بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلام عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
ہمارے اور تمام جاندار کے رزق کی ذمہ داری خالق کائنات نے خود اپنے ذمہ لی
ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ ذکر فرمایا ہے۔ ہاں
دنیا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں رزق کے اسباب اختیار
کرنے کو کہا ہے، لیکن اسباب کی کثرت مال وثروت کی کثرت کا ضامن نہیں ہے،
جیساکہ اسباب کے باوجود بعض مرتبہ نقصانات ہوجاتے ہیں۔ اگر صرف اسباب پر ہی
نتیجہ برآمد ہوتا تو دنیا میں زیادہ محنت کرنے والے حضرات ہی زیادہ مالا
مال ہوتے لیکن مشاہدہ اس کے بر خلاف بھی ہوتا ہے جیساکہ پوری دنیا تسلیم
کرتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق قرآن کریم کی صرف تین آیات کا ترجمہ پیش خدمت
ہے:
زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اﷲ نے اپنے ذمہ نہ
لے رکھا ہو۔ (سورۃ الہود ۶) اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو، ہم
انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ یقین جانو کہ ان کو قتل کرنا بڑی
بھاری غلطی ہے۔ (سورۃ الاسراء ۳۱) غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔
ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور انہیں بھی۔ (سورۃ الانعام ۱۵۱) قرآن کریم کی
متعدد آیات اور احادیث نبویہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہم اپنے
بچوں کے رزق کے لئے صرف اسباب ہیں، رازق نہیں ہیں۔ ہم اپنے اور اپنے بچوں
کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش ضرور کریں مگر اﷲ ہی مسائل کا حل کرنے والا ہے۔
مذکورہ آخری دو آیات کی روشنی میں مفسرین کرام نے تحریر کیا ہے کہ حمل
ٹھہرنے کے بعد مفلسی کے ڈر سے یعنی یہ سوچ کر کہ ہمارے بچوں کو کون کھلائے
گا، اسقاط حمل (Abortion) جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر ماں کی جان کو خطرہ ہوجائے
تو پھر جائز ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک تمام مفسرین، محدثین، فقہاء ، دانشور
اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر میاں بیوی دو یا تین سے زیادہ بچے
رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ان کو ایک یا دو بچے رکھنے پر مجبور نہیں کیا
جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان فرمایا کہ ایک مرد
استطاعت کے ساتھ چار عورتوں سے شادی کرسکتا ہے۔ (سورۃ النساء ۳) جب چار
شادی کرنے کی اجازت مرد وعورت کو پیدا کرنے والے نے خود دی ہے تو کسی مخلوق
کو اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے۔ کثرت زواج خود ہی اولاد کی کثرت کا سبب
بنے گی۔ نیز جس ذات پر قرآن کریم نازل ہوا، اس نے اپنے قول وعمل سے اﷲ کے
پیغام کو قیامت تک آنے والے انسانوں تک پہنچایا کہ اولاد کی کثرت مطلوب ہے،
اگرچہ مانع حمل کے جائز وسائل اختیار کرکے اولاد کم رکھنے کی گنجائش ہے۔
حضرت معقل بن یسار رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور اکرم ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اﷲ! مجھ کو ایک حسب ونسب والی خاتون
ملی ہے لیکن وہ عورت بانجھ ہے(یعنی اس کے اولاد نہیں ہوسکتی) کیا میں اس سے
نکاح کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے اس سے شادی کرنے کو منع فرمادیا، پھر دوسرا شخص
حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرمادیا، پھر تیسرا شخص حاضر ہوا تو اس کو بھی
