معاشرے کا ناسور ۔۔۔دہشتگردی!!

16دسمبر2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں انسانی لبادۂ اوڑھے حیوانگی کی حدود کو چھونے والے درندوں نے معصوم کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ جس پر تھوڑی سی بھی انسانیت کے حامل نے مذمت کی اور اس بربریت کو حیوانیت سے تعبیر کیا۔ لیکن بعض درندہ صفت ایسے بھی نظر آئے جنہوں نے اسے معمولی نوعیت کا واقعہ قرار دیا۔ اس سکول میں زخمی ہونے والے طلباء جب واپس اپنے سکول پہنچے تو جہاں وہ اپنے دوستوں کے کھوجانے پر افسردہ تھے وہیں وہ دہشت گردی اور ظلمت کو علم کی روشنی سے ختم کرنے کا عزم بھی رکھتے تھے۔

جب ظالم اپنے ظلم کی داستان رقم کرچکا تو پاک آرمی نے ملک سے ان نام نہاد انسانوں کے خاتمے کے لیے کمر باندھی اور عزم صمیم کے ساتھ آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا پاکستان کے طول وعرض میں اس آپریشن کے تحت کاروائیاں کی گئیں اور دہشت گردوں کو قلع قمع کرنے میں اپنے مشن کو آگے بڑھایا۔ پورے پاکستان بالخصوص کراچی میں ظلم وستم، کرپشن، بھتہ خوری، قتل عام سمیت دیگر جرائم کے خاتمے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی۔

وہ ملک جس میں دہشت گردی اپنے عروج پرتھی۔ جس ملک کے سکول جاتے بچے نہیں جانتے تھے کہ واپس گھر پہنچ پائیں گے کہ نہیں؟ سودا سلف لینے گیا انسان یہ نہیں جانتا تھا کہ بازار سے زندہ گھر پہنچ سکے گا۔ مسجد میں نماز کے لیے جانے والا نہیں جانتا تھا کہ نماز مکمل کرپائے گا کہ نہیں۔ الغرض ہر روز ٹیلویژن کئی واقعات کی خبر سناتا۔ دہشت گردی کی انتہاء تو یہ تھی کہ وہ ملک جسے ’’لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اس ملک میں نعرہ تکبیر کو بلند کرکے مسجدوں اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ درسگاہوں اور خانقاہوں پر بم دھماکے کرکے معصوم لوگوں سے جینے کا حق چھین لیا جاتا رہا۔ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والے ملک میں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اہل اسلام کو بدعتی اور مشرک کہہ کر اپنے گھٹیا مقاصد میں کامیابی کے لیے شہید کردیا جاتا رہا ۔ لیکن پاک آرمی کے آپریشن ضرب عضب میں کافی حد تک کامیابی دیکھنے کو ملی۔ پاک فوج کے جوانوں نے اپنے فلک شگاف جذبوں سے دہشتگردوں کے حوصلوں کو پست کیا اور ان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ علی الاعلان دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے یاتو پس پردہ چلے گئے یا اپنے غلیظ نظریہ سے پھر گئے۔ اور پاکستان میں ایک لمبے عرصے کے بعد امن کی کچھ فضا دیکھنے کونصیب ہوئی۔

عرب ممالک میں جب خانہ جنگی شروع ہوئی تو تب بھی اسی ضرب عضب کی وجہ سے وہ خانہ جنگی پاکستان میں داخل ہونے سے قبل ہی ختم ہونے کے مراحل میں داخل ہوگئی۔ لیکن اہل اسلام ہمیشہ کی طرح اپنے اغیار کی چالوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ یمن اور سعودی عرب کا معاملہ کچھ حل ہونے کے قریب پہنچا تو سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم سمیت 46افراد کو سزائے موت دے دی گئی۔ جس وجہ سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بگڑ گئے۔ ایران میں سعودی عرب کے سفارتخانہ پر حملہ کیا گیا اور سعودیہ نے ایران کے سفیر کو ملک بدر کردیا نتیجتاً دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات ختم ہوگئے۔ امن کے خواہاں ممالک نے ثالثی کی پیشکش بھی کی لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ تو پاکستان نے اس موقع پر ایک عقلمندانہ فیصلہ کیا کہ وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف نے تہران اور ریاضکا دورہ کیا اور ثالثی کی حیثیت سے دونوں ممالک کی بگڑی ہوئی صورتحال کو کافی حد تک حل کردیا۔ اور یہ بھی ثابت کیا کہ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتاہے۔

