ناقص پلاننگ اور ٹی ایم ائے کا رشوت خور عملہ اور کاہل افسرن ذمہ دار ہیں
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
لاہور میں چونکہ آباد ی کا دباؤ بہت زیادہ
ہے۔ ہر سال آبادی کی شرح میں اضافہ 8% کی شرح سے ہورہا ہے جس سے اگر دیکھا
جائے تو لاہور شہر کی مات مار کر رکھ دی ہے۔ کراچی میں امن و امان کی
صورتحال کا خراب ہونا۔چھوٹے شہروں میں ملازمتوں و دیگر روزگار کی ذرائع کی
کمی کے ساتھ ساتھ تعلیم اور علاج کی سہولتوں کا فقدان بھی بہت بڑی وجہ ہے
کہ لاہور شہر پر آبادی کا دباؤ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ دوسرا اہم عامل یہ
ہے کہ پنجاب دس کروڑ آبادی کا صوبہ ہے۔ اور اٹک سے لے کر رحیم یار خان راجن
پور کے دور دراز کے علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس صوبے کی قسمت کے فیصلوں کا
مرکز بھی لاہور ہے۔ پنجاب اسمبلی، سیکرٹریٹ ائیر پورٹ ودیگر دفاتر و لاہور
ہائی کورٹ ہونے کی بناء پر بھی دس کروڑ آباد ی کو لاہور کی جانب رجوع کرنا
پڑتا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ تقسیم ہندکے وقت سے لاہور میں رہائش رکھنے
والوں کی تعداد کے مقابلے میں دوسرئے شہروں سے آبادی کا بہاؤ لاہور کی جانب
جاری ہے۔ اِس وجہ سے لاہور میں ایک تو کھانے پینے کی اشیاء اور رہائشی
سہولیات دوسرئے شہروں کی نسبت کافی مہنگی ہیں۔میڈیا ہاوسز کی بہتات بھی
لاہور کی جانب رُخ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیے ہوئے ہے۔مشرف دور میں
پرائیوٹ اور پبلک سیکٹر میں یونیورسٹیوں اور میڈکل کالجوں میں بہت اضافہ
ہوا اور اب تقریبا ہر ڈوئیزنل ہیڈکوراٹر میں میں تعلیم کی سہولیات پہنچ چکی
ہیں۔لیکن پرائیوٹ یونیورسٹیوں کے قیام کی وجہ سے ڈگریوں کی لوٹ سیل لگی ہے
اور یوں کاغذ کی ڈگریوں کی بہتات ہے اور علم و تربیت کا دور دور تک کوئی
نام و نشان نہیں ہے۔ حکومت اشتہاروں میں تو خوب پھل پھول رہی ہے لیکن عوام
کا مہنگائی اور بجلی گیس کے بحران نے کچومر نکال رکھ چھوڑا ہے۔ لاہور میں
میٹرو ٹرین کی وجہ سے لوگوں کو جو سہولیات میسر آئی ہیں وہ یقینی طور قابلِ
تعریف امر ہے ۔ اِسی طرح اورنج ٹرین کا منصوبہ بھی عوامی سہولت کا بہت بڑا
سنگِ میل ہے۔لیکن لاہور کے مسائل شاید گھمبیر سے گھمبیر ہوتے ہوئے جارہے
ہیں۔لاہور میں تجاوزات کی بھرمار ہے اِس کی بنیادی وجہ قانون کی بالادستی
کا نہ ہونا اور مقامی انتظامیہ کا رشوت خور عملہ ہے ۔ اب حالت یہ ہے کہ
لاہور کے نواحی علاقوں میں بھی تجاوزات کا یہ عالم ہے کہ پیدل چلنا مشکل
ترین کام ہے۔لاہور کے ڈی سی او صاحب کو فوری طور پر تجاوزات کیخلاف بھر پور
اور بلا امتیاز آپریشن شروع کر دینا چاہیے۔دھرمپورہ سے مغلپورہ آتے ہوئے
ایک عظیم رائل پام کلب تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ رائل پام کلب وی وی آئی پی
