علم اور عالم کی فضیلت و اہمیت

عن ابی بکرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال سمعت النبی ﷺ یقول : اغد عالما او متعلما او مستمعا او محبا ولا تکن الخامسۃ فتھلک والخامسۃ ان تبغض العلم واہلہ۔ترجمہ: ’’حضرت سیدنا ابو بکر ہ رضی اﷲ عنہ راوی ہیں فرماتے ہیں میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ :عالم بنویا طالبعلم بنو یا علمی گفتگو کو کان لگا کر سننے والے بنو،یا علم اور اہل علم سے محبت رکھنے والے بنو، مذکورہ چار کے علاوہ پانچویں قسم کے مت بنو، کہ ہلاک ہو جاؤ گے اور پانچویں قسم یہ ہے کہ تم علم اور اہل علم حضرات سے بغض رکھو ۔‘‘(رواہ الطبرانی ،مجمع الزوائد)

شرح حدیث
فرمان نبوی ﷺ ’’اغد عالما ‘‘ میں حکمت:حضور نبی کریم ﷺ اپنے امتیوں پر بڑے رحیم و کریم و شفیق ہیں ۔اس لئے آپکی چاہت ہے کہ میرا ہر امتی علم دین سیکھے اور لوگوں کو سکھائے اور اس علم کی بدولت رضائے مولا حاصل کرے ۔ اپنی ذات اور دیگر سے جہالت کی تاریکی دور کرے ۔احیاء دین اور بقائے اسلام کے لئے کام کرے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ علم کے بغیر اسلام کی بقاء نا ممکن نہیں اور زہد و تقویٰ جہالت کے ہوتے ہوئے متحقق و معتبر نہیں ۔

عالم کے فضائل از قرآن :اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : یرفع اللّٰہ الذین اٰمنو منکم والذین اوتو العلم درجات۔ ’’اﷲ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں کے درجات کو رفعت و بلندی عطا فرماتا ہے اور ان لوگوں کو جنہیں علم دیا گیا ۔‘‘(سورۃ المجادلۃ )

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں : ’’علماء کا مرتبہ عام مؤمنین کے مقابلے میں سات درجے زیادہ بڑا ہے ۔اس طرح کہ ہر درجوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ۔‘‘ (احیاء العلوم )
ارشاد خدا وندی ہے:قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ۔’’کہہ دیجئے ! کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں ؟۔‘‘ (سورۃ الزمر الایہ 9)

ایک اور مقام پہ یوں فرمایا:انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء ۔’’بیشک اﷲ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔‘‘ (سورۃ فاطر الایہ ۔28)

عالم کے فضائل از احادیث و اخبار :حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’اﷲ تعالیٰ جس شخص کیساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسکو دین کی فقاہت اور سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے اور اسے رشد و راہنمائی الہام کرتا ہے ۔‘‘(متفق علیہ)

حضور ﷺ نے فرمایا:العلماء ورثۃ الانبیاء۔’’علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہیں ۔‘‘( ابو داؤد و الترمذی)حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :یستغفرللعالم مافی السمٰوٰات والارض۔’’زمین و آسمان کی تمام مخلوق ایک عالم دین کے لئے بخشش کی دعا مانگتی ہے ۔‘‘ (ابو داؤد)

حضور اکرم ،نور مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:فضل العالم علی عابد کفضلی علی ادنی رجل من اصحابی۔’’ایک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسی میری فضیلت میرے اصحاب میں سے کسی ادنیٰ صحابی پر ۔‘‘(ترمذی شریف)جب قرآن و حدیث میں عالم کے اتنے فضائل ہیں ۔تو دیکھنا ہو گا کہ عالم کا اطلاق کس پر ہوتا ہے ۔

عالم کون؟ شارح مسلم علامہ غلام رسول سعیدی رقم طراز ہیں ۔

عالم کا معیار یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ کر سکے ،احادیث کی عربی عبارات صحیح صحیح پڑھ سکے اور سمجھ سکے ۔علم کلام اور فقہ کی عبارات کو پڑھ اور سمجھ سکے ۔‘‘قرآن مجید میں ہے ۔وتلک الامثال نضربھا للناس و ما یعقلھا الا العالمون۔’’اور ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور انہیں صرف علماء ہی سمجھ سکتے ہیں ۔‘‘(العنکبوت:43)

