کسی بھی ملک وقوم کی ترقی میں تعلیمی ترقی
اور معیار تعلیم کی بلندی میں دراصل حقیقی کامیابی کا رازپنہاں ہے اورتاریخ
شاہد ہے کہ جس بھی قوم و ملک نے اپنی نئی نسل کی تعلیم وتربیت پر کوئی
سمجھوتہ نہ کیا اس نے ترقی وعروج کی منازل کوتیزی سے طے کیا اور جس نے اس
اہم شعبہ کو ذاتی یاسیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا تو اس کے نتائج پستی کی
صورت میں بھیانک ہی نکلے ،بہرحال ریاست جموں و کشمیر کے آزاد علاقے
آزادکشمیر میں 1947سے اب تک شعبہ تعلیم پر بجٹ کا سب سے بڑا حصہ خرچ ہورہا
ہے اور چھوٹے سے خطے میں حکومتی بجٹ کے علاوہ اپنی مدد آپ اوراین جی اوز کے
ذریعے بھی تعلیمی ترقی وفروغ کے لیے جو کچھ کھربوں روپے کی صورت میں خرچ ہو
چکا ہے اس لحاظ سے یہ چھوٹا ساخطہ تعلیمی ترقی کے لحاظ سے ایک ماڈل خطہ
ہونا چاہیے تھا۔ ہر آنے والے حکمران نے اپنے دعوؤں کے برعکس محکمہ تعلیم کو
ہی تختہ مشق بنا کر زیادہ تر میرٹ کے منافی ہی اساتذہ کو بھر تی کرکے محکمہ
تعلیم کو حقیقت میں’’ ایمپلائمنٹ ایکسچینج ‘‘ہی بنایا اور بدوں میرٹ ،خلاف
قانون اور بدوں استحقاق ذاتی پسند اورسیاسی وذاتی مفادات کے تابع ہی محکمہ
تعلیم میں تقرریاں عمل میں لائیں اور عملًا محکمہ تعلیم کو ترقی دینے کی
بجائے مفلوج بنانے میں دانستہ یانا دانستہ اپناکردار ادا کیا گوکہ کہ
متاثرین کی طرف سے ایسی خلاف قانون اور بدوں میرٹ تقرریوں کو اعلیٰ عدالتوں
نے ختم کرنے کے جرأت مندانہ فیصلے بھی کیئے مگر زیادہ تر فیصلے انفرادی سطع
کے ہی ہوتے رہے جس باعث حکمران اور محکمہ تعلیم کے’’ سیانے‘‘ اپنی من مرضی
کا کھیل کھیلتے ہی چلے گئے اورآج محکمہ تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے اورجب
بھی آزادکشمیر تعلیمی بورڈ کے نتائج سامنے آتے ہیں تو زیادہ ترپرائیویٹ
تعلیمی اداروں کے طباء طالبات ہی پہلی پوزیشنوں کے حامل ہوتے ہیں مگر پرکشش
مراعات ،تنخواہیں ۔ٹائم سکیل ،بگ سٹی الاؤنس ،انٹر ٹینمنٹ الاؤنس اور
دیگرآسائشیں حکومتی خزانے سے وصول کرنے کے باوجود مثبت نتائج سامنے نہ لانے
والوں کے خلاف حکمران بلند بانگ اعلانات اوردعوؤں کے باوجود پھرنہ جانے
کیوں مصلحت کاشکار ہو کر خواب خرگوش کے مزے لینے لگ جاتے ہیں پاکستان میں
2009ء کو قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا جسے 31دسمبر 2012ء کو زیر
نمبر41116-301کے تحت آزادکشمیر میں بھی نا فذ کیاگیا مگر اس بوجوہ
پرعملدرآمدنہ ہوسکا اورپھر آزادکشمیر کا بینہ اجلاس 9 جون 2015ء کے فیصلہ
کی روشنی میں تعلیمی پیکج کے نا م پر قومی تعلیمی پالیسی 2009 ء کے موئژ
نفاذ کے لیے 25نومبر 2015 ء کو زیر نوٹیفکیشن نمبر سیکرٹریٹ /ای اینڈ ایس
ای 15-24500-24510/ کے تحت 1037آسامیاں تابع شرائط تخلیق کرتے ہوئے
