مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سیکھائے

کسی بھی اچھی عادت کو اپنانے کے لئے یاد دہانی کا عمل بار بار دہرایا جائے۔ تو مکمل اختیار کرنے میں بھی ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں فائدہ و نقصان کے اسباب کو پہلے مد نظر رکھا جاتا ہے۔ تاوقتکہ اس میں خوف و جزا کا عنصر بھی نہ شامل کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر کسی گھر میں بڑے نماز و روزہ کے پابند ہوں۔ تو بچے صرف سال ہا سال دیکھنے سے راغب نہیں ہوتے۔ بلکہ انہیں باربار یاد دہانی کروائی جاتی ہے۔ اور بعض اوقات سزا و جزا کا مفہوم تفصیل سے سمجھایا جاتا ہے۔ یہی نہیں کسی بھی اچھی بات کو ذہن نشین کرانا مقصود ہو تو بار بار تلقین کی جاتی ہے۔ چاہے وہ سچ بولنا ہو۔ ایمانداری سے تولنا ہو۔ یا رشتوں کو محبت کی ڈوری سے کھولنا ہو۔ ہر کام کو پہلے بتایا پھر سمجھایا آخر میں ڈرایا جاتا ہے۔ تب جا کر وہ بات ذہن میں جگہ بنا پاتی ہے۔

انسانی سوچ میں یہی رویہ جو سمجھنے سمجھانے میں ہی زندگی کا ایک حصہ خرچ کر دیتا ہے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اور اس کے مقابلے میں اگر کسی گھر میں باپ جوا شراب کا رسیا ہو تو بیٹے کو کرنے کے لئے یاد دہانی کی ضرورت ہی نہیں۔ نہ ہی سال ہا سال کے انتظار کی اذیت۔ بچوں میں فوری قبولیت کا عنصر ایسے غالب آتا ہے کہ کہنے والے کہہ دیتے ہیں کہ مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سیکھائے۔ کیونکہ تیرنا اس کی فطرت میں ہے۔

مگر انسانی سوچ کا سمندر ایسے بھاری پانی پر بہتا ہے کہ ہر بری صحبت میں اختیار کی جانے والی عادت خود ہی تیراکی سیکھ لیتی ہے۔ مگر اس کے مقابل اچھائی غوطے پہ غوطہ کھاتی سیکھنے سیکھانے میں عمر کا ایک حصہ کھا جاتی ہے۔ اب اسی ایک بات کو لے لیں کہ گھڑی کی سوئیاں ہر سال ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کا عمل کئی بار دہرانے کے بعد بھی قبولیت عام حاصل نہیں کر پایا۔ جو آنکھوں سے دیکھائی نہ دے ایسے فائدے کو تسلیم کرنا بھی ایک کام رکھتا ہے۔ حالانکہ غور طلب بات یہ ہے کہ جن ملکوں میں یہ سسٹم رائج ہے یعنی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کا وہاں بجلی کبھی نہیں جاتی۔ مگر پھر بھی وہ دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ ملک جہاں بجلی 12 سے 18 گھنٹے بند رہتی ہے۔ وہ سال میں دو بار اس بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ گھنٹہ کے آگے پیچھے کرنے سے زندگی کے تسلسل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر دوکانیں اور مارکیٹیں بجلی کی بچت کے لئے جلد بند کرنے کا کہا جائے۔ تو جلوس نکل آتے ہیں۔ کاروبار میں نفع و نقصان کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اور اگر دیر تک کھولنے کی اجازت فراہم کی جائے تو لٹنے والے اور لوٹنے والے دونوں ہی خوش رہتے ہیں۔

بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو جو بھی عمل اجتماعیت کو فروغ دینے کے متعلق ہو۔ وہ پزیرائی حاصل نہیں کر پاتا۔ اور جو انفرادیت میں فروغ پائے وہ سند قبولیت جلد پاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ایک ہی فرق معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں میں اجتماعیت کا فقدان ہو جائے وہ انفرادی زندگی کے قبول اصول پر معاشرتی اقدار قائم کرتی ہیں۔ پھر وہاں قیادت بھی انہی میں سے ابھرتی ہے۔ جو انفرادی حیثیت میں بحیثیت قوم کے فرض منصبی سے عہدہ براء نہیں ہو پاتے۔
Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 96079 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.