کرپشن و بدعنوانی برقرار! کیا ہوا تیرا وعدہ؟
(Moulana Nadeem Ansari, India)
ملکِ عزیز ہندوستان کی برسرِ اقتدار حکومت
نے اقتدار میں آنے کی خاطر جو خواب عوام کو دکھائے تھے، ان میں بیرون ممالک
سے کالادھن واپس لانا، ملک میں بڑھتی مہنگائی پر روک تھام لگانا اور اسی کے
ساتھ کرپشن و بد عنوانی کا خاتمہ کرنا بھی شامل تھا لیکن تقریباً 20مہینے
گزر جانے کے بعد بھی کالادھن واپس آیا نہ کرپشن کیاوسط میں کوئی کمی واقع
ہوئی اور مہنگائی نے تو ’ترقی کی نئی منزلوں کو جا چھوا‘ہے۔یہ باتیں عام
مشاہدے کے سوا اخبارات کی زینت بنتی ہی رہتی ہیں لیکن ان پر کاری ضرب اس
وقت لگی جب کرپشن سے متعلق سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم
نے یہ نتیجہ پیش کیا کہ ہندوستان کرپشن کی لعنت کو ذرہ برابر بھی کم کرنے
میں ناکام رہا ہے۔ انتخابی منشور میں داخل ہونے کے باوجود اس اہم مدّے سے
جس طرح صرفِ نظر کی گئی، اس کے بعد تو عوام ’زبانِ حال سے اپنے ’پردھان
سیوک‘ سے یوں ہی گویا ہے ’کیا ہوا تیرا وعدہ‘؟
ہم نے پہلے بھی اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ کرپشن کی تاریخ بہت قدیم ہے
یہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ اس پر کبھی مکمل طور پر
قابو نہیں پایا جا سکا۔ اس وقت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر تمام ممالک اس کی
لپیٹ میں ہیں اور اس سے گویا جمہوری ملک کی عمارت چرمراکر رہ گئی ہے، ہماری
یہ باتیں اس حالیہ رپورٹ نے واضح طور پر ثابت کر دی ہیں۔ بدعنوانی انصاف
میں رکاوٹ اور معاشی و معاشرتی ترقی میں سْستی کی محرک ہے۔ آج کے برق رفتار
زمانے میں ہر چیز شاخ در شاخ ہوتی جا رہی ہے، آج نیکیوں کے راستے بھی اَن
گِنت ہیں اور گناہ کے بھی، یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ اپنے لیے کیا پسند
کرتا ہے۔کرپشن، بدعنوانی اور رشوت سماج کا ایسا ناسور ہے جس نے نہ جانے
کتنی زندگیاں تباہ کر دیں لیکن اس پر کسی طرح روک تھام لگتی نظر نہیں آتی۔
آج کے اس ’ترقی یافتہ دور‘ میں اس کی کوئی خاص صورت متعین کر پانا بھی
نہایت مشکل امر ہو گیا ہے، کیوں کہ اب یہ معاملہ محض نوٹوں کے سہارے طے
نہیں پاتا بلکہ کوئی ’ہدیہ‘’ تحفہ‘بھی اس کے قایم مقام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
بہ الفاظِ دیگر رشوت، بدعنوانی کی ایک ایسی قسم ہے، جس میں نقد یا تحفہ
وغیرہ دے کر وصول کرنے والے کے طرزِ عمل میں بدلاو لایا جاتا ہے، جس کا
مقصد وصول کنندہ کے اعمال پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔کبھی یہ پیش کش دینے
والوں کی طرف سے ہوتی ہے، کبھی لینے والے کی طرف سے اسے کمیشن یا ڈونیشن
جیسے ناموں سے موسوم کرکیسندِجواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،جس کی
حقیقت سب پر عیاں ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں صراحت کی ہے کہ ابھی بھی
کئی ایک ملکوں کو کرپشن سے نجات حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ
رہا ہے۔کرپشن پرسیپشنز انڈیکس 2015ء میں خاص طور پر برازیل اور ملیشیا کا
حوالہ دیتے ہوئے کہا گیاہے کہ کئی ایک ممالک کو بدعنوانی سے نجات حاصل کرنے
میں کافی زیادہ مشکلات پیش آرہی ہیں۔رپورٹ کے مطابق جن 168 ملکوں میں کرپشن
کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیاہیان میں لاطینی امریکی ملک برازیل کی
کارکردگی سب سے زیادہ خراب ہے۔ گذشتہ جائزے میں برازیل 69 ویں نمبر پر تھا
جب کہ حالیہ جائزے میں یہ ملک خاص طور پر اپنی معدنی تیل کی ریاستی کمپنی
پیٹروبراس میں رشوت ستانی کے ایک بڑے اسکینڈل کے باعث یک مشت سات پوائنٹس
کے فرق سے 76 ویں مقام پر ترقیِ معکوس کر گیا ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے
مطابق بدعنوانی کے عفریت نے ملیشیا کو بھی پوری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔
گذشتہ برسوں کی طرح اس رپورٹ میں ڈنمارک، فن لینڈ اور سویڈن سب سے کم کرپشن
کے ساتھ سرِفہرست رہے ہیں جب کہ افغانستان، شمالی کوریا اور صومالیہ جیسے
جنگوں اور بحرانوں کی زَد میں آئے ہوئے یا آمرانہ نظام کے حامل ملک سب سے
زیادہ بدعنوان قرار پائے ہیں اور فہرست میں سب سے آخر میں رہے،جو کہ لازم
تھا۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے برازیل، ہندوستان اور جنوبی افریقہ سمیت
برِکس بلاک کے تمام رکن ملکوں میں کرپشن کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا
ہے۔اس رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ 44 پوائنٹس کے ساتھ 61 ویں نمبر پر رہا
اور برازیل و ہندوستان دونوں 76 ویں نمبر پر رہے ہیں اور دونوں کے اڑتیس
اڑتیس پوائنٹس ہیں۔ برِکس ملکوں میں چین کی پوزیشن سب سے خراب ہے اور یہ
ملک محض سینتیس پوائنٹس کے ساتھ 83 ویں نمبر پر رہا ہے، جب کہ اسے خوش حال
سمجھا جاتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس رپورٹ کے اجرا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے عوام
سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں پر زور دیں کہ کرپشن کی لعنت کو جڑ
سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ضروری اصلاحات متعارف کروائی جائیں، ویسے اس کے
علاوہ اور کوئی چارہ بھی نظر نہیں آتا لیکن ہمیں یہ فکر لاحق ہے کہ کیا
ہمارے ملک کے عوام اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے یا آیندہ
انتخاب کے موقع پھر سیاسی جماعتوں کے منشور میں یہ دفع اسی طرح زینت بخشتی
رہے گی؟اس لیے کہ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ ہمارے سیاست داں کوئی وعدہ وفا
کرنے کی نیت سے نہیں کرتے ، اسی لیے وہ بڑے سے بڑا وعدہ کرنے سے کبھی نہیں
چوکتے کہ نبھانا تو ہوتا نہیں! |
|