تعلیم کہانی

پرائیویٹ و سرکاری سکولوں کی حالت زار
تعلیم حاصل کرنا ہر دور میں انسان کی ضرورت رہا ہے اور جن قوموں نے اِس کی اہمیت کو سمجھا آج وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پہ ایک سرسری نظر ڈالتے ہوے آغاز سرکاری سکولوں سے لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں بنیادی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، بجلی تو ویسے ہی نایاب ہو چلی ہے جبکہ پانی، بیت الخلاء اور بعض سکول تو چاردیواری تک سے محروم ہیں۔ سرکاری سکولوں میں طلباء کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ایک کمرہ جماعت میں دو دو کمرہ جماعت کی تعداد کے برابر طلباء براجمان ہیں اگرچہ کمرہ جماعت میں طلباء کی تعداد کے برابر فرنیچر نہیں، بعض اوقات تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں طلباء کو برآمدہ ہی میں نورِ علم سے فیض یاب ہونا پڑتا ہے جبکہ بارش ہونے کی صورت میں مذکورہ جماعت کو چُھٹی دینے کے علاوہ کوئی حل نہیں ہوتا۔ پنکھے قدیم وقتوں کے لگے ہوئے ہیں جو اپنی مرضی سے گھومتے ہیں البتہ اِن کی ٹھنڈک سردیوں میں محسوس کی جا سکتی ہے، سورج روشنی کا اولین ذریعہ ہے لہذا حتی الامکان اِسی سے کام لیا جاتا ہے، پینے کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں ٹھنڈا ہونا تو دور کی بات۔ 500 کی تعداد کے لیے 3 باتھ روم اور اُن کی حالت بھی قابلِ کراہت (واللہ، ایک دفعہ جانے والا دوسری بار جانے کے تصّور ہی سے کانپ اُٹھے)۔

سرکاری سکول ٹیچر کے متعلق بھی سُنتے چلئیے۔ ہمارا اُستاد: میٹرک پاس یا پھر ایف اے پاس اور تقریبا تقریبا ریٹائرمنٹ کے قریب قریب جبکہ سلیبس جدید جسے پڑھانا اِس کے بس کی بات نہیں۔ سکول سے کبھی کبھار(ہونا تو اکثر چاہیے لیکن خیر اِسی پہ اِکتفا کرتے ہیں) غیر حاضر ہونا اِس کے لیے عام بات ہے اور اگر حاضر ہو تب بھی طلباء پہ توجہ دینا شاید اِس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ پڑھانے نا پڑھانے کا دارومدار اِس کے (غیر مستقل) موڈ پہ ہوتا ہے۔ صرف اُس طالبعلم پہ توجہ دیتا ہے جو اِس سے ٹیوشن لے رہا ہوجبکہ باقی ماندہ طلباء تو شاید اِس سے مار کھانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ایک سبز رنگ کا بورڈ جو اِنہیں روزانہ سکول میں داخلے کے وقت سلامی پیش کرتا ہے جس پہ جلّی حروف میں "مار نہیں پیار" لکھا ہوتا ہے اِن حضرت کو "مار ،نہیں پیار" نظر آتا ہے (یعنی طباعت کی غلطی اِن سے وہ اہم ہتھیار جو بڑوں بڑوں کو پڑھنے پہ مجبور کر دیتا ہے،چھیننے کے دَر پہ ہے)۔ پنجاب پولیس کے لیے مشورہ ہے کہ ہنگامی صورتحال میں (ڈنڈا سوٹا چلانے کے لیے) نفری کی ضرورت پڑے تو سکول ٹیچرز سے رابطہ کرے کیونکہ ان سے یہ خدمت رضاکارانہ طور پہ لی جاسکتی ہے۔ کیا ایسا اُستاد روحانی باپ جیسے لقب کا مستحق ہے؟ مفت تعلیم سرکاری سکولوں کا نعرہ ضرور ہے مگر معیاری تعلیم نہیں لہذا معیاری تعلیم کے معاملہ میں آپ کو یہ اساتذہ بھی مجھ سے متفق نظر آئیں گے۔ جی ہاں! معذرت کے ساتھ، ہمارا اُستاد بھی سرکاری سکولوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، جس کا منہ بولتا ثبوت اِس کے بچوں کا پرائیویٹ سکول میں تعلیم لینا ہے۔اِس انتخاب کی وجہ یہ نہیں کہ یہ پرائیویٹ سکول کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اِسے اپنے ساتھی اساتذہ کی قابلیت و رویّہ کا بخوبی اندازہ ہے (اگر کسی سرکاری ٹیچر کے دل کو یہ سب پڑھ کے ٹھیس پہنچے تو معذرت البتہ آنے والی نسلوں کو آپ کے رحم و کرم پہ نہیں چھوڑا جا سکتا)۔ حضرت اپنی تنخواہ سے بھی ناخوش نظر آتے ہیں اور تقریبا ہر بیٹھک میں یہ رونا روتے رہتے ہیں، جبکہ لوگوں کی ہمدردیاں و معاشرے میں مقام حاصل کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ صرف اِس لیے خاموش بیٹھے ہیں کہ ہمارا تعلق پیغمبری پیشے سے ہے (جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ محکمہ تعلیم ہی کا حوصلہ ہے جو اِن کے روزگار کا سبب بنا ہوا ہے)۔ خلاصہ یہ کہ تعلیم لینے والوں سے زیادہ تعلیم دینے والوں کو تعلیم کی حاجت ہے۔

سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طلباء کا بھی سرسری خاکہ کھینچتے ہیں۔ سرکاری سکول کے طالبعلم کا تعلق تقریبا نہیں یقینا غریب گھرانے سے ہوتا ہے۔ سکول یونیفارم نہ پہن کے آنے کی صورت میں چونکہ داخلہ ممکن نہیں یا پھر سکول سے نکال دیے جانے کا خوف ہوتا ہے، لہذا اِس خطرہ کے پیشِ نظر ہر طالبعلم کے پاس سکول یونیفارم تو ضرور ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ سائز میں بڑا لیا جاتا ہے اور جب تک طالبعلم کی دو سے تین درجے ترقی نہ ہو جا ئے یہ یونیفارم اُس کی زینت بنا رہتا ہے اگرچہ اِس کی جسمانی ڈھیل ڈھول کے اعتبار سے تب تک چھوٹا ہو چکا ہو۔ اِس کے کندھے پہ بیگ ہوتا ہے جس میں کتابوں کے ساتھ ساتھ ٹاٹ ضرور ہوتا ہے جو ذمین پہ بیٹھنے کی صورت میں اِس کے اُجلے کپڑوں کو میلا ہونے سے بچاتا ہے۔ اِس کے پیروں میں قینچی چپل ہوتی ہے جو سردیوں گرمیوں میں استعمال ہوتی ہے اور جب تک ٹوٹ نہ جا ئے اِس سے یہ خدمت لی جاتی رہتی ہے۔ پیدل چل کے سکول پہنچتا ہے۔ بیماری اِس کے قریب بھی نہیں بھٹکتی کیونکہ بخار آجانے کی صورت میں بھی اِس کے لیے سکول حاضر ہو کر اپنے ماسٹر صاحب کی اجازت لینا ضروری ہے۔ چُھٹی تو اِس کو قریبی عزیز کے مرگ ہی پہ ملتی ہے ورنہ تو باپ بھی صبح کا وقت نہیں دیکھتا اور پٹائی کر دیتا ہے اور کہتا ہے میری کمائی حرام کی ہے جو تجھے پڑھانے پہ خرچ کر رہا ہوں تاکہ تو پڑھ لکھ کہ بڑا آدمی بن جا ئے۔ اِس معصوم باپ کی معصومیت پہ قربان جسے شاید معلوم ہی نہیں کہ یہ نظامِ تعلیم کلرک بنانے لائق تو ہے نہیں بڑا افسر تو دور کی بات۔ایسا ممکن ہوتا تو وزیروں مشیروں کے بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے۔ خیر یہ سٹیٹس کا معاملہ ہے۔ اِس طالبعلم کو اِس کے ساتھی طلباء پکارنے کے لیے جن الفاظ کا سہارا لیتے ہیں وہ یہ ہیں فضل کو پھجو، ظہور کو جوری، عبدالطیف کو طیفے وغیرہ وغیرہ جبکہ اُستاد پکارنے کے لیے مساوی سلوک کرتے ہوئے "کھوتے دیا پُترا" استعمال کرتا ہے اور زیادہ پیار آنے کی صورت میں "حرام دی سٹے" جیسے القابات سے نوازتا ہے۔ یہی طالبعلم سکول سے چُھٹی کے فورا بعد اِسی اُستاد سے اِسی کمرہ جماعت میں ٹیوشن بھی لے رہا ہوتا ہے جو اُستاد پچھلے 6 گھنٹوں میں اِسے نورِعلم سے منور کرنے میں ناکام ہوا تھا، لیکن خدا کی قدرت، یہی اُستاد اگلے 2گھنٹوں میں وہ سب کچھ سمجھانے کی گارنٹی لے لیتا ہے۔ یہی طالبعلم بورڈ میں امتیازی نمبر لے لے تو اِس کی کامیابی کا سہرا اِس کے اُستاد کے سر چلا جاتا ہے جبکہ خدانخواستہ ناکامی کی صورت میں استاد ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ انگریزی معقولہ ہے "کامیابی کے سینکڑوں باپ جبکہ ناکامی یتیم ہوتی ہے"۔

