تعلیم اب بندوق کے سائے میں ۔۔۔۔۔۔
(Dr M Abdullah Tabasum, )
آپریشن ضرب عضب نے تحریک طالبان پاکستان کی
کمر توڑ ی ہے مگر آج دہشت گرد ایک بار پھر نئے روپ میں پنپ رہے ہیں دہشت
گرد ی کے واقعات میں کمی کا بلا شبہ اعتراف کرنا چائیے مگر گزشتہ دو سالوں
کے دوران دہشت گردی کے منظم بڑے واقعات سے انکار ممکن نہیں ۔۔سوچتا ہوں کہ
کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں ۔۔۔سانحہ آرمی پبلک اسکول ۔سانحہ چار
سدہ ،کراچی ایئرپورٹ پر حملہ،پشاور ایئر بیس پر حملہ،سندھ اور بلوچستان میں
بسوں میں نشانہ بننے والوں کو کیسے بھولا جا سکتا ہے کبھی یہ پولیوورکرز کو
نشانہ بنا کر پوری قوم کو معذور کرنا چاہتے ہیں تو کبھی علم کے معماروں پر
گولیاں برسا کر ہمیں مفلوج کر دیتا ہے ،ہر مرتبہ نیا انداز مگر مقصد ایک کہ
پوری قوم کو خوف و ہراس میں مبتلا رکھنا ہے اور آج نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے
کہ ملک کی 95فیصد درسگاہوں کو صرف اس لئے بند کر دیا گیا کہ دہشت گردی کا
شدید خطرہ ہے سیکورٹی الرٹس آنے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادایر ہمت ہار
جاتے ہیں اسکولز ،کالجز اور یونیورسٹیز کو بند کروانے میں عافیت محسوس کرتے
ہیں اور ہم یہ کہتے پھرتے ہیں کہ بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے
اور ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے ۔۔۔۔لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہے جب ہم
اپنے بچوں کو پڑھانے کے قابل ہو سیکیں گے آج دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر
ریاست تعلیمی اداروں کو صرف اس لئے بند کر دیتی ہے کہ فول پروف سیکورتی کو
یقنیی بنانا اداروں کے بس کی بات نہیں ہے سینکڑوں اسکولز کو صرف اس لئے سیل
کیا گیا ہے کہ ان کے اساتذہ اور اسٹاف بندوق سے نا آشنا ہیں ۔۔۔۔تکلیف دہ
بات ہے کہ قوم معمار قلم کا ہتھیار اٹھا کر جب اسکول کے مرکزی دروازے پر
پہنچتے ہیں تو ہیڈ ماسٹر یا استاف کو بندوق جیسا مہلک ہتھیار اٹھائے دیکھتے
ہیں ۔۔۔جس ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بندوق اٹھانی پڑے وہاں آنے والی
نسلیں سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں۔۔۔۔؟ صوبے میں دہشت گردی کا خطرہ اپنی
جگہ مگر کیا اب تعلیم بھی چھپ چھپ کر حاصل کی جائے گی پولیس و دیگر قانون
نافذ کرنے والے ادراروں نے حکومت پر واضح بتایا ہے کہ ضلع میں اتنی فورس
نہیں جتنے تعلیمی ادارے ہیں اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اسکول یا کالجز کے
باہر سیکورتی فراہم کی جائے اور دوسری طرف تعلیمی اداروں نے بھی بے بسی کا
مطاہرہ کیا ہے کہ جن سیکورٹی ادراوں سے گارڈ لیا جاتا ہے وہ بھی اتنا تربیت
یافتہ نہیں ہوتا قاریئن کو یاد ہو گا کہ راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا
تھا کہ پاکستان بچاوء تحریک کے آرگنائزر اور صحافی چوہدری جاوید کنول چنڈور
کا کہنا ہے کہ نیشنل گارڈ ایکٹ موجود ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے
قارئین کو یاد ہو گا کہ فرسٹ ایئر میں جا کر نیشنل کیڈٹ کور اور وویمن گارڈ
