شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

اﷲ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں ـ۔ "اور جو اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور تمھیں شعور نہیں۔" اور ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اﷲ کے ہاں سے رزق کھاتے ہیں۔ پھر اس کی تشریح یا تفسیر میں فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو شہید کہا جاتا ہے۔ شہید کا درجہ اس آیات میں بیان ہوا ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ جو بھی اﷲ کی راہ میں دین کی خاطر ، مسلمان ہوتے ہوئے اپنے وطن کی خاطر لڑا اور شہادت پائی، اس کو دنیا ہمیشہ ہی اچھے الفاظ سے یاد کرتی ہے۔جب کبھی دین پر یا وطن پر مشکل وقت آیا توان شہیدوں کو لازمی یاد کیا گیا کہ آج ان ہی کی وجہ سے اﷲ پاک نے یہ دین اس وطن میں قائم و دائم رکھا ہوا ہے۔ بے شک اﷲ پاک چاہتا تو بنا کسی بندے کے دین کو قائم رکھتا، لیکن بندوں کو مختلف درجات بھی تو دینے تھے، تو ایک درجہ شہیدکا تخلیق کیا گیا۔

۲۳ جون ۲۰۱۵ کو شام پانچ بج کر پچاس منٹ پر ۵۲ میڈیکل رجمنٹ کے لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل بمعہ اپنے سات ساتھیوں کے ایڈوانس پوزیشنزسے اپنے ماتحت خدا کے شیر سپاہیوں کا حوصلہ بلند کرنے کے بعد واپس آرہے تھے۔ ان کا ارادہ کچھ دیر آرام کرنے کا تھا۔ کیونکہ گزشتہ تین دن اور تین راتوں سے انہوں نے آرام کی غرض سے پلک تک نہیں جھپکی تھی۔ان تین دن راتوں میں وہ مسلسل دہشت گردوں کی ایک بڑی جماعت سے نبرد آزما تھے۔ جنھوں نے ان کے کیمپ پر حملہ کیا تھا۔ وہ دہشت گردوں کو اپنے سپاہیوں کے ساتھ اﷲ کی مدد سے پیچھے دھکیلتے ہوئے کافی پیچھے لے گئے تھے۔ اس وقت لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل کے ساتھ بمشکل آٹھ جوان تھے۔ جب کہ دہشت گرد کوئی تیس کے قریب تھے۔ لیکن جب اﷲ کی مدد شامل حال ہو تو فتح مقدر ہوتی ہے۔ اﷲ کی مدد آپہنچی اور فتح قریب ہو گئی (القرآن)۔ تو اﷲ کی مدد سے انھوں نے ان دہشت گردوں کا حملہ پسپا کر دیا۔ اور جوابی کاروائی اتنی شدت سے کی کہ دہشت گرد الٹے قدموں پیچھے ہٹنے لگے۔ پھر لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل نے اپنے مزید ساتھیوں کے ساتھ اپنے کیمپ اور دیگر علاقے کے ارد گرد مختلف مشاہداتی پوسٹس قائم کیں۔ انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ یہ والا حملہ صرف ابتدا تھی، ابھی ایک اور حملہ ہونے والا ہے جو کافی بڑا ہو سکتا ہے۔کیونکہ پاکستان کے فوجی جوانوں نے ضربِ عضب کے دوران دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ان دہشت گردوں کو جن کی زیادہ تعداد پاکستانی قومیت کی نہیں تھی پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔

لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل اپنے جوانوں کے ساتھ جس جگہ قائم تھے، وہ دہشت گردوں کے لیے بہت اہم تھی۔ اس کو واپس اپنے قبضہ میں لینے کے لیے انہوں نے ایک بڑا حملہ کیا۔ اس وقت لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل نے اپنے ساتھیوں کو ہر گز تنہا نہیں چھوڑا، بلکہ اگلے محاذ پر ان کے ساتھ دشمن کا سامنا کرتے رہے۔ دشمن بھی وقفے وقفے سے فائر کرتا رہا۔ کبھی مارٹر گنوں کا فائر ہوتا تو کبھی بم پھینکے جاتے۔ اور کبھی میزائل گنوں سے میزائل گرائے جاتے۔ فوجی جوان بھی زخمی ہو رہے تھے تو کچھ نے اپنے رب کے حضور حاضری بھی دے دی تھی۔ یہاں تو تعداد کم تھی کہ یہ اﷲ کے شیر سپاہی تھے اور باقاعدہ بہترین طریقے سے تربیت یافتہ تھے۔ دوسرا اﷲ کی راہ میں اپنے دین و وطن کی سربلندی کے لیے لڑ رہے تھے، نہ کہ دشمنوں کے بہکاوے میں آکر اپنے وطن سے غداری کر رہے تھے۔جب کہ دوسری طرف دہشت گردوں کو جانی نقصان زیادہ پہنچ رہا تھا۔ اسلیے وہ ایک دم سے بھرپور حملہ کرنے سے گھبرا رہا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل اور ان کے جوانوں کو چاروں طرف سے گھیر سکے۔ لیکن لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل کا ایک پاؤں اگر اپنے ایریا میں شمال میں تھا تو دوسرے گھنٹے میں وہ فوراً جنوب میں پہنچ جاتے تھے اور ان کا حوصلہ برْھاتے تھے۔