چند سرکاری پالیسیز کے متعلق بھی سن لیجئے۔ پہلے پہل بیان کرتا چلوں کہ تعلیمی پالیسی میں اساتذہ کی را ئے کی کچھ حیثیت نہیں کیونکہ پالیسی بناتے وقت اساتذہ سے مشورہ کرنا غیر مناسب سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سرکاری ٹیچرز اِن پالیسیز سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ہر مضمون پڑھانا تو مشکل ہے ہی، اِس کے ساتھ ساتھ کثیر درجاتی تدریس کسی قیامت سے کم نہیں۔ اساتذہ پریشان ہیں کہ ایک سے زائد جماعتوں کو پڑھائیں یا کنٹرول کریں۔ اِس کے علاوہ ہر وہ کا م جس کی ذمہ داری دوسرا شعبہ قبول نہ کرے محکمہ تعلیم کے سپُرد کر دیا جاتا ہے، پولیو و ڈینگی آگاہی مہم، ووٹر لسٹ کی تیاری سے لے کر الیکشن کے انعقاد تک اساتذہ سے بلا معاوضہ خدمات لی جاتی ہیں اور اگر اِن کا معاوضہ بھی دیا جاتا ہو تو کیا یہ طلباء کے تعلیمی نقصان کو پورا کر سکتا ہے یہ ایک پوچھا جانے والا سوال ہے۔بہرحال جتنا غیر تدریسی بوجھ آج کل اُستاد اُٹھا ئے ہو ئے ہے اتنا تو شاید گدھا بھی اُٹھانے سے اِنکار کر دے (ہمارا اُستاد یہاں داد کا مستحق ہے)۔ اساتذہ کو اِن ذمہ داریوں کے سلسلے میں سکول سے بے دخل کرچکنے کے بعد نگران آن ٹپکتے ہیں، اور پوچھ گچھ کا سلسلہ چلتا ہے، نگران یوں کہتے سنائی دئیے جاتے ہیں "سارا سال سے آخر کیا کر رہے ہو ابھی تک سلیبس ختم نہیں کروایا" ساتھ ہی ساتھ 100فیصد رزلٹ کا مطالبہ بھی کر جاتے ہیں جو بظاہر ناممکن سی بات ہے، نہیں نہیں جناب تھی، کیونکہ محکمہ تعلیم نے 100فیصد رزلٹ حاصل کرنے کے لیے بھی ایک پالیسی تیار کی اور وہ یہ کہ کسی طالبعلم کو فیل ہی نہ کیا جا ئے، اب طالبعلم کو فیل ہونے کی صورت میں بھی اگلی جماعت میں ترقی دے دی جاتی ہے سُبحان اللہ۔ ماضی کی طرف دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ پنجم جماعت تک سرکاری سکولوں میں انگریزی زبان کا تصّور تک نہ تھا پھر ایک دم سے تمام کے تمام مضامین کا انگریزی زبان میں آجانا ہمارے اُستاد و طالبعلم دونوں کے لیے کسی شاک سے کم نہ تھا، مزید یہ کہ سارا سال انگریزی زبان سے جہاد کرنے کے بعد امتحان کے دِنوں میں کھُلی چھُوٹ کا ملنا کہ جِس کا دل چاہے اُردو میں پرچہ حل کرے اور جس کا دل چاہے انگریزی میں امتحان دے سکتا ہے، کسی مذاق سے کم نہیں۔ ہم تجرباتی مراحل سے گزر رہے ہیں اور نہ جانے کب تک گزرتے رہیں گے۔ تعلیمی نصاب کے متعلق کیا لکھا جا ئے، جو شاید طالبعلم کی ذہنی صلاحیت، جِنس، عمر، مزاج اور دلچسپی کو مدِنظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے مگر نہ جانے کیوں آ ئے روز تبدیل کر دیا جاتا ہے اور حیرت بالا ئے حیرت کہ اِس تبدیلی سے زیادہ متاثر کن ذات اُستاد کی ہوتی ہے۔ اور ہمارے ہاں بچہ نصاب کے لیے ہے نہ کہ نصاب بچے کے لیے لہذا زیادہ کلام کرنے کو الفاظ کا ضیاع سمجھتے ہو ئے چھوڑتے ہیں۔

