تین دہائیوں سے وائٹ ہاؤس کے ٹھیک سامنے احتجاج کرنے والی
انسانی حقوق کی ایک کارکن، 80 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
وائس آف امریکہ کے مطابق اسپین سے ہجرت کر کے امریکہ آنے والی کیسپیشن
پیکاچو کو عام طور پر لوگ کونی کے نام سے جانتے تھے۔ انھوں نے 1981ء میں
دنیا کو ایٹمی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لئے احتجاج کا آغاز کیا تھا۔
|
|
’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق، تین دہائی کا طویل عرصہ وائٹ ہاؤس کے
عین سامنے پلاسٹک کی ایک چھوٹی سی کٹیا میں شب و روز گزارنے والی خاتون،
گزشتہ دنوں بظاہر حالات کی سختی برداشت نہ کرسکیں۔ وہ کچھ عرصے سے قریب ہی
واقع ایک شیلٹر ہوم میں شب بسری کر رہی تھیں۔
احتجاج کے لئے بیٹھی ہوئی اس بزرگ خاتون نے اپنی عارضی پناہ کو مختلف نعروں
پر مشتمل بینروں اور پوسٹروں سے سجا رکھا تھا، جن میں ایٹمی ہتھیاروں پر
پابندی اور فلسطینیوں کو حقوق دینے سمیت دنیا کے تمام اہم انسانی مسائل کے
حل کا مطالبہ شامل تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ 2013ء میں پولیس نے انھیں احتجاجی کیمپ سے ہٹانے کی کوشش
کی تو ایک خاتون قانون داں پولیس کے آڑے آگئیں، جس کی وجہ سے پولیس انھیں
ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔
|
|
کونی نے 2013ء میں ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ
انھوں نے اپنی زندگی کے 30 برس وائٹ ہاؤس کے سامنے گزار دئے، تاکہ دنیا کو
تباہی سے بچا سکیں۔ امید ہے ان کی یہاں موجودگی کو دیکھتے ہوئے کوئی نہ
کوئی ایسا قدم ضرور اٹھائے گا جس سے خصوصاً بچوں اور خواتین پر تشدد کا
خاتمہ ہوسکے گا۔
کنسپشین پیکاچو عرف کونی کے احتجاج کے دوران انسانی حقوق کے ایک اور سرگرم
کارکن، ایلن تھامسن بھی ان کے احتجاج میں شریک ہوگئے اور برسوں ان کا ساتھ
دیا۔ اس کے علاوہ، کئی اور سرگرم کارکن بھی اس احتجاج میں وقتاً فوقتاً ان
کے شریک سفر رہے۔
تین دہائیوں کے دوران، انھوں نے کئی طوفانوں اور موسم کی سختیوں کا مقابلہ
کیا۔ لیکن، بالآخر، جان کی بازی ہار گئیں۔
|