اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں میں اب تک ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے ہیں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں پاکستانی نوجوانوں کا کردار کسی بھی لحاظ سے فراموش نہیں کیا جا سکتا پاکستانی نوجوان چاہے وہ استاد ہو یاطالب علم، اس کا تعلق مسلح افواج سے ہو یا پولیس سے،میڈیا سے ہو یاسول سوسائٹی سے، وہ چاہے کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتاہو وطن کی سالمیت و بقا کے لیے کٹ مرنے پر تیار رہتا ہے نائن الیون کے واقعے نے نا صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا پر ایک گہرا اثر ڈالا ہے دہشت گردی کی اس کاروائی نے جہاں دنیا کے امن کو تہہ و بالا کیا ہے وہاں عالمی منظر نامہ بھی بدل کے رکھ دیا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کے باعث پاکستان بھی دہشت گردوں کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا پورے ملک میں بم دھماکے اور خودکش حملے جاری ہیں آج وزیرستان ،پشاور، سوات ،بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی آگ سلگ رہی ہے دہشت گردی کی اس آگ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت سندھ اور پنجاب کے بہت سے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے دہشت گردی کی کوئی سرـحد نہیں ہوتی اور دہشت گردو ں کا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک ۔ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ہر حربہ اختیار کرتے ہیں ان کا اصل فوکس کم عمرنوجوان ہوتے ہیں جنہیں وہ مخصوص طریقوں سے اپنے رنگ میں ڈھال کر تخریب کاری کے لیے استعمال کرتے ہیں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم،عدم مساوات،جاگیر داری ،وڈیرہ شاہی،فرقوں کے درمیان مذہبی منافرت،انصاف کے حصول میں تاخیر، جدید تعلیم سے بے بہرہ ہونے اور استحصالی نظام کی بدولت یہ نوجوان بہت جلد دہشت گردوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں دہشت گرد نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے لیے مذہب کوبھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے بیروزگار اورمعاشرے کے ستائے نوجوان ، زندگی کی آ سائشو ں سے محروم دینی مدرسوں کے طالب علم ان کا آسان شکار ہوتے ہیں اور جلدہی دہشت گردوں کے دامِ فریب میں آجاتے ہیں وہ اِن کی اس انداز سے برین واشنگ کرتے ہیں کہ یہ معصوم نوجوان بخوشی خودکش بمبار بننے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں دوسری جانب یہ بات بھی لائق تحسین ہے کہ پاکستانی نوجوان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کاکردار ادا کر رہے ہیں امن جرگہ کی طرف سے قائم کردہ امن فورس ہو یا مساجد ،ا مام بارگاہوں،تعلیمی اداروں، کھیل ا ور ثقافتی اجتماعات کی سیکو رٹی کا معاملہ پاکستانی نوجوان رضاکارانہ طورپر اگلی صفوں میں نظر آئے گاپاکستانی نوجوان دہشت گردوں سے خوف زدہ نہیں لیکن انہیں احساس دلانے اور ان کے اندر بیداری کی لہر پیداکرنے کی ضرورت ہے صوبائیت، لسانیت، فرقہ واریت، وڈیرہ شاہی ،جاگیرداری،دہشت گردی اور استحصالی نظام کے خاتمے کے لیے نوجوانوں میں شعورو آگہی پیدا کرنادورِحاضر کا اہم تقاضا ہے اگر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے تو پہلے ان اسباب و علل کی بیخ کنی کرنی ہو گی جس کے باعث ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں صوبائیت،فرقہ واریت، لسانیت اور استحصال پر مبنی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کیا جائے اور انہیں ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس سے ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آسکیں انہیں دھتکارنے اور نظر انداز کرنے کی بجائے ہر سطح پر ان کی حوصلہ افزائی و پذیرائی کی جانی چاہیے ان کے اندر احساس محرومی ختم کرکے انہیں باوقار روزگار اور باعزت مقام دیا جائے ۔ مدارس میں دینی تعلیم کے سا تھ ساتھ عصری تعلیم کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تاکہ طلباء دین کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کی اہمیت سے بھی واقف ہو سکیں اور مستقبل قریب میں اعلیٰ ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں انہیں کسی قسم کی دقت پیش نہ آئے بلاشبہ پاکستانی نوجوانوں میں اسلام اور پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے وہ انسانیت کی فلاح اور ارض وطن کے دفاع کے جذبے سے سرشا ر ہیں ضرورت ہے تو بس ان کے جذبوں کو مہمیز دینے اور درست سمت میں ان کی رہنمائی اور تربیت کرنے کی تاکہ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں بالعموم اور دہشت گردی کے خلاف بالخصوص اپنا بہتر سے بہتر کردار ادا کر سکیں۔
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں!
Mukhtar Ajmal Bhatti
About the Author: Mukhtar Ajmal Bhatti Read More Articles by Mukhtar Ajmal Bhatti: 21 Articles with 18567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.