شخصیات کی وجہ سے ہر وقت ٹریفک کے رش کا سبب بنا رہتا ہے۔ یوں دھرمپورہ سے
مغلپورہ تلک ٹریفک پھنسی رہتی ہے رائل پام کے ساتھ ہی چوبچہ ریلوئے پھاٹک
ہے اور اِس سے تھوڑا سا آگے گریفن گروانڈ سے پہلے ہی پھر ریلوئے پھاٹک
ہے۔اب اِن دونوں ریلوئے پھاٹکوں پر انڈر پاس تعمیر ہونا اشد ضروری ہے۔رائل
پام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پروگراموں اور وی وی آپی موومنٹ کی وجہ سے
ٹریفک کا جام رہنا معمول بن چکا ہے۔رائل پام سے لیکر مغلپورہ چوک تک پھل
بیچنے والوں کی ریٹرھیوں کی بھر مار ہے ۔ جہاں لوگ پھل خریدنے کے لیے رکتے
ہیں اور یوں رش لگا رہتا ہے۔اِسی طرح مغلپورہ چوک سے شالیمار چوک میں
تجاوزات کا عالم یہ ہے کہ فٹ پاتھ نام کی کوئی شے نظر ہی نہیں آتی۔مغلپورہ
چوک میں ٹریفک وارڈن کو ڈھونڈنے کے لیے کسی جادوئی عینک کی ضروت ہے۔ اِسی
چوک پر موٹر سائیکل رکشا والے اِس طرح دندناتے پھرتے ہیں جیسے کہ جنگل کا
قانون ہو۔مغلپورہ چوک سے رام گڑھ سٹاپ تک فٹ پاتھ سمیت کوئی راسے پیدل چلنے
والوں کے لیے میسر نہیں ہے۔ دکانیں ہیں کہ سڑک کے اوپر تک پھیلادی جاتی
ہیں۔شالیمار لنک روڈ میں تجاوزات کی بھرمار نے پیدل چلنا مشکل کر دیا ہے۔
اِس روڈ پر واحد ہسپتال شالیمار ہے جس سے ملحقہ شالیمار میڈیکل کالج بھی ہے۔
ایمرجنسی کے لیے اِس روڈ پر سے گزرنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ سڑکوں پر مختلف
قسم کی چیزوں کے اسٹال، فٹ پاتھ تو نظر ہی نہیں آتے۔ حالانکہ شالیمار باغ
قریب ہونے کی وجہ سے اِس سڑک کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے اور اِس سٹرک کو
بھی وی وی آئی پی کا درجہ کاغذوں میں حاصل ہے۔ ٹی ایم اے کے عملے کی ملی
بھگت سے بے شمار عارضی دکانیں سجی ہوئی ہیں حتی کہ سڑک پر ہونے والی ناجائز
تجاوزات پہ بننے والی دکانوں نے بجلی کے میٹر لگا رکھے ہیں۔مغلپورہ نہر کے
پل سے جیسے ہی شالیمار لنک روڈ پر آئیں تو انتہائی بے ہنگم قسم کا ہجوم چنگ
چی رکشوں کی بھرمار،ٹریفک جائے بھاڑ میں۔ چنگ چی رکشے والے حادثات کا موجب
بن رہے ہیں۔ساتھ ہی ریڑھیاں لگی ہیں اور ٹائر کو پنکچر لگانے والوں نے
مغلپورہ چوک سے گزرنا اذیت ناک بنا دیا ہے۔محسوس ایسا ہوتا ہے کہ ٹریفک
پولیس کے وارڈن یہاں صرف استراحت فرمانے کے لیے آتے ہیں۔ مجال ہے کہ ٹریفک
کو کنٹرول کریں۔ ساتھ ہی مغلپورہ تھانہ ہے۔ تھانے سے لے کر شالامار آنے تک
اگر فٹ پاتھ نظر آجائے تواُس کی تصویر کشی کر لینی چاہیے۔ رام گڑھ سٹاپ،چار
نمبر گلی سٹاپ پہ تو تل رکھنے کی جگی نہیں دکانداروں کی جانب سے فٹ پاتھ سے
آگے تلک سڑک پر قبضہ۔ ساتھ ہی قبرستان کیساتھ سڑک پر پھول بیچنے والوں کا
تاحیات مکمل قبضہ حتی کے سڑک پر ہی ڈیپ فریزرز رکھے ہیں۔جن میں اُنھوں نے
