساتھ برا سلوک کرتا تھا لیکن اس کی ماں کو ہر ماں کی طرح اس سے بے
انتہا پیار تھا، ایک دن ماں نے کسی بات پر بیٹے کو برا بھلا کہا، اس نے
پہلے تو ماں کو مارا پھر اسے ایک کمرے میں بند کردیا اور باہر سے تالا لگا
دیا۔ شام کو اپنے بیوی بچوں کو لیکر باہر نکل گیا جہاں اس کا ایکسیڈنٹ
ہوگیا اور وہ رات کو گھر نہ آسکا، جب اگلے دن گھر آیا تو ماں صدمے اور خوف
کی وجہ سے اللہ کو پیاری ہوچکی تھی، وہ دن ہے اور آج کا دن اس شخص کو ایک
لمحہ سکون نہیں ملتا، ہر وقت افسردہ رہتا ہے اور اکثر قبرستان میں ماں کی
قبر کے پاس بیٹھا اس سے معافی مانگتا رہتا ہے، لیکن کیا اب اسے معافی مل
سکتی ہے....؟
ماں ایک ایسی ہستی ہے جو اپنے بچوں کے لئے دنیا میں بھی باعث برکت و رحمت
ہے اور آخرت میں بھی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا میں بھی ماں کے دم قدم سے
اللہ کی رحمت اترتی ہے اور اگر اس کی خدمت کی جائے، اس کی دعائیں لی جائیں
تو روز آخر بھی وہی اعمال کام آئیں گے۔ میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ
جو لوگ اپنی ماﺅں کی عزت کرتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں اور ان سے عقیدت
رکھتے ہیں ان کا دنیا میں بھی بھلا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی یقیناً بھلا
ہی ہوگا۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے اور اگر وہاں سے ہٹ جائیں تو دنیا
بھی جہنم بن جاتی ہے اور اللہ نے جو جہنم بنائی ہے اس کی سزائیں تو بہت کڑی
ہیں۔ میں نے تو اپنی ماں کی وجہ سے اللہ کی رحمت واضح طور پر اترتی ہوئی
محسوس کی ہے، جب کبھی زندگی میں کوئی مشکل مرحلہ درپیش ہوا تو والدہ محترمہ
کی دعاﺅں سے کامیابی ہی ملی، اور مائیں تو ویسے بھی ہر لمحہ اپنی اولاد کے
لئے مجسم دعا رہتی ہیں۔ میرا تو ہر دن اور ہر لمحہ مدرز ڈے ہے، اسی سلسلہ
میں دو سال پہلے کا ایک واقعہ ذہن میں تازہ ہوگیا۔ ایک بہت بڑے انڈسٹریلسٹ
ٹی وی کے ایک پروگرام میں اپنی کہانی سنا رہے، ان کے مطابق ان کے والد صاحب
بچپن میں ہی وفات پاگئے تھے اور انکی والدہ نے محنت مشقت کر کے ان کی تعلیم
وغیرہ کا بندوبست کیا، وہ اپنی والدہ کی نافرمانی کرتے رہتے تھے کہ ان کی
کسی بزرگ عزیزہ نے ایک دن ان کی والدہ کی بے ادبی پر کہا کہ جس طرح تمہاری
ماں نے محنت مزدوری کر کے تمہیں پالا ہے تمہیں تو چاہئے کہ اس کے پاﺅں دھو
کر پیو، وہ کہنے لگے کہ ایک دن پتہ نہیں کیسے ان کے ذہن میں یہ بات آگئی
اور انہوں نے اپنی سوتی ہوئی والدہ کے پاﺅں واقعتاً دھو کر وہ پانی پی لیا،
روتے ہوئے کہنے لگے کہ اس کے بعد یہ صورتحال ہوئی کہ انہوں نے مٹی کو بھی
ہاتھ لگایا تو وہ سونا بن گئی! اگر ہم بغور دیکھیں تو والدہ کی عظمت، عزت
اور تقدیس پر تو جان بھی قربان کردینی چاہئے، ایک اور بزرگ کا قول کہ جہاں
”شریعت“ آڑے آئے وہاں ماں باپ کی بات مت مانو لیکن جہاں”طبیعت“ آڑے آئے
وہاں ان کی بات ضرور مانو، میری ماں دنیا کی عظیم ماں ہے، ہر ذی شعور کے
لئے اس کی ماں عظیم ہونی چاہئے، ویسے تو میں روز کہتا ہوں لیکن ”مدرز ڈے“
کی مناسبت سے آج دل کی گہرائیوں سے دوبارہ کہتا ہوں ، ماں جی! مجھے آپ سے
بہت پیار ہے، Mom! I Love You، ہر دن ماں کا دن ہے، ہر لمحہ ماں کے لئے ہے،
اللہ کرے ہر ماں کا سایہ اپنے بچوں پر تاقیامت سلامت رہے....آمین |