چیف آف آرمی سٹاف ابھی عالمی جنگ کی جانب جاتے ممالک میں صلح کی راہ ہموار کر کے پاکستان پہنچے ہی تھے کہ بزدل دشمن نے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کر کے 14دسمبر کی یاد کو تازہ کردیا۔ لیکن اس دفعہ اس کا انتخاب معصو م کلی نما بچے نہ تھے بلکہ ملک وملت کی خدمت کے لیے تیاری کے مراحل میں پہنچنے والے تناور درخت تھے۔ جنہوں نے چند ماہ کے بعد اپنے والدین کا سہارا بننا تھا۔ اپنی صلاحتیوں کے بل بوتے پر ملک وقوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔ ان پھل دار درختوں پر پھل لگنے سے پہلے ہی دشمن نے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا اور پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر استاد سمیت تقریبا 19افراد کو شہید کردیا۔

وہ ملک جس کے بارے میں اب خیال کیا جارہاتھا کہ دہشتگرد چھپ گئے ہیں۔ وہ اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ اس ملک کو ایک مرتبہ پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ کیا اس افسوسناک واقعہ کے بعد پھر آرمی پبلک سکول کی طرح کوئی ضرب عضب کا آغاز کیا جائے گا اور ان کے لیے کوئی ایسا نغمہ تیار کیا جائے گا جس میں دشمن کو بچوں سے لڑاتا یا مظلوم بچہ دشمن کے بچے کو تعلیم دے کر بدلہ لینا چاہتا ہے جیسے جذبات کا اظہار کیا جائے گا یا پھر صرف تین دن کے لیے سوگ کا اعلان کرکے اس واقعہ کو پاکستان میں بیشمار ہونے والے واقعات کی فائلوں میں رکھ دیا جائے گا۔

اس واقعہ کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملک خداداد پاکستان میں اس وقت تک امن کی فضا قائم نہیں ہوگی جب تک ہر اس شخص کے خلاف آپریشن نہ کیا جائے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ دہشت گردی میں ملوث ہے۔ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والوں اور ان کے آلہ کار کو ختم نہیں کیا جائے گا۔ کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد تنظیم کا نام بدل کر وہی افراد پہلے والی کاروائیوں کو جاری رکھیں گے تو کیسے امن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے؟امن ملک میں اس وقت ہی آئے گا جب ملک میں بلاامتیاز آپریشن ہو اس پر کوئی کمیشن بنے تو اس کی رپورٹ پر عملدرآمد بھی ہو۔ دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے والا کوئی بینکار ہو یا صنعتکار، سیاستدان ہو یا نام نہاد عالم، عوام الناس میں سے کوئی یا اعلیٰ حکام میں سے۔

آج بھی یقینا بلدیہ ٹاؤن میں جلنے والے مزدور ذمہ داران کو سزا دئیے جانے کے منتظر ہوں گے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء ذمہ داران کو تلاش کررہے ہوں گے۔ قصور میں زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے اہل اقتدار سے انصاف کی توقع پر جی رہے ہوں گے اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی دوستی کے لبادے میں چھپے بھیڑے کو سزا ملتا دیکھنا چاہتی ہوگی۔ ایسے ہی ان گنت مقدمات منتظر ہوں گے کہ جیسے آرمی پبلک سکول کے بچوں کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا ہمارے مجرموں کو بھی ویسے ہی سزا دی جائے۔

ملک میں مکمل امن کے لیے معاشرتی اور اخلاقی دہشت گردوں کو بھی منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ اور اگر کچھ کو سزا دے دی اور کچھ کو اقتدار کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا تو پھر ملک خداداد میں مساجد ومدارس پر حملے کرنے والے بیباک ہوکر پھیریں گے۔ کبھی آرمی پبلک سکول کے بچوں کی طرح معصوم کلیوں کو کاٹ دیں گے تو کبھی باچا خان یونیورسٹی کے تناور درختوں کو کاٹ دیں گے۔ کبھی ڈاکٹر سرفراز نعیمی جیسے عظیم عالم کو شہید کریں گے تو کبھی صفورا جیسے سانحے ہمارے سامنے آئیں گے۔ پاک آرمی کے جذبوں کو سراہتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ جیسے پاک آرمی میدان عمل میں دہشتگردوں کا خاتمہ کررہی ہے ویسے ہی ہر پاکستانی شہری کو اخلاقی اور معاشرتی دہشتگردی کو آئینی وشرعی حدود میں رہتے ہوئے ختم کرنا ہوگا۔
abdul rehman jalalpuri
About the Author: abdul rehman jalalpuri Read More Articles by abdul rehman jalalpuri: 22 Articles with 26454 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.