المختصر سرکاری سکول کی تعریف کی جا ئے تو یہ شاید بہترین تعریف ہو
"سکول ایک ایسی عمارت کا نام ہے جہاں اساتذہ اور غریب طلباء کو مخصوص اوقات تک قیدِ بامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔

مشقت سے مراد وہ مخصوص نصاب ہے جِسے پڑھنا اور پڑھانا استاد و طالبعلم دونوں کے لیے پُلِ صراط پار کرنے کے مترادف ہے"۔

اب آپ کو پرائیویٹ سکولز کی طرف لیے چلتا ہوں۔ مشاہدہ کی بات ہے جس شخص کو سرکاری جاب نہ ملے وہ سکول کھول کہ بیٹھ جاتا ہے اور اِس مقصد کے لیے زیادہ کوالیفائیڈ ہونا بھی شرط نہیں، صرف معاشرے میں تھوڑی بہت جان پہچان ہونا ضروری ہے، اگر ذاتی مکان ہے تو خوب، گراونڈ فلور سکول کے لیے اور پہلی منزل رہائش کے لیے- کرایہ پہ مکان کا ملنا بھی مشکل نہیں۔ آکسفورڈ سلیبس کا نام ہی کافی ہے لہٰذا اسی کا بطورِ نصاب اِنتخاب کیا جاتا ہے۔ چونکہ والدین کی توجہ کا مرکز شاندار بلڈنگ و برانچ سسٹم ہے لہذا "پہلے آئیے پہلے پائیے" کی بنیاد پہ اساتذہ کو بھرتی کیر لیا جاتا ہے، فی میل ٹیچرز بآسانی دستیاب ہوتی ہیں، انہیں معاوضہ دیتے وقت کیسی ہی سخاوت قلبی کا مظاہرہ کیا جا ئے یہاں تک کہ حاتم طائی بھی شرما جا ئے تب بھی اِن کے لبوں پہ حرفِ شکایت نہیں آتا۔ مطلب معقول ( معقول کا لفظ نا انصافی ہے) تنخواہ میں گزارہ کر لیتی ہیں۔میٹرک پاس 2000 ایف اے پاس 3000، بی اے پاس 4000جبکہ ایم اے پاس کے لیے5000 کا دلکش پیکج ہوتا ہے (اوسط شاید 3-4 ہزار نکلے) سکول سسٹم کی برانچ مل جائے تو وارے نیارے (والدین برانچ سسٹم کی فیس ادا کرتے وقت ہیل و ہجت سے کام نہیں لیتے بلکہ اِنہیں تو چُوں چراں کی بھی اِجازت نہیں دی جاتی) نہ ملے تو سکول کے نام کے ساتھ انٹرنیشنل، سینئر اور سسٹم جیسے الفاظ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے نتیجہ کاروبار ڈوبنے کے امکانات تقریبا ختم۔ "جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے" لہذا اشتہاری مہم میں دل کھول کہ خرچہ کیا جاتا ہے۔ پہلے روز عام معافی کا اعلان بھی کر دیا جاتا ہے یعنی داخلہ فیس معاف کرکے احسانِ عظیم کیا جاتا ہے اور اِس احسان کو تب تب یاد کروایا جاتا ہے جب جب والدین فیس میں کمی کی درخواست کرتے ہیں (5000 معاف کرنے کے بعد اگر سالانہ 30-35 ہزار مل رہا ہو تو بے وقوف ہی ہوگا جو 5000 کے لیے ضِد کرے)۔