اس آیت سے معلوم ہو گیا کہ جو شخص قرآن مجید کی آیات کا از خود ترجمہ نہ کر سکے اور اسکے لطائف اور دقائق کو نہ سمجھ سکے وہ عالم نہیں ہے ۔امام رازی عالم کی تعریب میں لکھتے ہیں :’’نظری اور دقیق مسائل کو عالم ہی سمجھتا ہے جب اسکے سامنے کوئی ظاہر امر پیش کیا جائے تو وہ اسکی گہرائی کا ادراک کرلیتا ہے۔ جو چیز دقیق ہو اسکو جاننے کے لئے عالم ہونا ضروری ہے ،اﷲ تعالیٰ نے جو مثالیں بیان کی ہیں انکی حقیقت اور انکے تمام فوائد کو صرف علماء سمجھ سکتے ہیں ۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 493)علامہ خفا جی حنفی لکھتے ہیں :’’اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص صفت علم میں کامل ہو ۔‘‘(عنایۃ القاضی جلد 7)

علامہ مراغی لکھتے ہیں : ان مثالوں کے مغز کو اور انکی تاثیر کی معرفت کو صرف ماہر علماء ہی جان سکتے ہیں اور ان مثالوں سے کثیر فوائد کو علماء ہی مستنبط کر سکتے ہیں جو غور فکر کرتے رہتے ہیں ۔‘‘(تفسیر المراغی جلد 20)

مذکورہ آیت اور اسکی تفسیر سے یہ واضح ہو گیا کہ عالم اس شخص کو کہتے ہیں جو قرآن مجید کا ترجمہ کر سکے ،اسکے معانی کے دقائق کو سمجھ سکے ،اور اسکے فوائد کو مستنبط کر سکے ۔ (ماخوذ از بیان القرآن )

کسی صاحب علم میں مندرجہ بالا معیار علم پایا جائے لیکن اس کو اگر عمل کی دولت میسر نہ ہو تو حقیقت میں وہ عالم نہیں بلکہ جاہل ہی ہے ۔اسی لئے شیخ سعدی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا :’’جو علم حق کا راستہ نہیں دکھاتا وہ جہالت ہے ۔‘‘تو حقیقی طور پہ عالم وہی ہے جو باعمل بھی ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے حضرت کعب اخبار رضی اﷲ عنہ سے پوچھا کہ :من ارباب العلم ۔ ’’ارباب علم کون لوگ ہیں ۔؟‘‘

انہوں نے فرمایا کہ جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں ۔انہوں نے پھر پوچھا کہ کیا علماء کے دلوں سے کوئی چیز علم کو نکال بھی دیتی ہے ؟ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! کہ طمع دلوں سے علم کی صفائی کر دیتا ہے ۔ (رواہ الدارمی ،مشکوٰۃ المصابیح )

عالم دین کے دس اوصاف :حضرت فقیہ سمرقندی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی رحمۃ اﷲ علیہ سے سنا انہوں نے محمد بن جراح رحمۃ اﷲ علیہ سے سنا کہ حضرت ابو حفض رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ دس چیزیں عالم دین کے لئے اس کے مقام و مرتبہ میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں ۔ 1۔حسن اخلاق ۔2۔خشیت الہٰی ۔3۔نصیحت و خیر خواہی۔ 4۔شفقت و محبت ۔5۔تحمل و بردباری ۔ 6۔صبر۔7۔حلم۔ 8۔عاجزی ۔9۔لوگوں کے مال سے بے نیازی ۔10مطالعۂ کتب پر ہمیشگی ۔(تنبیہ الغافلین)

ایک عالم دین کا فرض منصبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ جانتا ہے اُسے دوسرے لوگوں تک پہنچائے اور اگر کوئی شخص اس سے کوئی مسئلہ پوچھے تو یہ اسے چھپاکے نہ رکھے ،کیونکہ ایک عالم کے لئے کتمانِ علم (علم چھپانا ) حرام ہے اور اس ہ شدید پرعید سنائی گئی ہے ۔چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :’’جس شخص سے علم کی کوئی بات دریافت کی جائے اور وہ جاننے کے با وجود اسے چھپائے تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے منہ میں آگ کی لگام ڈالے گا۔(رواہ احمد و ابو داؤد ،و الترمذی وغیرہ)

اومتعلماً او مستمعاً۔۔! طالب علم بن یا علمی گفتگو کو کان لگا کے سننے والا بن ۔۔!

