ترقی سے پہلے

لکھنے والے ہمیں الجھا رہے ہیں ۔بولنے والے راہ سے بھٹکا رہے ہیں ۔ہر کسی کے پاس اپنا راگ ہے اپنی تھیوری ہے۔دنیا ہم پر ہنس رہی ہے کہ یہ کئسے لوگ ہیں سب سے پہلے بوٹ پہن کر بابو بننے کے چکر میں ہیں۔پورا جسم ننگا ہے مگر ہم ٹائی ٹانگ کر مہذب بننے کے خبط میں مبتلا ہیں۔میٹرو بنتی ہے تب بھی دانشور دو حصوں میں بٹ کر صف آراء ہو جاتے ہیں۔بحث بھی چلتے رہتی ہے پراجیکٹ بھی چلتا رہتا ہے ہر کوئی اپنی جگہ خوش رہتا ہے۔دنیا کی نقالی کے چکر میں ہم نہ تیتر رہ گئے ہیں نہ بٹیر۔اب اورنج لائن کا نیا طوفانی نسخہ اترا ہے جسے ملک وقوم کی آکسیجن کی نالی قرار دیا جا رہا ہے۔ایک طرف تھر کی قحط سالی ہے دوسری طرف یورپ کی نقالی ہے۔ایک ہی ملک ہے ہر کسی کی اپنی اینٹ ہے الگ ہی مسجد ہے کہنے کو سب مسلمان ہیں بھائی چارے اور ایثار سے خالی مسلمان۔یونیورسٹی سے فراغت کے بعد ہم جاب ڈھونڈنے کے لئے خوار ہو رہے تھے ایک دوست جس نے یونیورسٹی تھرڈ ائیر سے ہی سی ایس ایس کے ایگزام کو ٹارگٹ کیا ہوا تھا ایک دن علی الصبح آن پہنچا۔اس کا سول سروس کا انٹرویو تھا ۔اس کی شاپنگ کے لئے اس نے مجھے ساتھ لیا اور مال روڈ جا پہنچا۔ اس کے بعد پینوراما سے لبرٹی تک جو بھی ملبوسات جوتوں کی دکان نظر آئی موصوف نے چھان ماری تھری پیس سوٹ تو موصوف کو پسند آگیا مگر بوٹ تمام تلاش بسیار کے باوجود پسند نہ آسکے۔اس دن کے تمام سفر میں میرے پاس بور ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔مجھے گیم میں ان رکھنے کے لئے رسمی طور پر میرا یار اشیاء کے بارے میری رائے بھی معلوم کر لیتا تھا ۔میں بھی پوری بد دلی سے رائے سے دیتا تھاکیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اس نے کونسا میری رائے سننی ہے۔رات گئے جب ادھوری شاپنگ ختم ہوئی تو کھانے کی میز پر میں نے اس سے جل کر پوچھا کہ یار وہاں انٹرویو میں نمبر کپڑوں جوتوں کے ملنے ہیں یا سوالوں کے جوابات کے اس کا خیال تھا کہ امپریشن کاؤنٹ کرتا ہے فرسٹ لک ہی سب کچھ ہوتی ہے تم پینڈو بھلا کیا جانو۔میرا خیال الٹ تھا کہ ٹائی کوٹ شوز بھلے ہی جتنے امپورٹڈ ہوں اگر سوالوں کے جواب نہیں دے پاؤ گے تو سب محنت بیکار جائے گی ہم دونوں بحث میں الجھے ہے انٹرویو گذر گیا میرے یار نے انٹرویو تو پاس کر لیا مگر allocation نہ ہو سکی۔اس نے ہمت نہ ہاری دو سال بعد پھر ایگزام دیا انٹرویو کی کال آئی تو میں نے پوچھا کہ سناؤ استاد پھر چلیں لاہور خواری کرنے ۔اس نے قہقہ لگایا اور بولا نہیں یار پرانا والا مال پڑا ہے اسی سے ہی کام چلا لوں گا۔کام ایسا چلا کہ جوان نے ملک بھر میں اوپن میرٹ پر چوتھی پوزیشن حاصل کی۔اس نے مبارکباد وصول کرنے کے بعد کھلے دل سے اعتراف کیا کہ یار کاسمیٹکس ہی سب کچھ نہیں ہوتی قابلیت نہ ہو تو سب بیکار جاتا ہے۔اس سے میں نے جب بھی میٹرو نما منصوبوں کے باری میں پوچھا تو اس نے اس حکومتی کاسمیٹکس لیپا پوتی قرار دیا۔ دہشت گردی کا شکار ملک لاتھ میٹرو بنا لے لاکگ میگا پراجیکٹس شروع کر لے سب کچھ ڈر کے سامنے زمین بوس ہو جائے گا۔

چند دن پہلے اسلام آباد جانا ہوا تو ایک میٹرو اسٹیشن کی زیارت کا بھی موقع ملا ۔ادھڑا ہوا اسٹیشن ،مٹی سے اٹے اوور ہیڈ برج ،جام ہوئی الیکڑک سیڑھیاں جگہ جگہ گندگی اور تھوک یہ بتا رہے تھے کہ یہ عوام ابھی کنگھا کرنا نہیں سیکھ پائی اور ہم اسے برانڈڈ شوز پہنانے کے چکر میں ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دور سے گلابی گلابی میٹرو اسٹیشنز یہ احساس دلاتے ہیں کہ جیسے آپ یورپ کی کسی اسٹیشن کا نظارہ کر رہے ہوں۔نزدیک جا کر ہنسی اور چیخ دونوں ایک ساتھ نکل جاتی ہیں۔