تین دل لگا تار دشمنوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے بعد باالآخر دہشتگردوں کو لاشوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ اس کے بعد بھی کافی دیر تک پاک فو ج کے جوان اپنی اپنی ان پوزیشنز پر جمے رہے، جہاں تک انھوں نے قبضہ کیا تھا۔پھر لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل نے تازہ دم جوان طلب کئے۔ یہ پوزیشنز ان کے حوالے کیں۔ ان کا حوصلہ بڑھایا۔ اور خود اپنے کیمپ کی جانب چل پڑے۔ یہ روزانہ کا معمول تھا۔ وہاں موجود دہشتگردوں کی کمر توڑ دی تھی۔ اب اکا دکا واقعات ہو رہے تھے۔ کیونکہ دشمن اس وقت ختم ہو گا، جب اﷲ کی رضا ہو گی۔ ورنہ تو تا قیامت حق و باطل کی لڑائی جاری رہے گی۔

تئیس جون ۲۰۱۵ کو ا نہیں کیا معلوم تھا کہ اس بار ان کی واپسی اب کیمپ میں نہیں بلکہ اﷲ کی جانب ہے۔ واپسی پر آتے ہوئے اپنی جیپ میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ ڈرائیور کے ساتھ ایک حوالدار بیٹھا تھا۔ جب کہ پانچ جوان ان کے ساتھ پیچھے بیٹھے تھے۔ جب وہ اپنے کیمپ کے راستے میں تھے تو اچانک ان کی جیپ ایک بارودی سرنگ کے اوپر آگئی۔ بارودی سرنگ پھٹی اور جیپ کئی فٹ اوپر فضا میں اچھلی۔ جب واپس گری تو لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل اس میں سے نیچے گرے۔ جیپ کا ایک حصہ ان کی ایک ٹانگ کو زخمی کرتے ہوئے وہی پر جام ہو گیا۔ ان کو چھاتی پر بھی زخم آئے۔ ان کے ساتھ دوسرے ساتھ فوجی بھی زخمی ہوئے ، جبکہ ایک جوان موقع پر ہی شہید ہو گیا۔لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل کو فوری طور پر ہاسپٹل پہنچایا گیا۔ لیکن وہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ انا ﷲ وہ انا الیہ راجعون۔

۲۴ جون ۲۰۱۵ کو انہیں ان کے آبائی شہر ملتان میں دفن کیا گیا۔ان کا تعلق ایک دین دارگھرانے سے تھا۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی سے انھوں نے اپریل ۱۹۹۷ میں پاسنگ آؤٹ کے بعد پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی۔تب سے مختلف شہروں میں ، مختلف مقامات پر اپنے فرائض بہ احسن طریقے سے سرانجام دیتے رہے۔ پی۔ ایم۔ اے میں دورانِ تربیت بھی وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہر وقت تعاون پر آمادہ رہتے تھے۔ پی ایم اے کی ایک خاصیت ہے کہ وہاں جو ساتھی ایک پلاٹون میں ہوتے ہیں وہ مرتے دم تک ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے ایک ساتھ خوشیاں بھی دیکھی ہوتی ہیں اور مشکلات اور تکالیف کے دور بھی اکٹھے ہی گزرے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے، پھر بانہوں میں ہاتھ ڈالتے ایک دوسرے کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل پی ایم اے میں بھی نعت خوانی کرتے تھے ۔ اﷲ کا ذکر کرنا بھی ان کا مشغلہ تھا۔ ان کے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ شہادت سے پہلے وہ جیپ کے ڈرائیور کے ساتھ نہیں بیٹھے تھے۔ بلکہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ان کو یاد آیا کہ انھوں نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی۔ اگر تھوڑی دیر لیٹ کرتے تو قضا ہو جاتی۔ جیپ کو روک کر باہر پڑ ھ نہیں سکتے تھے کہ ہر وقت دشمن کے حملے کا خطرہ تھا، اور اس طرح باہر پڑھنے میں گویا خود کشی کرنا تھا۔ تو لیفٹننٹ کرنل افتخار احمد جمیل پچھلی سیٹ پر ہی نماز پڑھنے لگے۔ اور گاڑی چلتی رہی۔ نماز سے فارغ ہو کر اﷲ کا ذکر شروع کردیا۔جس وقت بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا اس وقت بھی ان کے ہونٹ ہل رہے تھے ، گویا اﷲ کا ذکر کر رہے تھے۔تعلیمی کیرئیر میں بھی وہ بہت بہتر تھے۔ جسمانی تربیت میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ اڑھائی سال انھوں نے پی ایم اے میں گزارے اور بہت خوب گزارے۔ ان کے ساتھ جتنے بھی ساتھی تھے، آج بھی ان کو بہت اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ اﷲ پاک ان کی شہادت کو قبول فرمائے، اور اس شہادت کے صدقے پاکستان کی حفاظت فرمائے، آمین۔
**********
Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 71332 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More