حضور نبی کریم ﷺ نے علم کی فضیلت و اہمیت کے پیش نظر طالبعلم بننے یا کم از کم علمی گفتگو کو غور سے سننے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ، اس لئے کہ ایک مسلمان جب علم سے بے بہرہ رہیگا ،تو وہ عمل کی دولت سے بھی محروم رہیگا اور جب عمل سے دور رہیگا تو قرب خدا وندی کے مرتبے کا حصول بھی اسکے لئے ناممکن ہو جائے گا۔ علم کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل حدیث سے لگایا جا سکتا ہے :اطلبو العلم من المھد الی اللحد۔’’کہ مہد سے لحد تک علم حاصل کرتے رہو۔‘‘(جامع صغیر السیوطی ۔کنز العمال)

اور فرمایا :اطلبو العلم ولو بالصین ۔’’’علم حاصل کرو اگر چہ تمہیں چین جانا پڑے ۔‘‘(بیہقی)

نیز فرمایا :طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔’’علم کی تلاش و جستجو ہر مسلمان پہ فرض ہے ۔‘‘(رواہ ابن ماجہ )

آیا ہر مسلم پہ تمام علوم کا حاصل کرنا فرض ہے؟

تمام علوم کو سیکھنا فرض نہیں ،اگر مام علوم کا سیکھنا فرض ہوتو یہ تکلیف دہ عمل گا ہو گا اور حکیم مطلق کی طرف سے ایسا حکم خلاف عقل ہے ۔چنانچہ اس سوال کے جواب میں تلمیذ صاحب الہدایۃ امام برہان الاسلام الزر نوجی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ۔’’جاننا چاہیے کہ ہر مسلمان پہ ہر علم کا حصول فرض نہیں بلکہ علم حال کی طلب و جستجو فرض ہے۔‘‘ (تعلیم المتعلم طریق التعلم )

علم حال سے مراد وہ علم ہے کہ انسان کو عملی زندگی میں جس کی ضرورت پڑتی ہے ۔مثلا جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نماز کا امر ہو تو مسائل نماز کا علم ،رمضان المبارک کا مہینہ آجائے تو مسائل روزہ کا علم ،صاحب نصاب ہو جائے تو زکوٰۃ کے مسائل کا علم ،موسم حج میں صاحب اسطاعت ہو گیا تو حج کے مسائل کا علم ،شادی ہو گئی تو نکاح و طلاق وغیر ہ کے مسائل کا علم ،تاجر ہے تو مسائل تجارت کا علم ،امام ہے تو مسائل متعلقہ امامت کے علم کا حصول ہر مسلمان پہ فرض ہے ۔تاکہ انسان ان تمام امور میں حلال و حرام کے درمیان تمیز پیدا کر سکے ۔

طلب علم اور طالبعلم کی فضیلت :حضرت ابو الدردا ء رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ۔میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:’’جو شخص حصول علم دین کے لئے کسی راستے پہ چلتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی بدولت اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلادیتا ہے اور فرشتے طالب علم کی خوشنودی و رضا کے لئے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں ۔‘‘ (رواہ ابو داؤد )

اومحباً ۔۔۔! یا عالم دین سے محبت کرنیوالا بن جا:فرمان نبوی ﷺ کا تقاضا ہے کہ عالم دین سے محبت کی جائے کیونکہ جو شخص عالم دین سے محبت کرتا ہے ۔تو اسے بہت ساری رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔حضرت فقیہ ابوا للیث سمر قندی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :کہ جس شخص کے دل میں عالم دین کی محبت ہو وہ عالم دین کی مجلس میں جا کر بیٹھتا ہے ۔لیکن علمی باتیں اپنے گوشہ ذہن میں محفوظ رکھنے سے قاصر ہو تو محض عالم دین کی محبت سے اسے سات برکتیں میسر آجاتی ہیں ۔