یونیفارم سکول کی بُک شاپ پہ دستیاب ہوتا ہے، کاپیاں کِتابیں، پنسِل ربڑ الغرض ہر شے سکول سے خریدنے کا ذہن دیا جاتا ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ یہ آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ سکول کی کینٹین بھی آمدن کا ایک ذریعہ ہے جِسے اکثر ٹھیکہ پہ دے دیا جاتا ہے اور ٹھیکہ دار اپنے ریٹ پہ اشیاء فروخت کرتا ہے 20 کی بوتل 25 میں، 10 کا چپس کا پیکٹ 15 میں فروخت کیا جاتا ہے نتیجتا چوکیدار و آیا کی تنخواہ کا بندوبست کینٹین کے ٹھیکے سے طے پا جاتا ہے۔ پھر آ ئے روز مختلف قسم کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے مثلا مینا بازار، فن فیئرسائنسی نمائش وغیرہ وغیرہ جو بچوں کا دل بہلانے کے ساتھ ساتھ سکول کے اُوپری اخراجات مثلا پانی و بجلی کے بِل وغیرہ پورا کرنے میں معاوِن ثابت ہوتے ہیں۔ ایک اور پہلو کی طرف آپ کی توجہ دلاتا چلوں،تاریخ گواہ ہے کہ مذہب کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، قدیم تہذیبوں کے مطالعہ سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ بادشاہوں کے درباروں میں مذہبی رہنماوں کو بڑا مقام حاصل تھا کیونکہ وہ عوام الناس کو بادشاہ کی اطاعت پہ راغب کیا کرتے تھے، یوں بادشاہ اور مذہبی طبقہ ایک دوسرے کی ضرورت تھے۔ آج کے دور میں بھی مذہب کو کیش کیا جا رہا ہے، مختلف تعلیمی اداروں نے مذہبی تعلیم کے نام پہ ایک بہت بڑا جال بچھا رکھا ہے جس میں معصوم لوگ اپنے جذباتی لگاو کے سبب پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ دینی تعلیم جو کہ برائے نام ہی دی جاتی ہے کا سُہانا خواب دِکھا کر لوگوں کو لوٹنے کا اِس سے آسان اور مؤثر ذریعہ شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔

تعلیم و تربیت کی بھی بات ہو ہی جا ئے، تعلیم و تربیت کا انداز ایسا کہ جس سکول کے طلباء اپنی اُستانی(جس کا مستقبل بند گلی کی مانند ہے) اُس کے اور ہیڈ ٹیچر کے معاشقہ کو بیان کرتے پھریں اور اِس سب سے اثر قبول کر کے اپنے لیے دانت ٹوٹنے کی عمر میں محبوب کا انتخاب کرنا شروع کردیں تو اِس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اخلاقیات کی تعلیم ایسی کہ بچے ماں باپ تک کی تمیز بھول چکے، ظاہر سی بات ہے اگر ہیڈ ٹیچر "سُور کی اولاد" کہہ کہ پکارے گا تو بچہ بھی اِن الفاظ کا کہیں نہ کہیں تو استعمال کرے گا، اب چاہے چھوٹے بہن بھائیوں ہی کے لیے کرے۔ پرائیویٹ سکولز ایسی تربیت کو سالانہ تقریبِ انعامات میں خوب نوازتے ہیں اور تقریبا ہر طالبعلم ہی کے گلے میں تمغہ اور ہاتھ میں شیلڈ تھما دی جاتی ہے، حتٰی کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کون اول ہے اور کون آخر۔

پرائیویٹ سکول کی تعریف کی جا ئے تو یہ شاید بہترین تعریف ہو (مگرلکھنے والوں نے اِس سے بھی اچھی تلاش کر ہی لینی ہے)

"سکول ایک ایسی عمارت کا نام ہے جسے کمرشل و رہائشی دونوں مقاصد کے لیے بیک وقت استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں اُس شے کی تجارت ہوتی ہے جسے تاجر منہ بولی قیمت پہ بیچتا اور گاہک چاہ نہ چاہ کر بھی اِسے خریدنے پہ مجبور ہے اور وہ دن بھی دور نہیں جب یہ تاجر جائیداد میں حصہ مانگ لے گا"۔

برانچ سسٹم کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ جی، کیا برانچ سسٹم معیاری تعلیم فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ اس کا جواب ہمیں اِن سوالات پہ نظر ڈالنے سے مِل جا ئے گا۔ کیا شہری و دیہاتی برانچ سسٹم میں کوئی فرق نہیں؟ کیا ٹیکنالوجی و سہولیات کے اعتبار سے دونوں کو برابر ترجیح دی جاتی ہے؟ کیا شہر کے ٹیچر اور دیہات کی اُستانی قابلیت میں ایک برابر ہیں؟ کیا دونوں کو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے ایک جیسے مواقع میسر ہیں؟ کیا دونوں کو ایک جتنی اُجرت پہ رکھا جاتا ہے؟ کیا بڑے شہروں اوردیہاتوں میں پڑھنے والے طلباء ذہنی اعتبار سے ایک لیول پہ ہیں؟ شہری و دیہاتی برانچ میں مماثلت صرف اور صرف فیس میں نظر آتی ہے جبکہ تعلیم و تربیت میں ذمین آسمان کا محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اس سب کو پڑھنے کے بعد جو سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں درج ذیل ہیں۔
1 اپنے بچے کی تعلیم کے لیے پرائیویٹ سکول کا انتخاب کیا جا ئے یا سرکاری سکول کا؟
2 کیا ہمارے پاس کوئی متبادل راستہ بھی ہے؟
3 کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو مفت معیاری تعلیم کا تحفہ نہیں دے سکتے؟
4 کیا اس مقصد کے لیے ہمیں بہت بڑی قربانی دینا ہوگی؟

ان سوالات کے مدلل جوابات کے لیے اس آرٹیکل کے دوسرے حصہ کا انتظار کیجیے۔
Asad Butt
About the Author: Asad Butt Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.