قبروں پہ ڈالنے والے ہار رکھے ہیں اور چوری کی بجلی سے مردوں کو ثواب
پہنچارہے ہیں اور جو زندہ ہیں اُن کو گزرنے تک کا راستہ نہیں دے رہے۔ تو
جناب قبرستان اور درس سٹاپ کی حالت بھی بہت پتلی ہے۔درس سٹاپ سے پیدل گزرنا
ناممکن ہے۔ مچھلی والے، کباب اور پھل بیچنے والوں نے درس سٹاپ سڑک کے اوپر
ایسے قبضہ کیا ہوا ہے جیسے یہ سڑک اُن کا وراثتی حصہ ہے۔ خواتین اور بچوں
کا تو یہاں ں سے گزرنا انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے۔درس سٹاپ سے شالیمار
ہسپتال تک فٹ پاتھ بمعہ سڑک تجاوزات کی نظر ہے اور یوں ہسپتال پہنچے تک
انتہائی جتن کرنا پڑتے ہیں۔ ڈی سی او لاہور کو ای میل کی وساطت سے متعدد
مرتبہ پیغامات دیے ہیں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی فیس بک پر کمپلینٹ کی ہے لیکن
الیکٹرنک میڈیا پہ شہری مشکلات کا ازالے کرنے کے دعوے دار بھنگ پی کر سو
رہے ہیں۔شالامارہسپتا ل سے لے کر شالیمار باغ کا بھی یہی حال ہے۔اگر ہرکام
خادم اعلیٰ نے ہی کرنا ہے تو بند کریں پھر سارئے محکمے۔ اتنی لمبی چوڑی
ملازموں کی فوج کیوں رکھی ہے۔ اِس علاقے میں آبادی کے بے پناہ دباؤ کی وجہ
سے شہری حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔آبادی کا دباؤ تو واقعی بہت
زیادہ ہے لیکن اِصل وجہ قوانین پر عمل درآمد کروانے والوں کی سُستی ہے۔ اگر
ٹریفک کے قوانین کی عملداری یقینی بنائی جائے اور ناجائز تجاوزات کا خاتمہ
ہوجائے اور وی وی آئی پی موومنٹ سے قوم کی جان چھوٹ جائے تو یقینی طور پر
اِس شہر میں ڈھنگ سے جیا جا سکتا ہے۔مال روڈ پر آئے روز مظاہرئے ہال روڈ
میکلوڈ روڈ، بیڈن روڈ،مال روڈ کے تاجروں کے زہر قاتل بن چکے ہیں اُن کا
کاروبار تباہی کا شکار ہے اور ٹریفک جام ہونے سے شہری ذلیل و خوار ہوتے رہے
ہیں۔ حالانکہ لاہور ہائی کورٹ یہ حکم صادر کر چکی ہے کہ مال روڈ پر جلوس نہ
نکالے جائیں۔لیکن قانون کی پاسداری کرنا تو ہمارئے معاشرئے میں بزدلی تصور
کیا جاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ جی پی او چوک انارکلی استنبول چوک ایوان عدل،
سیکرٹریٹ ، سیشن کورٹ پی ایم جی چوک ضلع کچہری، داتا دربار کے مقامات پر
ٹریفک جام رہتی ہے وجہ ٹریفک قوانین کی بالا دستی نہ ہونا اور نام نہاد وی
آئی پی کلچر کا تماشہ ہے۔ٹریفک وارڈن خود کو کسی سلطنت کا شہزادہ تصور کیے
ہوئے رہتے ہیں اور ہر وقت ٹولیوں کی صورت میں گپیں ہانک رہے ہوتے ہیں یا
پھر کانوں میں موبائل لگایا ہوتا ہے۔پوری معاشرئے کا ہوس زدہ اور بے حس
ہوجانا اِس حد تک ہے کہ ایمبولینس کو راستہ بھی دینے کو کوئی تیار نہیں ہے۔
لاہور کی پلاننگ کے حوالے سے حکومت مہنگے ہوٹلوں میں سیمنار کروالتی ہے
لیکن پلانگ سے بھی زیادہ ضروری یہ امر ہے کہ پہلے کی گئی پلاننگ کی بھی
پاسداری کی جائے۔ |
|