1۔طلبان علم کی فضیلت سے بہر و رہو جاتا ہے ۔ 2۔جب تک عالم دین کی مجلس میسر رہے تب تک گناہوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ 3۔گھر سے عالم دین کی مجلس میں بیٹھنے کے لئے نکلتے ہی رحمت الہٰی کا نزول شروع ہو جاتا ہے ۔4۔علماء کی مجلس کی وجہ سے رحمت حق سے محروم نہیں رہتا ہے ۔ 5۔عالم دین کی علمی باتیں جب تک سنتا رہے اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی رہتی ہیں ۔6۔ملائکہ خوشی سے اپنے پروں کا سایہ کئے رکھتے ہیں اور فرشتوں کے پروں کے سائے میں یہ بھی بیٹھا رہتا ہے ۔7۔عالم دین کی مجلس میں آتے جاتے وقت قدم قدم گناہوں کا کفارہ، بلندی درجات اور نیکیوں میں اضافہ ہو تا رہتا ہے ۔

پھر اﷲ کریم اسے دوسری برکتوں سے بھی مالا مال فرما دیتا ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں کہ۔(1)علمائے کرام کی مجلس میں حاضری کی محبت کا شرف اﷲ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے ۔ (2)جو بھی علماء کی اقتداء کرتے ہیں جو اجر انہیں نصیب ہوتا ہے بغیر کمی کئے اسے بھی اتنا ہی اجر عطا کیا جاتا ہے ۔ (3)اگر اہل مجلس میں سے کسی ایک کی بھی بخشش ہو گئی تووہ دوسروں کی شفاعت کریگا ۔ (4)گنہگاروں کی مجلسوں سے اسکا دل متنفر ہو جاتا ہے ۔ (5)طالبان علم اور نیک لوگوں کے راستے کا راہی بن جاتا ہے ۔ (6)احکاماتِ الہٰی کی بجاآوری کرنے لگتا ہے ۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ کونو ربنیین بما کنتم تعلمون الکتاب۔’’اﷲ تعالیٰ والے بن جاؤ اس لئے کہ تم دوسروں کو تعلیم دیتے رہتے تھے کتاب کی ۔‘‘(مراد علماء و فقہاء ہیں ۔) (آل عمران 97)

یہ برکات تو اس کے لئے ہیں جو علمی مجلسو ں میں ہونیوالی علمی باتوں کو گوشۂ ذہن میں محفوظ نہ کر سکے اور جو یاد کر لے اس کے لئے تو کئی گنا اضافہ ہو گا ۔ (تنبیہ الغافلین)

ولا تکن الخامسۃ الخ۔اور پانچواں مت بن:حضور تاجدار مدینہ ﷺ نے فرمایا پانچواں نہ بن ،کیونکہ اگر پانچواں بن گیا تو ہلاک ہو جائے گا ۔یعنی علم اور اہل علم سے بغض و عداوت تیرے لئے باعث ہلاکت و تباہی ہے ۔موجودہ دور میں جبکہ ہر طرف فتنہ پروری ،بے راہ روی ،عریانی ،فحاشی ،حرام خوری ،زنا کاری ،جھوٹ ،غیبت کا بازار گرم ہے ،ایسے میں لوگوں کے دلوں سے علماء اسلام کا عقیدت و احترام بھی ختم ہو رہا ہے ۔علماء کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جا رہا ہے ،لفظ ’’مولوی‘‘ جو کبھی بڑی عزت و اعزاز کالقب تصور کیا جاتا تھا ۔ اب یہ لفظ علماء کو ان کے مرتبے سے گرانے کے لئے بے حیاء و بے شرم لوگ ان کے لئے بطور گالی استعمال کرتے ہیں ۔علماء جو کہ امت کے بہترین اور پسندیدہ لوگ ہیں ۔آج کے معاشرے میں انہیں ذلیل ترین گردانا جا رہا ہے ۔وہ علماء کہ مسلمان حکومتیں جن کے اعزاز و اکرام کے پیش نظر انہیں وظائف جاری کرتیں اور انکی خدمت علم دین کی راہ کی ساری رکاوٹیں دور کر کے فارغ البال کر دیا کرتی تھیں ۔آج انہی علماء کو بے رحم معاشرے کے سامنے محتاجی کا کشکول پکڑ کر کھڑا کر دیا گیا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علماء کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے آج کا مسلمان اپنی اولاد کو ڈاکٹر ،انجینئر ،سائنس دان یا تاجر وغیرہ بنانے کی پلاننگ اور کوشش تو کرتا ہے ،لیکن وہ اسے عالم دین بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتا ،تو اسطرح علماء میں قحط الرجالی کا بسیرا ہو چکا ہے ۔اور جو چند معدودے کاروبار علم و عرفان کو چلا رہے ہیں ،ہماری حکومتیں ان پر اپنی مرضی مسلط کر کے مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں پریشان کر رہی ہیں اور نوبت یہاں تک آگئی کہ وہ علماء حق گوئی جن کا طرۂ امتیاز اور فرض منصبی ہے انہیں کلمہ حق سر بلند کرنے کی پاداش میں پابند سلاسل کیا جا رتا ہے ۔ اگر ایک با عمل عالم دین مسجد میں عہدۂ امامت پہ فائز ہے ،تو آج کا معاشرہ اسے اپنا پیشوا یا سردار ہر گز نہیں سمجھتا ،بلکہ خود اس کا سردار اور مالک بنا ہوا ہے اور امام نوکر اور ملازم کے درجے پہ آگیا ہے آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ اپنے ائمہ کی کثرت سے غیبت بھی کرتے ہیں ۔ شاید ہی کوئی مسجد ایسی ملے جس میں ایسے نماز ی نہ ملیں جو اپنے امام و عالم دین سے بغض و عداوت نہ رکھتے ہوں ۔اس موقع پر شیخ الاسلام والمسلین ،امام اہلسنت ،مجدددین ملت ،حضرت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے فتاویٰ سے بطور ترہیب ایک فتویٰ قارئین کرام کی نظر کرتا ہوں ۔تو لیجئے ! ملاحظہ کیجئے !

مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی عالم و فقیہ کو گالی دے یا حقارت کرے تو اسکے اوپر حکم کفر جاری ہو گا یا نہیں ؟اوراکثر عوام الناس اس زمانے میں عالموں کو گالی دیتے اور حقارت و غیبت کرتے ہیں ۔

الجواب:غیبت تو حال کے بھی سوا صورِ مخصوصہ کے حرام قطعی و گناہ کبیر ہ ہے قرآن عظیم میں اُسے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا فرمایا اور حدیث میں آیا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں :ایاکم والغیبۃ فان الغیبۃ اشد من الزنا انا الرجل قد یزنی ویتوب فیتوب اﷲ علیہ وان صاحب الغیبۃ لا یغفرلہ صاحبہ ۔’’غیبت سے بچو کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زانی تو بہ کرے تو اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے اور غیبت کرنیوالے کی بخشش ہی نہ ہو گی ۔جب تک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی تھی ۔‘‘(رواہ ابن ابی الدنیا )

یوں ہی بلا وجہ شرعی کسی مسلمان جاہل کی بھی تحقیر حرام قطعی ہے ۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :بحسب امری ء من الشر ان یحقر اخاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و عرضہ ومالہ۔ ’’آدمی کے بد ہونے کو یہ بہت ہے کہ اپنے بھائی مسلمان کی تحقیر کرے مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے ،خون آ بر و مال۔‘‘(رواہ مسلم عن ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ )

اسی طرح کسی مسلمان جاہل کو بھی بے اذن شرع گالی دینا حرام قطعی ہے ۔رسو ل اﷲ ﷺ فرماتے ہیں ۔سباب المسلم فسوق۔ ’’ مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیر ہ ہے ۔‘‘(رواہ البخاری و المسلم )

آپ ﷺ فرماتے ہیں :سباب المسلم کالمشرف علی المھلکۃ۔’’ مسلمان کو گالی دینے والا اسکی مانند ہے جو عنقریب ہلاکت میں پڑا ہے ۔‘‘ (رواہ الامام احمد و البزاز )اور فرماتے ہیں :من آذٰی مسلما فقد آذانی و من آذانی فقد آذی اللّٰہ ۔’’جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی ،اُسنے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اﷲ تعالیٰ کو ایذا دی ۔‘‘ (رواہ الطبرانی )جب عام مسلمانوں کے باب میں یہ احکام ہیں تو علماء کرام کی شان تو ارفع و اعلیٰ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :لایستخف بحقھم الا منافق بین النفاق۔’’ان کے حق کو ہلکانہ سمجھے گا مگر کھلا منافق ۔‘‘(رواہ ابو الشیخ فی التوابیح )نیز فرمایا :لیس من امتی من لم یعرف لعالمنا حقہ۔’’جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت سے نہیں ۔‘‘ (رواہ احمد والحاکم و الطبرانی )

