برطانیہ میں مقیم مسلمان خواتین!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
برطانیہ میں مسلمان خواتین کے لئے نیا حکم
نامہ جاری ہوچکا ہے، جو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے براہ راست جاری
کیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں مقیم مسلمان خواتین اپنی
انگریزی بہتر کرلیں ، ورنہ ڈھائی سال میں برطانیہ چھوڑ دیں۔ کیمرون صاحب نے
اپنے اس انقلابی فیصلے کی وجہ یہ بتائی کہ کچھ مسلمان حلقوں کی برطانوی
معاشرے میں ملنے گھُلنے میں کمی سے انتہاپسندی کو پنپنے میں مدد ملتی ہے،
ان حلقوں کی طرف سے مسلمان خواتین کو الگ تھلگ رکھنے اور ان کے ساتھ امتیاز
برتنے کے خلاف ’’مزید موثر‘‘ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ان
مسلمانوں سے صرفِ نظر ختم کرنے کا کہا ہے جو اپنے دقیانوسی رویے کے ذریعے
اپنی خواتین پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں تقریباً بائیس فیصد ایسی
مسلمان خواتین ہیں جو بہت کم انگریزی جانتی ہیں، یا بالکل ہی نہیں جانتیں۔
اس سلسلہ میں حکومت نے صرف حکم نامہ ہی جاری نہیں کیا، دوکروڑ پاؤنڈ بھی
جاری کئے ہیں، جو گھروں، سکولوں اور کمیونٹی سینٹرز میں انگریزی سکھانے کی
جماعتوں کا انتظام کیا جائے گا، جبکہ سفر اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات
بھی دیئے جائیں گے۔
برطانیہ میں یقینا تمام مسلمان ممالک کے لوگ آباد ہیں، یہی وجہ ہے کہ
کیمرون کا یہ حکم تمام مسلمان ممالک کی خواتین کے لئے ہے۔ وہ خواتین جو
برطانیہ میں ہی پیدا ہوئیں اور پلی بڑھیں، ان کی انگریزی پر تو نہ کسی کو
شک ہے اور نہ پریشانی، کہ بہت سے میدانوں میں وہ خود انگریزوں کو مات دے
جاتی ہیں، برطانوی پارلیمنٹ تک ان کی رسائی ہوچکی ہے، سیاسی پارٹیوں میں ان
کا اثرورسوخ موجود ہے، اور وزارتوں کی ذمہ داریاں نبھانے تک کے فرائض
سرانجام دے چکی ہیں۔ وہ برطانوی معاشرے سے ہم آہنگ ہیں، یا کم سے کم معاشر
ے کے قریب تر ہیں۔ دوسری وہ خواتین ہیں جو بعد میں وہاں پہنچیں، جن کے والد
وہاں تھے، وہ بعد میں بچوں کو بھی لے گئے، ایسی بچیاں بھی بڑی ہو کر
انگریزی سے آشنا ہوچکی ہیں۔ مگر وہ خواتین جن کی شادی ہوکر برطانیہ جاتی
ہیں، وہ ضروری نہیں کہ خود اپنے ملک میں بھی زیادہ پڑھی لکھی ہوں۔ پاکستان
جیسے ملک میں تو معاملہ نیم خواندگی کا ہے۔ جہاں سے گئے ہوئے مرد بھی
مزدوری کرنے کے لئے گئے ہیں، ان کی بیویاں کہاں پڑھی لکھی ہونگی، یا
انگریزی سے کہاں واقف ہونگی۔ پاکستانی سکولوں اور تعلیمی اداروں میں
انگریزی کی صورت حال تسلی بخش نہیں۔ کہنے کو تو یہ انگلش میڈیم سکولوں سے
پڑھے ہوئے لوگ ہیں، مگر صرف نام کی حد تک۔ خاص طور پر خواتین تو تعلیم کے
میدان میں بھی مردوں سے کافی پیچھے ہیں۔
کیمرون کے حکم سے یہ نکتہ صاف ظاہر ہے کہ معاملہ صرف انگریزی بہتر کرنے کا
نہیں، بلکہ بات معاشرتی معاملات میں ملنے اور گُھلنے کی ہے۔ گھلنے سے مراد
رچاؤ ہے، کسی معاشرے میں رچ بس جانا، اس کے تمام نشیب وفراز سے آشنائی حاصل
کرنا اور اس سے ہم آہنگ ہو جانا، جیسے شِیر و شکر کا معاملہ ہے۔ وہاں کی
روایات کی پاسداری کرنا، وہاں کے کلچر کو اپنانا، وہاں کی سوسائٹی میں اِک
مِک ہوجانا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کھل کر متنبع کر دیا گیا ہے کہ معاشرے سے
الگ رہنے والی خواتین انتہا پسندی کی طرف راغب ہوجاتی ہیں، اس کا مطلب یہی
ہے کہ اگر کوئی خاتون اسلام کے اصولوں پر عمل کرنا چاہتی ہے تو اسے دہشت
گردی کی طرف راغب قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ بدقسمتی سے مسلمانوں نے اسلام
کا نقشہ پیش کرنے میں یہ کمزوری دکھائی ہے کہ جو مسلمان بھی اسلام کے حقیقی
اصولوں پر کاربند ہے، اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام نہ صرف
رواداری کا علمبردار ہے، بلکہ برداشت ، تحمل اور بردباری کا درس بھی دیتا
ہے، معاف کردینے کی صلاحیت بھی اسی کے اصولوں میں سے ایک ہے۔ اب کیمرون کے
احکامات کو دیکھا جائے تو جو مسلمان عورتیں برطانوی معاشرے سے الگ تھلگ
رہیں گی، ان کے لئے برطانیہ میں کوئی جگہ نہیں، انہیں ملک چھوڑنا ہوگا۔ اب
مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ملک چھوڑنے کی بجائے اپنے رویوں کو اس قدر مثبت
بنائیں کہ وہ مذہب پر بھی کاربند رہیں اور برطانیہ کے لئے بھی قابل قبول
قرار پائیں۔ ایسا کرنا اگرچہ بہت مشکل ہے، مگر مشکل کو آسان بنانے کے لئے
سب سے اہم اور ضروری اقدام یہی ہے کہ مسلمانوں کے کردار پر لگے دھبوں کو
دھویا جائے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ مسلمان برطانیہ میں رہائش کی خاطر اپنے
دین اور مذہب کو ہی چھوڑ دیں، بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو متحد ہو کر
ایسا کردار پیش کرنا چاہیے، جس سے مسلمانوں کو دہشت گرد تصور کرنے کی بجائے
انہیں امن، تعلیم اور بردباری کا داعی قرار دیا جائے۔ ضرورت عمل کی ہے اور
اب اس کے بغیر اپنی بقا خطرے میں ہے۔ |
|