منع فرمادیا اور فرمایا کہ تم ایسی خواتین سے نکاح کرو کہ جو اولاد پیدا
کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور مرد (یعنی شوہر سے) محبت کرنے والی ہوں اس
لئے کہ میں تم سے امت کو بڑھاؤں گا۔ (نسائی ۔ کتاب النکاح ۔ باب
کراہیۃتزویج العقیم،، ۔ ابوداود ۔ کتاب النکاح ۔ باب النہی عن تزویج من لم
یلد من النساء) مذکورہ بالا حدیث متعدد کتب حدیث میں موجود ہے اور پوری امت
مسلمہ اس حدیث کے صحیح ہونے پر متفق ہے۔ اس مضمون سے متعلق ہمارے نبی اکرم
ﷺ کے متعدد ارشادات کتب حدیث میں موجود ہیں۔ ان تمام احادیث کے صحیح ہونے
پر تمام مکاتب فکر کے علماء متفق ہیں، نیز نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں بچوں
کو کم پیدا کرنے کی کوئی ترغیب دور دور تک کہیں نہیں ملتی حالانکہ نبی اکرمﷺاپنی
امت کے لئے بہت زیادہ شفیق اور رحم کرنے والے تھے، بلکہ آپ ﷺنے اپنے عمل سے
بھی امت مسلمہ کو زیادہ بچے کرنے کی ترغیب دی کہ آپ ﷺکی چار لڑکیاں اور تین
لڑکے پیدا ہوئے۔ آپ ﷺکے سامنے صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کے آپ ﷺسے بھی
زیادہ بچے پیدا ہوئے لیکن آپﷺنے کسی ایک صحابی کو ایک مرتبہ بھی یہ نہیں
کہا کہ اب بس کرو، اور ان ہی کی تربیت کرلو، حالانکہ رسول اﷲ ﷺکی بعثت کا
اصل وبنیادی مقصد لوگوں کی تربیت ہی تھا۔ معلوم ہوا کہ کثرت اولاد بچوں کی
بہترین تربیت سے مانع نہیں ہے، اگر ہے تو حضور اکرم ﷺنے صحابہ کرام کو کثرت
اولاد سے کیوں نہیں روکا؟ حضور اکرمﷺکی زندگی نہ صرف صحابہ کرام کے لئے
موڈل ہے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے بہترین اسوہ (نمونہ)
ہے، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۲۱ میں ذکر کیا ہے۔ اور
ہمارا ایمان ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا حکم بجالانے میں ہی دونوں جہاں کی
کامیابی مضمر ہے۔
ضبط ولادت (Birth Control) کے سلسلہ میں زمانۂ قدیم سے علماء و فقہاء کی
تین رائے چلی آرہی ہیں: ۱) ضبط ولادت کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ اس کی دلیل
کے لئے سورۃ الانعام کی ۱۵۱ ویں آیت پیش کی جاتی ہے۔ ۲) ضبط ولادت کی کسی
حد تک گنجائش ہے، یعنی اگر کوئی شخص مانع حمل کے اسباب اختیار کرنا چاہے تو
جائز ہے، کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے بعض صحابہ کرام کو عزل کرنے (ضبط ولادت کا
ایک طریقہ، جس میں منی کے نکلنے کے عین وقت مرد صحبت سے نکل کر منی باہر
نکال دیتا ہے) سے منع نہیں فرمایا۔ (بخاری۔کتاب النکاح ۔ باب العزل) ۳) ضبط
ولادت مفلسی کے ڈر سے حرام ہے یعنی یہ سوچ کر کہ ہمارے بچوں کو کون کھلائے
گا، لیکن دیگر صورتوں میں جائز ہے۔
اگر حمل ٹھہر جائے تو اسقاط حمل (Abortion) جائز نہیں ہے۔ (سورہ بنی
اسرائیل ۳۱، سورہ الانعام ۱۵۱) البتہ شرعی وجہ جواز پائے جانے کی صورت میں
بہت بھی نہایت محدود دائرہ میں حمل کا اسقاط جائز ہے۔ چار مہینے مکمل
ہوجانے کے بعد حمل کا اسقاط بالکل حرام ہے، کیونکہ وہ ایک جان کو قتل کرنے
کے مترادف ہے۔ اگر کسی وجہ سے حمل کے برقرار رہنے سے ماں کی جان کو خطرہ
ہوجائے تو ماں کی زندگی کو بچانے کے لئے چار ماہ کے بعد بھی اسقاط حمل جائز
ہے۔ یہ محض دو ضرر میں سے بڑے ضرر کو دور کرنے، اور دو مصلحتوں میں سے بڑی
مصلحت کو حاصل کرنے کے لئے اجازت دی گئی ہے۔
﴿نوٹ﴾ ان دنوں حمل ٹھہرنے کے بعد صرف اس وجہ سے کہ بچے چھوٹے ہیں، دشواری
ہوگی وغیرہ وغیرہ، اسقاط حمل (Abortion) کرادیتے ہیں، یہ جائز نہیں ہے،
بلکہ ہمیں چاہئے کہ اگر ہم اولاد کے درمیان وقفہ چاہتے ہیں تو مانع حمل کے
