سوچنے کی بات ہے

ایک شخص اپنی بوری میں پیسے ڈال کر سائیکل کے پیچھے باندھ کر جا رہا تھا۔ اسے رقم کی ادائیگی کرنی تھی، لیکن ان کی کرنسی ہی اتنی کم تھی کہ اسے مطلوبہ رقم بوری میں ڈال کر لے جانی پڑ رہی تھی۔ راستے میں اسکی بوری کا منہ کھلا اور پیسے گرنا شروع ہوئے۔ اسے اس بات کی خبر تب ہوئی جب وہ اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا۔ لیکن وہ اتنا پر اعتماد تھا کہ اس نے سائیکل اسی راستے پر موڑی اور پیسے اٹھاتا ہوا وہاں تک گیا جہاں اسکی بوری میں سے پہلی گڈی گری تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ نوٹوں کی ایک گڈی بھی کم نہیں تھی۔

ہاں! حیرت کی بات تو ہے، کیونکہ یہ واقعہ عمر بن خطاب یا عمر بن عبدالعزیز کے دور کا نہیں بلکہ یہ واقعہ کچھ سال پہلے کا ہے جس دور میں اپنے جسم کے اعضاء سلامت رکھنا بھی محال ہے۔ لیکن ایسا ہوا کیونکہ وہاں نظام ہی ایسا تھا کہ کوئی یہ جرات نہ کر سکا کہ اسکے گرے ہوئے نوٹ اٹھا سکتا۔ اور یہ نظام “طالبان کے افغانستان“ میں تھا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے، ایسے کئی واقعات اس دور سے منسلک ہیں۔ جہاں چور، چوری کرنے سے پہلے سو بار سوچتا تھا کہ پکڑا گیا تو اپنا ہاتھ بھی گیا، قاتل قتل کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا تھا کہ اپنی جان سے بھی جانا پڑے گا۔ لیکن وہ نظام ہم جیسے سہل پسند اور نام نہاد روشن خیال لوگوں کو ہرگز قابل قبول نہ تھا۔ کیونکہ اس نظام میں ہم عیاشی نہیں کر سکتے تھے، ہمارے جسموں کے بازار، فحاشی کے اڈے، شراب کا کاروبار، جوے کے اڈے، قتل گاہیں، کمزوروں کے حقوق پہ قبضہ اور ایسی کسی معاشرتی برائی کا تصور ختم ہوتا نظر آ رہا تھا، پھر ہمیں یہ کیسے قبول ہوتا۔ ایک طوائف کے ناچنے اور جسم فروشی سے کئی کمینوں کی معیشت جڑی ہوئی ہے۔ شراب کا زہر ہمارے نوجوانوں کی رگوں میں اتار کر کئی درندے عیاشی کرتے ہیں۔ جوے کے اڈوں پر بیٹھ کر کئی بدمعاش راتوں رات دوسروں کی جیبیں خالی کرتے اور اپنی بھرتے ہیں۔ کئی معصوموں کے خون سے کئی درندوں کے چراغ جلتے ہیں۔ کئی کمزوروں اور بے بسوں کا مال لوٹ کر کئی ڈاکو تفریح کرتے ہیں، پھر یہ نظام کیسے قبول کرتے۔ ہم سہل پسند ہی نہیں درندے، بدمعاش، اور ڈاکو ہیں کیونکہ ہم نے مل کر اس نظام کو جڑ سے اکھاڑا۔ “سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگا کر کروڑوں پاکستانیوں کو بیوقوف بنایا گیا اور آخر اس نظام کو ایسے ہاتھ میں سونپا کہ جس کے ہاں جنس کی قیمت سب سے کم ہے۔ جو معاشرتی بے راہ روی کو ترقی اور روشن خیالی سے تعبیر کرتا ہے۔

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا انسان اور بالخصوص ہم جیسا انسان ایسی کسی لگام کے بغیر اصلاح پا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! اگر ہم بے لگام رہ کر قانون کی پیروی کر سکتے تو الله تعالیٰ جہنم کو تخلیق نہ کرتا۔ پیدا کرنے والے نے اپنے قانون میں سختی رکھ کر ثابت کر دیا کہ اس انسان کو جب تک کسی انجام کا خوف نہ ہوگا یہ تخریب کرے گا۔ انجام کا خوف ہی انسان کو تعمیر پر لگاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس ملک میں اس نظام کے ہوتے کیا ہر شخص ہاتھ کٹوا کر پھرتا تھا یا ہر دن کسی کی گردن اتاری جاتی تھی؟ نہیں! ایسا نہیں تھا، یہ تو کچھ لوگوں کے ساتھ ہوا اور ان جیسے باقی سب توبہ کر گئے۔ لیکن اس نظام کا ہٹنا تھا کہ وہی بازار پھر سے گرم ہو گئے، وہی بے راہ روی، ڈاکے، قتل، فحاشی، عریانی، شراب اور عیاشی۔ جہاں انسانیت فخر کر سکتی تھی آج وہاں انسانیت شرم سے جھکی ہوئی ہے۔ روح تڑپ اٹھتی ہے یہ دیکھ کر کہ اس نظام کے بانی آج اپنے ہی ملک میں اپنے لئے جائے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کا قصور کیا تھا؟ صرف یہی کہ انہوں نے انسان کو انسانیت کی توہین سے روکا، فطرت کے قانون کی پیروی کروائی، فطری قانون کو نافذ کیا اور نام نہاد روشن خیال دلالوں نے ان کو ظالم اور دہشت گرد ثابت کر کے ان کے لہو سے ان کی مٹی کو تر کر دیا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ نظام سات سمندر پار دنیا کے “علمبردار“ اور انسانیت کے “رہبر“ امریکہ کو کیا تکلیف دے رہا تھا؟ جو اپنے ملک سے آج تک رنگ کی تفریق نہ مٹا سکا وہ دنیا کا علمبردار اور انسانیت کا رہبر افغانستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقے میں انسانوں کو ان کے کھوئے ہوئے حقوق دلانے آ گیا۔ آج بھی وہاں ایک گورہ، سفید فام اور ایک کالا، سیاہ فام کے طور پر جانا جاتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ اس کے دل میں افغانوں کے لئے کیسی محبت جاگ گئی کہ وہ اپنی معیشت داؤ پر لگا کر طالبان کے نظام کو مٹانے آ نکلا۔ جس کا باپ اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر ظلم کرتے نہیں تھکتا وہ پاکستان اور افغانستان کی پہاڑیوں سے دہشت کا حاتمہ کرنے نکل پڑا جبکہ یہیں پڑوس میں بھارت مظلوم کشمیریوں پر بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے لیکن طالبان کا چھوٹا سا گروہ دنیا کے لئے خطرناک بن گیا۔

ہاں! یہ گروہ خطرناک تھا اور ہے لیکن ان لوگوں کے لئے جو انسانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کے عادی ہیں۔ یہ چوروں، قاتلوں، باغیوں، بردہ فروشوں، زہر کے سوداگروں اور شیطانوں کے لئے خطرناک تھا۔ اور شیطان کے حمایتیوں کو یہ گروہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ شیطان تو دنیا کے کسی خطے میں اپنی طاقت کم ہوتے یا مٹتے نہیں دیکھ سکتا اور شیطان کے پجاری اس کی اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسانیت کے علمبرداروں اور شیطان کے پجاریوں کے درمیان جاری اس کشمکش میں ہم نے کیا کردار ادا کیا اور کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ “سوچنے کی بات ہے“۔
Nisar Zulfi
About the Author: Nisar Zulfi Read More Articles by Nisar Zulfi: 5 Articles with 5849 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.