آزادکشمیر بھر کے 14بوائز ہائی سکولوں کو ہائیرسکینڈری 53مڈل سکولوں کو
ہائی اور70پرائمری سکولوں کو مڈل جبکہ 20ہائی سکولوں کو ہائرسیکنڈری 70
گرلز مڈل سکولوں کی ہائی اور83 گرلز پرائمری سکولوں کو مڈل کا درجہ دینے کی
نوید سنائی گئی اورنوٹیفکیشن کے مطابق آزادکشمیر بھر میں ایلمینٹری و
سیکنڈری سکولز کی ناگزیر اپ گریڈیشن اورسٹاف کی کمی کو پورا کرنے کے لیے
مفادعامہ کے پیش نظر اور قومی تعلیمی پالیسی کے تحت معیار تعلیم کے مقرر ہ
اہداف ،کوالٹی آف ایجوکیشن اورتعلیم تک آسان رسائی کے مقاصد کا حصول ظاہر
کیا گیا ہے اس نوٹیفکیشن میں 1037آسامیوں کے لیے تقرری بذریعہ مشتہروٹیسٹ
انٹرویوکرنے کا ذمہ دار محکمہ تعلیم کو لکھا گیا ہے اورمحکمہ تعلیم کو ان
آسامیوں کے جملہ اخراجات تنخواہ الاؤنسیز اپنے منظورشدہ بجٹ سے برداشت کرنا
لکھے گئے ہیں جبکہ نو تخلیق شدہ آسامیوں پر تقرری عارضی یا تابع توثیق
سلیکشن کمیٹی عمل میں نہیں لائی جائینگی اسی طرح جریدہ آسامیاں بذریعہ پپلک
سروس کمیشن جبکہ غیر جریدہ بذریعہ این ٹی ایس عمل میں لائی جائنگی اور پھر
یہ ظاہر کیا گیا کہ1037 آسامیوں پر جملہ اخراجات ایجوکیشن سیس کی شرح میں
اضافے کے باعث متوقع آمدن سے برداشت کیے جائینگے حکومت نے اس ضمن میں یکم
جولائی 2015 ء سے ایجوکیشن سیس کی شرح پانچ فیصد سے بڑھا کر 10فیصد کرکے
عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ پڑھا دیا ہے تعلیمی پیکج کے نوٹیفکیشن میں محکمہ
مالیات کی جانب سے 10نومبر 2015کے مراسلے کو نظر انذازکیا جاتا ہے کے الفاظ
بھی درج کئیے گئے ہیں جس سے یہ صاف ظاہر ہوتاہے کہ حکومتی پانچ سالہ مدت کے
آخری سال کے چندماہ میں دیا جانیوالا تعلیمی پیکج سیاسی بنیادوں پر محکمہ
مالیات کی بدوں منظوری اوربجٹ کی فراہمی کے بغیر عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہو
نیوالی آمدن سے دیا جائیگا جو کہ بادی النظرمیں بدنیتی پر مبنی معلوم
ہوتاہے جس کا مقصد تعلیمی ترقی نہیں بلکہ انتخابات کے قریب سیاسی مقاصد
تعلیمی پیکج کے پس پردہ کار فرماہیں اسی طرح تین سال قبل میرپور حلقہ نمبر
3 جہاں سے پہلے پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹرسلطان محمود ممبراسمبلی تھے
ان کی ایماپر 5 ہائی سکولوں کو اپ گریڈ کرکے ہائرسکنڈری کا درجہ دینے کے
اعلان کی بجائے وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید خطہ کی نے قومی تعلیمی
پالیسی کے مغائر کرتے ہوئے انٹرسائنس کالجز میں تبدیل کیا جس سے سکول
اساتذہ میں بڑی بے چینی پائی گئی اوربدانتظامی کی وجہ سے کئی اساتذہ کو
سرپلس اورتبدیل کیاگیا لیکن تین سال گذرنے کے باوجودتاحال ان کالجز میں