ایک سے زائد جائز طریقے پہلے سے اختیار کرلیں، تاکہ بعد میں اسقاط حمل کا
معاملہ ہی درپیش نہ آئے، شرعاً وقتی طور پور مانع حمل کے اسباب اختیار کرنے
کی گنجائش ہے لیکن حمل ٹھہرنے کے بعد صرف چھوٹے چھوٹے عذر کی وجہ سے اسقاط
حمل (Abortion) کرانا جائز نہیں ہے۔
ضبط ولادت کی تحریک کی ابتداء ۱۷۹۸ میں یورپ کے مشہور ماہر معاشیات مالتھوس
(Malthus) نے شروع کی تھی۔جس کے بعض غلط نتائج سامنے آئے اور آرہے ہیں ،جس
کا اعتراف خود مستشرقین نے کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ آج سے تقریباً ۲۵ سال
پہلے تک ہمارے معاشرہ میں ضبط ولادت پر کوئی خاص عمل نہیں تھا۔ اب ہمارے
معاشرہ میں خاص کر شہروں میں اس کا رواج شروع ہوگیا ہے، حتی کہ مغرب سے
متاثر بعض لوگ رسول اکرم ﷺ کی خواہش کے برخلاف زیادہ بچے پیدا کرنے کو غلط
قرار دینے لگے ہیں، او ر اس کے لئے ایسے ایسے عقلی دلائل پیش کرتے ہیں کہ
معلوم ہوتا ہے کہ اب تک سارے انسان ایک بڑی غلطی کے مرتکب تھے۔
ایک مغالطہ کا ازالہ: عصر حاضر میں ضبط ولادت پر زیادہ تر عمل شہروں میں
اور مالداروں میں ہورہا ہے، جس سے ان کے بچے بظاہر خوشحال نظر آتے ہیں جس
کو دیکھ کر مغربی تہذیب سے متاثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کم بچوں کے ہونے کا
نتیجہ ہے، حالانکہ یہ ضبط ولادت کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ تو پہلے سے ہی
خوشحال تھے۔ اگر کم اولاد کی وجہ سے خوشحالی آئی ہوتی تو دیہات میں کسی
غریب شخص کے ایک یا دو بچے ہونے کی صورت میں اس شخص کی زندگی کا معیار ان
شہر والوں اور مالداروں کی طرح یا ان سے زیادہ بہتر ہوجاتا جن کے دو سے
زیادہ بچے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ کم بچے خوشحالی کا
یقینی ذریعہ نہیں ہے۔ اسلام میں بہترین تربیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لڑکا
ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے خواہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیم سے واقف ہو یا نہ
ہو۔ اسلامی تربیت کے لئے اسلام کے بنیادی احکام سے واقفیت اور اس پر عمل
کرنا ضروری ہے خواہ وہ ڈاکٹر ہو یا انجینئر ، کسی یونیورسٹی کا پروفیسر ہو
یا کسی دیہات میں قاعدہ بغدادی پڑھانے والا ، بڑا تاجر ہو یا سبزی فروش۔
خلاصہ کلام: قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ ہمارے
اور ہمارے بچوں کے رزق کی ذمہ داری خالق کائنات نے خود اپنے ذمہ لی ہے،
لہذا اس وجہ سے کہ بچوں کو کون کھلائے گا ضبط ولادت (Birth Control) پر عمل
نہ کریں بلکہ یہ یقین رکھتے ہوئے کہ ہمارے اور ہمارے بچوں کا رزق اﷲ تعالیٰ
نے اپنے ذمہ لیا ہے، وہی رازق وخالق ومالک ہے، ہمارے لئے شرعاً اجازت ہے کہ
ہم وقتی طور پر مانع حمل کے اسباب (مثلاً کنڈوم کا استعمال، مانع حمل دوا
کھانا وغیرہ) اختیار کرکے دو یا تین بچوں پر اس سلسلہ کو موقوف کرسکتے ہیں۔
مگر کوئی شخص زیادہ بچے رکھنا چاہے تو ہمیں اسے حقارت کی نگاہ سے نہیں بلکہ
عزت کی نگاہوں سے دیکھنا چاہئے کیونکہ وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بہتر
صورت کو اختیار کررہا ہے۔ دائمی طور پر حمل کی صلاحیت کو ختم کرانے کے
متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے عدم جواز کا فتوی دیا ہے، ہاں
اگر کسی عورت کے تین یا دو بچے آپریشن سے ہوچکے ہیں اور ڈاکٹروں کا مشورہ
ہے کہ ولادت کے سلسلہ کو ختم کرنا عورت کی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے تو
پھر گنجائش ہے۔ |