کی تربیت دی جاتی تھی جس کا بنیادی مقصد طلباء و طالبات میں جذبہ حب الوطنی
کے ساتھ ساتھ اپنے دفاع کی تربیت دی جاتی تھی اور وقت آنے پر اپنے دشمن سے
نبردآزما ہونا سکھایا جاتا تھا آج جب ملک میں دہشت گردی کا وار تعلیمی
اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو پاکستان کے تمام کالجز،اور یونیورسٹی
میں دوبارہ نیشن کیڈٹ کور اور وویمن گارڈ کی ٹریننگ شروع کروائی جائے
کیونکہ طلباء اور طالبات کو ان حالات میں اپنے بچاؤ کا طریقہ آنا ضروری ہے
اس ضمن میں وزارت داخلہ اور خصوصا پاکستان کے تمام سرکاری اور پرائیوٹ
اداروں میں فی الفور شروع کیا جائے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔یعنی اب
پاکستان میں تعلیم بندوق کی محتاج ہو چکی ہے پہلے بندوق کے مقابلے میں قلم
کو بطور ہتھیار کی مشال دی جاتی تھی اور آج بندوق اور بارود کا سہارا لے کر
ہم اپنی تعلیمی درسگاہوں کو چلائیں گے حکومت پرائیوٹ کمپنیوں کے گارڈز کو
پولیس لائن میں خصوصی تربیت دے کے اس قابل بنا دے گی کہ وہ بدوق کا با
آسانی استعمال کع سیکیں گے ۔۔۔۔ ،لیکن جو کام حکومت اور حکومتی اداروں کے
کرنے کے تھے ان پر سنجیدگی اختیار نہیں کی گی ان میں دہشت گردی کے لئے
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سمیت کمیونیکشین کی جدید سہولتوں کے غلط استعمال کی
روک تھام دہشت گرد تنظیموں کے سہولت کاروں کا خاتمہ اور مسلح تنظیموں کی
زیر زمین سرگرمیوں کو روکنے کے اقدامات ،افغان مہاجرین کا مسئلہ ،فاٹا میں
اصلاحات،فرقہ وارانہ دہشت گردی پر قابو پانا ،بلوچستان میں مفاہمتی عمل کی
رفتارمیں تیزی لانا اور فوجداری قوانین کے نظام کو بہتر کرنا خاص طور پر
قابل ذکر ہیں ۔۔۔۔۔۔سب سے بڑا مسئلہ ’’پاک افغان سرحد‘‘کو محفوظ بنانے کا
ہے طور خم سرحد سے روزانہ بارہ سے پندرہ ہزار اور چمن باڈر سے آٹھ سے دس
ہزار افراد بلا روک توک پاکستان آتے جاتے ہیں ان کی آڑ میں دہشت گرد با
آسانی آتے جاتے ہیں ۔۔۔۔باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملہ کرنے والے اسی
طریقے سے اائے تھے 26سو کلو میٹر طویل سرحد ایسے لوگوں کے لئے بڑی آسانیاں
فراہم کرتی ہے جسے محفوظ بنانے کے لئے باڈر مینجمنٹ سسٹم شروع کرنے کی
تجویز پر غور ہو رہا ہے اور یہ معاملہ کسی اور نے نہیں کود آرمی چیف جنرل
راحیل شریف نے اعلی سطح پر اٹھایا ہے اگر اس منصوبے پر عمل ہو جائے تو سرحد
پار سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکی جا سکتی ہے ،دہشت گردی فاٹا خیبر
پختونخوا اور بلوچستان ہی میں نہیں سندھ اور پنجاب میں بھی ناسور کی طرح
پھیل رہی ہے ۔۔۔۔اور دہشت گردوں کو مالی اور اسلحہ کی سہولت فراہم کرنے
والے بھی یہاں موجود ہیں راقم کی معلومات کے مطابق پاکستانیوں کے پاس
تقریبا سات کروڑ ہتھیار موجود ہیں جن میں سے صرف 50لاکھ لائسنس یافتہ ہیں
۔۔۔۔۔اور بعض صورتوں میں ایک ایک لائسنس پر کئی کئی ہتھیار جاری کئے گئے یہ
سلسلہ بھی بند ہونا چائیے ۔۔۔۔دہشت گردی کے واقعے کے بعد جائزہ لینا ضروری
ہے کہ کیا کمزرویاں اور کامیاں تھیں جن کا دہشت گردون نے فائدہ اٹھایا ہے
،۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|