سائنس کلاسز کا اجراء ممکن نہیں ہوسکا اورچند کالجز میں سائنس کے پروفیسر
صاحبان آرٹس کے مضامین پڑھارہے ہیں اوران اداروں کواپنی عمارتیں بھی میسر
نہیں ہیں اورجب ان اداروں کو سائنس کالجز کادرجہ دیاگیا تو محکمہ تعلیم کے
’’سیانوں‘‘ میں سے کسی نے بھی وزیراعظم کو قطعی طورپر یہ بتانا پسند نہیں
کیا کہ ان اداروں میں دسویں کلاس کے کتنے کتنے بچے سائنس کی تعلیم حاصل
کررہے ہیں جبکہ کھاڑک ہائی سکول میں اپ گریڈ یشن کے وقت ایک بھی طالب علم
سائنس کا زیر تعلیم نہ تھا اورایسی ہی صورتحال ٹھارہ ،ڈڈیال گرلز سکول سمیت
میرپورکے دیگر اداروں کی بھی تھی اب جبکہ تین سال بعد بیرسٹرسلطان مستعفی
ہوکر پی ٹی آئی کے اکلوتے ممبر اسمبلی بن چکے ہیں تو ان اداروں میں اساتذہ
زیادہ اورطالبعلم کم ہیں اورمحکمہ تعلیم میں ایڈہاک ازم کو فروغ دیکر پڑھے
لکھے اور زہین نوجوانوں کی بجائے ذاتی اورسیاسی مقاصد کے لیے ایڈہاک
تقرریاں کی گئیں ہیں جس سے تعلیمی ترقی اور ایجوکیشن سٹیٹ کے دعوؤں کی قلعی
کھل جاتی ہے حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2009 ء کے تحت
حکومت اورمحکمہ تعلیم کے’’ سیانے ‘‘ہائی سکولوں کو ہائر سیکنڈری کا درجہ
دیتے جس پر حکومت اورمحکمہ تعلیم کو کسی قسم کے اضافی بوجھ کا سمامنا بھی
نہ کرنا پڑتا اورنہ ہی نئی تقرریاں کرنے کی ضرورت پڑتی جبکہ عملہ کی ضرورت
بذریعہ ترقیابی پوری کی جاسکتی تھی کیونکہ آکثر سینئر اورجونیئر مدرسین بھی
ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں جو ترقیابی کے طویل عرصہ سے منتظر بھی ہیں اور اس عمل
سے جہاں حکومت اوروزیراعظم کی نیک نامی ہوتی بلکہ اساتذہ تنظیموں کی بھی
حوصلہ افزائی ہوتی اوران کی کارگردگی میں بھی اضافہ ہوتا اورحقیقی معنوں
میں وزیراعظم آمد ہ انتخابات میں سیاسی اہداف بھی پورنے کرنے میں کامیاب
ہوتے جبکہ سینئر اساتذہ کی ترقیابی کی صورت میں خالی ہونیوالی آسامیوں پر
حکومت کونئی تقرریوں کے مواقع بھی میسر آتے یہاں پر یہ ا مر بھی قابل ذکر
ہے کہ محکمہ تعلیم کے ملازمین کو پہلے ہی ٹائم سکیل دیاجاچکا ہے
اوراکثراساتذہ سروس کی طوالت کی بنیاد پر -18 B ،B-19 کی آسامی کی تنخواہ
حاصل کررہے ہیں اوراکثریت کی تعلیمی قابلیت بھی ماسٹرڈگری ہے جو ماہر مضمون
کی اہلیت پر پورا اترتے ہیں ان کی ترقیابی کی وجہ سے حکومت پر کوئی مالی
بوجھ بھی نہ پڑتا بلکہ وہی مقاصد حاصل ہوتے جو موجودہ تعلیمی پیکج کے ذریعے
بدنظمی اوربدنامی حاصل کرکے محکمہ تعلیم کے ’’سیانے ‘‘اوروزیراعظم کی کچن
کیبنٹ میں شامل ایک بجائے 2 وزراء تعلیم وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھ کر
حاصل کرنا چاہتے ہیں اس متنازعہ تعلیمی پیکج کے اعلان سے وزیراعظم
آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کے آبائی ضلع کے دو حلقے حلقہ نمبر 3 اور4کو
مکمل طور پر نظر انداز بھی کردیا گیا ہے جس پر جہاں اپوزیشن لیڈروں سمیت
تمام اپوزیشن جماعتوں اورسنجیدہ فکر تعلیمی حلقے سراپا ء احتجاج ہیں وہاں
ان 2 حلقوں میرپور اورکھڑی شریف کے عوام بلخصوص پی پی کے چیالے بھی سراپاء
احتجاج ہیں کہ ہمیں کس قصورکی سزا دی جارہی ہے کہ تعلیمی پیکج میں ان دو
حلقوں کا بلیک آؤٹ کیا گیا ہے ہم نے تو دونوں حلقوں سے پیپلز پارٹی کے
امیدواروں کو جتایا تھا اورمیرپورکے ضمنی انتخابات میں بھی بی بی شہید کے
نام پر ووٹ دئیے تھے پھر بھی اپنوں نے ہی متنازعہ تعلیمی پیکج کی بجلیاں
ہمارے نشیمن پر گرادی ہیں یہاں پریہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حلقہ نمبر 4
کھڑی میرپور جہاں اب بھی ممبر اسمبلی پیپلز پارٹی کے ’’ لبادے‘‘ میں ہے مگر
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے خطہ کی نامورسیاسی شخصیت چوہدری نورحسین کی
عیادت کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ گرلزمڈل سکول تقی پور اورگرلز مڈل سکول
بلوارہ کو اپ گریڈ کیاجائیگا مگر وہ بھی تعلیمی پیکج میں نظر انداز کردئیے
گئے ہیں حالانکہ ان دونوں اداروں میں اپنی مدد آپ کے تحت مڈل کے ٹیچر ہی
ہائی کلاسوں کے طلبہء کو پڑھارہے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت وہاں اضافی
کلاس روم بھی تعمیرکئیے جاچکے ہیں اسی طرح مختلف اساتذہ کی تنظمیں بھی
متنازعہ تعلیمی پیکج سے نالاں ہیں اورشکوے گلے کرتے نظر آئی ہیں اوراساتذہ
کا کہنا ہے کہ اس پیکج سے ہمیں کوئی فائد ہ نہیں ہے کیونکہ تقرری شرائط کے
مطابق تقرریاں نیشنل ٹیسٹنگ سروس NTS کے تحت عمل میں لائی جاینگی لیکن
حکومت موجودہ تعینات اساتذہ کو پیکج کی آسامیوں میں تبدیل کرکے خالی
آسامیوں پر کرلے گی اور پچھلے بجٹ کے تبادلوں کی صورت پہلے سے موجودہ خالی
آسامیوں پر روائتی سیاسی تقرریاں کرلی جائینگی ان تمام حقائق اورتحفظات کے
پیش نظر موجودہ تعلیمی پیکج واضح تضادات کامجموعہ ہے جو حکومت سمیت اپوزیشن
جماعتوں ،عوام اور محکمہ تعلیم کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے جس سے اس کا
مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وزیراعظم
آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید شروع دن سے ہی آزاخطہ کو ایجوکیشن سٹیسٹ بنانے
اوریکساں نظام تعلیم رائج کرنے کے خواہاں ہی نہیں بلکہ عملًا انھوں نے
اعلانات سے بڑھ کر آزادخطہ میں ایک کی بجائے3میڈیکل کالجز تینوں ڈویژن میں
دئیے پہلی خواتین یونیورسٹی دی درجنوں سکولوں کالجوں کو اپ گریڈکیا اور اب
محترمہ بے نظیر بھٹوشہیدمیڈیکل کالج میرپور کومیڈیکل یونیورسٹی کا درجہ
