اندھے قانون کی اندھی پولیس (حصہ دوم)

قانون کے ان نام نہاد محافظوں نے جرائم کی بیخ کنی کیا کرنی پولیس خود جرائم کی سرپرست بنی ہوئی ہے،شہر میں جہاں اور جس طرف بھی چلے جائیں منشیات کا کاروبار سر عام جاری ہے بلکہ کہ اگر کسی جگہ یہ دھندہ رک جائے تو پولیس خود اپنی نگرانی میں شروع کرواتی ہے کیونکہ اسے تو اپنا حصہ چاہئے،گوجرانوالہ ہی کے ہر دوسرے محلے میں ’’میٹھے چاولوں کا کاروبار‘‘ کرتی ہوئی آنٹیاں اوررانیاں وغیرہ موجود ہیں جوپولیس کی ملی بھگت اور سرپرستی میں جسم فروشی کا کاروبار دھڑلے سے کرتی ہیں اور اگر کوئی شریف محلے دارانکی شکایت کرنے تھانے کا رخ کرلے تو اسکی وہ درگت بنتی ہے کہ اسکی آنے والی نسلیں بھی ایسی جرات دوبارہ کرنے کے قابل نہیں رہتیں ، جسم فروشی کرنے والی یہ خواتین محلے میں اس رعب سے رہتی ہیں اور دوسروں کو ’’ چکوا‘‘ دینے کی دھمکیاں اس اعتماد سے دیتی ہیں کہ دیکھنے سننے والا نگ رہ جاتا ہے گوجرانوالہ پولیس کے کئی ایسے ادوار بھی گزرے ہیں جب پورا پورا تھانہ ہی ٹھیکے پر دے دیا جا رہا ہے اور تھانہ عوام کے ساتھ کچھ بھی کرے اعلیٰ افسران کو مہینہ اکھٹا کرنے کے علاوہ کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی ،لیجئے جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی تھیں گوجرانوالہ پولیس کے دو نئے کارنامے اخباروں کی زینت بنے ہیں پہلا واقعہ جو رپورٹ ہوا ہے اس میں تحریک انصاف کے ایک راہنماکے سابقہ ڈرائیور لیاقت مسیح نامی ملزم کو کینٹ پولیس نے مبینہ طور پر جیل سے نکلوا کر تھانے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ وہ دم توڑ گیا ،جبکہ دوسرے واقعے میں جناح روڈ تھانہ کی پولیس نے ایک نوجوان کو مبینہ تشدد کے باعث ہلاک ہو جانے پر قدرے ’’ذمہ داری‘‘ اور’’ انسانیت دوستی‘‘ کاثبوت دیتے ہوئے لاوارث قرار دے کر دفنا بھی دیا،پولیس کاان واقعات پر وہی رٹا رٹایا موقف سامنے آرہاہے کہ ملزم کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی وغیرہ وغیرہ، آپ ذرا سوچیں کہ کئی درجن چھتر اس شدید سردی میں کسی انسان پر ’’اقبال جرم‘‘کرانے کے لئے برسائے جائیں تو اسکی طبیعت کیا ہشاش بشاش رہنے کا کوئی امکان موجود رہتا ہے ،ایک عجیب بے شرمی ہے ۔۔۔نیچے لے کر اوپر تک ۔۔۔۔۔پیٹی بھائیوں کے لئے قانون الگ ،سوچ الگ اور پولیس افسران کے احکامات بھی الگ ، ڈسکہ کو ہی لیں جہاں ایس ایچ او نے وکیل کو قتل کیا تھا جس پر چار مرتبہ پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور اگر خدانخواستہ مقتول کوئی عام انسان ہوتا تو تھانے پر حملے ،کار سرکار میں مداخلت یا کسی پر بھی لگا دینے والی دہشت گردی کی دفعہ لگ جانی تھی ،قانون کا مذاق اڑاتی ایک اور خبر آج کے اخباروں میں شائع ہوئی ہے جس کی سرخی یہ ہے ’’پولیس ملازم کی رسم حنا میں رات بھر برسٹ چلتے رہے‘‘ خبر کے مطابق کامونکی کے نواح قلعہ جھنڈا میں مہمان رات بھر نشے میں دھت ہو کر بڑھکیں لگاتے رہے ،مقامی لوگ15پر کال کرتے رہ گئے لیکن اس پیٹی بھائیوں کے جشن میں مداخلت کرنے کوئی نہ پہنچا، قانون کی دھجیاں اڑانے کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ،یہاں تو پولیس سے لوگوں کی جان مال عزت کچھ بھی محفوظ نہیں ،تھانوں کا نام ماڈل رکھنے سے تھانوں کے اند ر کا ماحول نہیں بدل سکتا ، یہ بھی سنا کہ خوتن محرر بٹھائی گئی ہیں لیکن ان خوفناک تھانوں میں انسانیت کا جو حشر نشر ہوتا ہے کیا کوئی خاتون خانہ تصور کر سکتی ہے ان تھانوں میں قدم بھی رکھنے کا؟ اعلیٰ پولیس افسران تھانوں کو ٹھیک کرنا چاہیں تو کیا مشکل ہے ،شک کی بنا ء پر عوام کی چیر پھاڑ کرانے میں حاصل کی گئی مہارت کو اگر صرف تھانے کے محرر پر آزما لیا جائے تو کونسی ایسی حرکت ہے جو باہر نہیں آئے گی،محرر کے پاس پولیس کی تمام تر بدمعاشیوں اورمنتھلیوں کا ریکارڈ اگلوانے کے لئے الٹا لٹکانے کہی خبر بھی بیحد مزیدا رہو گی اور جن ماؤں کے بچے تفتیش کے نام پر مار دیئے گئے شائد اس پولیس اہلکار کی درگت بنتی دیکھ کر ان کے کلیجے میں بھی تھوڑی ٹھنڈ پڑ جائے (جاری ہے)
Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 67209 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.