لفٹیں خراب ہو چکی ہیں برقی سیڑھیاں ناقص میڑیل کی وجہ سے تباہ حالی کا شکارہیں ۔صفائی کا کوئی خاص انتظام نہیں اگر ہے تو صفائی عوامی جہالت کے باعث نظر نہیں آتی۔بسوں کے اندر کا حال تو سواری کرنے کے بعد ہی پتا چلے گا ۔دور سے تو لال بسیں دیکھ کر یورپ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔اس سب چکا چوند کو چھوڑ کر آپ کسی سرکاری ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کا چکر لگا لیں تو آپ کو پختہ یقیں ہو جائے گا کہ ہماری سمت بالکل غلط ہے۔ہمارے بچے لاء اینڈ آرڈر کے مسئلے کی وجہ سے اسکول نہیں جا پا رہے۔ہماری پولیس ایک ڈمی سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی ۔ہسپتالوں تک میں خوف کے سائے لہرا رہے ہیں ۔ترقی کرنے کا بھی ایک sequence & pattern ہوتا ہے۔صبح تیار ہوتے وقت ہم سب سے پہلے بوٹ نہیں پہننا شروع کر دیتے ۔سب سے پہلے نہا دھو کر مناسب لباس زیب تن کرتے ہیں ۔ناشتا کرتے ہیں ۔سب سے آخر میں بوٹ پہن کر پالش کر کے روانہ ہوتے ہیں۔جب گھر میں بے سکونی اور افراتفری پھیلی ہو ۔ہو طرف گندگی اور گرد کے انبار لگے ہوں بچے خوف زدہ ہوں ۔آپ خود گھر سے نکلنے کے بعد حسرت کے ساتھ غحر کی طرف مڑ کر بھاری دل کے ساتھ دیکھتے ہوں یہ سوچ کر کہ کیا معلوم یہ گھر اور گھر والوں کا آخری دیدار ہو جب حالات اتنے گھمبیر ہوں تو خالی چمکتے امپورٹڈ بوٹ پہن کر ترقی کے نعرے لگانے والوں پر دنیا صرف قہقہے ہی لگایا کرتی ہے۔کوئی مانے یا نی مانے لاہور سے ملتان تک ہر شہر کے شریف باسی شام سات بجے کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں ۔معاشرے پر خوف کا راج ہے اور ہم آنکھیں بند کئے ترقی کی محبوبہ کے حسن میں غرق ہونے کو بے تاب ہیں۔ہم سچ نہیں بول پا رہے ۔عوام حکمرانوں کو دھوکہ دینے پر تلے ہیں ۔یہ دھوکہ ڈبل ہو کر عوام کی طرف واپس آ رہا ہے۔جو کوئی پورا سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے اسے پاگل قرار دے کر سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے۔سوشل میڈیا کیوں ایک حقیقت بن چکا ہے۔جن لوگوں کے سچ کو ہم پاگل پن قرار دے کر سننے سے انکار کرتے ہیں جن کے سچ کو کوئی چینل جگہ نہیں دیتا جن کی بات کہیں نہیں چھپتی ۔ان کی بات ان کا ایک ایک لفظ سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتا ہے۔ہم مین ریلوے سسٹم کے پھٹے پرانے جوتے ری پیئر نہیں کر پا رہے لیکن شہروں میں ٹرین سروس شروع کرنے کی خواہش جنون کی حد کو کراس کر چکی ہے۔آج تک کوئی اسٹوڈنٹ ڈائریکٹ یونیورسٹی نہیں گیا۔کچی پکی کی سیڑھیاں چڑھ کر ہی ماسٹرز ڈگری کے آخری زینے تک پہنچا جاتا ہے۔ہم نے اگر واقعی ہی ترقی کرنی ہے تو ہمیں سب کچھ روک کر ترقی یافتہ ملکوں کے توقی کے سفر کا نقطہ آغاز سے ان کے ماضی کا جائزہ لینا ہو گاکہ وہ کن سیڑھیوں پر چڑھ کر ترقی کے آخری زینے تک پہنچے ہیں ۔ترقی کی بھی ایک ترتیب ہے جو کوئی اس ترتیب کو گڈ مڈ یا الٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ اس کے ساتھ ایسا مذاق کرتی ہے کہ دنیا اس پر ہنستی ہے۔جب وسائل کم اور مانگ تانگے کے ہوں تو ان کو مغلیائی ذہنی خواہشات کے محل تعمیر کرنے کی بجائے بنیادی ضرورتوں پر خرچ کرنا ہی دانش مندی ہوتی ہے۔باقی آپ لاکھ میک اپ کر لیں بھدے چہرے پہلی بارش کے ساتھ ہی دھل کر مزید بدنما ہو جاتے ہیں ۔
Muhammad Rizwan Khan
About the Author: Muhammad Rizwan Khan Read More Articles by Muhammad Rizwan Khan: 24 Articles with 20016 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.