اب پڑھائے گا کون

ہائرایجوکیشن کمیشن پاکستان نے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بی ایس آنرز کو پڑھانے کے لئے اساتذہ کے ایم فل ہو نے کی شرط عائد کر دی ہے۔ اب بی ایس کلاسز کو پرانے ایم ایس سی پاس اساتذہ کے پڑھانے پر پابندی ہو گی۔ایم ایس سی پاس اساتذہ اب بی ایس کے طلبا کو نہیں پڑھا سکتے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں موجود پی ایچ ڈی ارکان جو فیصلہ سازی کے حوالے سے افلاطون کو بھی مات کر تے ہیں زمینی حقائق سے بالکل واقف نہیں۔ انہوں نے خود کبھی کلاس کا منہ تک نہیں دیکھا انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ان کے اس عظیم فیصلے کے نتیجے کے مضمرات کیا ہونگے۔

پنجاب کے چار (400) کے قریب کالجوں میں اس وقت بیس (20) ہزار کے لگ بھگ اساتذہ کام کر رہے ہیں۔ بمشکل دس (10) فیصد ایسے اساتذہ ہونگے جو ایم فل یا پی ایچ ڈی ہو نگے۔کا لجوں میں کام کرنے والے پی ایچ ڈی بلاشبہ پڑھانے کے قابل ہی نہیں۔انہوں نے کبھی پڑھایا بھی نہیں۔ وہ ہمیشہ گریڈوں کے چکر میں رہتے ہیں۔ انہیں افسری سے پیار ہے ۔پڑھانا ان کے لئے ایک چھوٹا کام ہے۔ ایم فل کی ڈگری والے حضرات بہت محدود تعداد میں ہیں اور ویسے بھی ان کا تجربہ ابھی بہت کم ہے۔ کالجوں میں کام کرنے والے نوے (90) فیصداساتذہ کے پا س ایم اے، ایم ایس سی کی ڈگری اور سالوں کا تجربہ ہے۔ موجودہ فیصلے کے نتیجے میں کالجوں کے یہ نوے (90) فیصداساتذہ تعلیمی سرگرمیوں سے فارغ ہو جائیں گے۔ اب صورتحال عجیب ہو گی۔

دس (10) فیصد اساتذہ جنہیں حکومت چاہتی ہے کہ وہ بی ایس کو پڑھائیں، پڑھانے کو تیار نہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ وہ بیچارے پڑھا بھی نہیں سکتے۔

نوے(90) فیصد اساتذہ جو پڑھا سکتے ہیں اور پڑھانے کوتیار ہیں، حکومت نے انہیں پڑھانے سے روک دیا ہے۔ یہ نوے (90) فیصد اساتذہ اگر پڑھائیں گے نہیں تو کیا کریں گے۔ حکومت انہیں تنخواہ کس بات کی دے گی یا ان سے کیا دوسرا کام لے گی۔

اب کوئی چار سالہ بی ایس شروع کرنے والوں سے یہ پوچھے کہ آپ کے پہلے فیصلے پر ابھی لوگوں کی تنقید ختم نہیں ہوئی اورآپ نے ایک اور بے تکا فیصلہ کر دیاجس کے سبب لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کے ان انقلابی اقدامات کے بعد کالجوں میں موجود بچوں کو پڑھائے گا کون؟ویسے کچھ شور شرابے اور ہلے گلے کے بعد جب یہ بات ان فہم و فراست سے عاری کمیشن کے ممبران کو سمجھ آئے گی تو فیصلہ واپس لینے میں کون سی دیر لگتی ہے۔تھوک کر چاٹنا تو اب ہمارا قومی وصف بن چکا ہے۔

یونیورسٹیوں کی صورتحال اس سے بھی زبوں تر ہے۔ پی ایچ ڈی مافیا اپنی جعلسازیوں اور فنکاریوں کو چھپانے کے لئے اساتذہ کے درپے ہے۔ جس کے سبب آج یونیوسٹیوں میں پڑھانے والے نہیں ملتے۔تدریس اور تحقیق دو مختلف کام ہیں ۔ تدریس انتہائی مشکل کام اور تحقیق ہماری یونیورسٹیوں میں سو فیصد ایک فنکاری۔پچھلے کئی سالوں سے فر ضی تحقیق کے نام پی ایچ ڈی فنکارہماری یونیورسٹیوں میں اساتذہ کا قتل عام کر تے ہیں یا سیاست۔یہی چیز ہماری یونیورسٹیوں کے تدریسی انحطاط کا سبب ہے۔ہمارے سیاست دانوں کو چونکہ سیاست سے پیار ہے اس لئے وہ بھی سیاسی اساتذہ سے پوری دوستی نباہتے اور تدریس کی تباہی میں برابر کے شریک کار ہیں۔

چند سال پہلے تک یونیورسٹیوں کے بہت سے شعبے اور بہت سے کالجز معروف اساتذہ کے حوالے سے جانے اور پہچانے جاتے تھے۔ اب کوئی معروف اور قابل استاد ہی نہیں، پہچان کیسی۔ پی ایچ ڈی کے نام پر سینارٹی حاصل کرنے والوں نے سینئر اساتذہ کو چن چن کر فارغ کیا اور اب رہی سہی کسر موجودہ پالیسی ساز نکال رہے ہیں۔ٍٍٍٍ یونیورسٹیوں میں بہت سے جز وقتی اساتذہ کام کرتے ہیں۔ ان جز وقتی اساتذہ میں بہت سے ایسے ہیں جو اپنے شعبے کے بہت بڑے نام تھے وہ شوق سے پڑھانے آتے ہیں۔ شاید یونیورسٹی کی طرف سے دیا جانے والا معاوضہ ان کے لئے بہت معمولی رقم ہو مگران کی یونیورسٹی موجودگی اس شعبے کے وقار میں اضافے کا باعث ہے۔ اردو ادب کے حوالے سے دیکھ لیں ، کو ئی اچھا اور نامور ادیب شاید ہی پی ایچ ڈی ہو اور پی ایچ ڈی کے ۔۔۔۔دان میں نظر ڈالیں تو شاید ہی کوئی نامور نظر آئے۔ سوچتا ہوں کہ آج اگر مولانا سید مودودی یا رابندرناتھ ٹیگور بھی پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہوتے تو فارغ تھے۔ اسلئے کہ ان چھوٹی سوچ اورپی ایچ ڈی جیسی بڑی ڈگری رکھنے والے بااثر لوگوں سے زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہو سکتے تھے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500792 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More