دینے کا نوٹیفکشن جاری کر دیاگیاہے مگر کمزور میڈیا پالیسی کے باعث و ہ ان
کی تشہیرکروا کر بنیادی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں آزادحکومت کے
’’سیانے‘‘ وزرائے تعلیم اور بعض دیگر وزراء کی وفاق کے خلاف بیان بازی سے
دونوں حکومتوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے اور محبت واخوت کو پروان چڑھا
کر فنڈز حاصل کرنے کے بجائے نفرت کی بھینٹ چڑھاکر حکومت کی مفاہمتی پالیسی
کو سبوتاژ کرکے حکومتی اورعوامی مشکلات میں اضافہ کر دیاگیا ہے جبکہ محکمہ
تعلیم میں ریکارڈ بدنظمی کے دوران ایڈہاک تقرریاں کی گئی ہیں قواعد کی رو
سے جب بھی پبلک سروس کمیشن کے نامزکردہ امیدوار کا تقرر ہو جائے تو ایڈہاک
یا کنٹریکٹ تعینات ملازمین کا استحقاق نہیں رہتا اوروہ فارغ ہوجاتا ہے لیکن
آزادخطہ میں یہ عجیب طرفہ تماشہ شروع ہوا ہے کہ پبلک سروس کمیشن کے پاس اور
نامزد امیدوار کے نوٹیفکیشن تقرری کے بعد بھی محکمہ تعلیم کے اداروں میں
سیاسی بنیادوں پر تعینات ایڈہاک ملازمین عدلیہ کا سہارا لیکر حکم امتناعی
کی آڑ میں اپنی تعیناتی کو طوالت دے رہے ہیں اوراداروں کے سربراہان سیاسی
بے جا مداخلت باقاعدہ حسب سفارشPSCتعینات ہونے والے ملازمین کو اداروں میں
حاضر نہیں ہونے دیتے جس سے پورے محکمہ تعلیم میں بگاڑ بڑھ رہا ہے اسکے
علاوہ سکول سطح کی غیر جریدہ اسامیوں کے لئے تشکیل شدہ محکمانہ سلیکشن
کمیٹیوں کے سربراہان نے بھی تقرریوں کو باقاعدہ بنانے کیلئے مختلف اوقات
میں اخبارات میں اشتہارات دے رکھے ہیں لیکن عارضی ، مشروط، کنٹریکٹ تعینات
شدہ مدرسین /ملازمین جوکہ نئے تعلیمی قواعد کی رو سے مطلوبہ معیار پر پورا
نہیں اُترتے انہوں نے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر رکھے ہیں جس سے مشتہر
شدہ آسامیوں کے ٹیسٹ انٹرویو التوا کاشکار ہیں جس سے بھی محکمہ تعلیم بری
طرح بد انتظامی کا شکار ہے اور اسکے اثرات تعلیمی نظام پر بھی بری طرح اثر
اندا زہو رہے ہیں۔ درج بالا حالات کی وجہ سے محکمہ تعلیم کے آفیسران
اورمحکمہ حسابات کے درمیان بھی مشروط ،کنٹریکٹ اورعارضی تعینات ملازمین
تنخواہوں کی ادائیگی پر بھی سردجنگ کا ساماحول بن چکا ہے اور اس سارے امر
میں ایک سنگین مالیاتی بدنظمی یہ ہے کہ موسمی تعطیلات کے دوران ایک عدالتی
مقدمہ کی آڑ میں جملہ مدرسین آزادکشمیر اپنا سواری الاؤنس نہیں کٹوا رہے
مستقل ملازمین کی کٹوتی تو کسی وقت بھی ممکن ہو سکتی ہے لیکن عارضی ملازمین
کی فراغت کی صورت میں ان پیسوں کے ضیاع اور کٹوتی نہ کروانے کا ذمہ دارکون
ہوگا۔ بہر حال ا ب دیکھنا یہ ہے کہ تعلیمی ترقی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے ؟
خرد کو کہہ دیاجنوں اورجنوں کو خرد جوچاہے آپ کا حسن کر شمہ ساز کرے |