پھر اگر عالم کو اسلئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم اسکی تعظیم فرض جانتا ہے ۔مگر اپنی کسی دینوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے ،گالی دیتا ہے ،تحقیر کرتا ہے ،تو سخت فاسق فاجر ہے ۔اور اگر بے سبب رنج رکھتاہے تو مریض القلب ،خبیث الباطن ہے اور اُسکے کفر کا اندیشہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ)

کیسے علماء کی صحبت میں بیٹھنا چاہیے ؟رسول کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ :لا تجلسوا عند کل عالم الا الذی یدعو کم من الخمس : من الشک الی الیقین ،ومن التکبر الی التواضع ومن العداوۃ الی النصیحۃ ومن الریاء الی الاخلاص ،ومن الرغبۃ الی الزھد۔’’ہر عالم کے پاس نہ بیٹھا کرو ایسے عالم کی صحبت میں بیٹھو جو تمہیں پانچ چیزوں سے پانچ کی طرف بلاتا ہے ۔1۔ شک سے یقین کی طرف ۔2تکبر سے عجز وانکساری کی طرف۔ 3عداوت سے خیر خواہی کی طرف۔4ریاسے اخلاص کی طرف ۔5۔ اور رغبت سے زہد کی طرف۔‘‘(کتب احادیث ،رواہ ابن عراق )

فقیہ کون ہے ؟ اور علماء کی بد عملی کا عوام الناس پہ کیا اثر پڑتا ہے؟۔کسی شخص نے حضرت امام حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ سے کہا کہ ہمارے فقہاء یوں کہتے ہیں حضرت امام حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ کیا تو نے کبھی فقیہ دیکھا ہے فقیہ وہ ہے جو دنیا سے بے رغبت ہو ،آخرت میں راغب ہو ،گناہوں پر نگاہ رکھنے والا نہ ہو ، اپنے اﷲ کی عبادت پر استقامت و استقلال رکھنے والا ہو۔

حضرت فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جب علماء حلال مال جمع کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں تو عوام بھی مال جمع کرنے میں انکی اقتداء اور پیروی کرتی ہے اچھی طرح علم نہ ہونے کی بنا پر مشتبہ چیزوں کو بھی سمیٹ لیتے ہیں ۔

چار باتیں جہنم میں جانے کا باعث بنتی ہیں ۔حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ :’’جس نے ان چار باتوں کے لئے علم سیکھا وہ جہنم میں داخل ہو گیا ۔1۔ علماء پر فخر کرنے کے لئے ۔2۔جاہلوں کو نظر انداز کرنے کے لئے ۔3۔ لوگوں کی توجہات کا مرکز بننے کے لئے ۔4۔ امراء سے مال و دولت اور جاہ مرتبہ کی طلب کے لئے ۔(رواہ الترمذی )
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :’’علم کی ابتدا خاموشی ہے ،دوسرا درجہ غور سے سننا ہے ،تیسرا درجہ علم کی حفاظت ہے ،چوتھا عمل ہے اور پانچویں علم کی نشر و اشاعت ہے ۔

آٹھ قسم کی صحبتیں اور ان کا اثر:حضرت ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہا جاتا ہے جو شخص آٹھ قسم کے لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے اﷲ تعالیٰ اس میں آٹھ چیزوں کا اضافہ فرما دیتا ہے ۔1۔جو مالداروں کیساتھ بیٹھتا ہے ۔اس میں دنیا کی محبت اور رغبت بڑھا دیتا ہے ۔2۔جو فقیر وں کیساتھ بیٹھتا ہے اس میں شکر اور اپنی تقسیم پر رضا بڑھا دیتا ہے ۔3۔جو بادشاہوں کیساتھ بیٹھتا ہے اﷲ تعالیٰ اس میں تکبر اور سنگدلی میں اضافہ فرما دیتا ہے ۔
4۔ جو عورتوں کی ہم نشینی میں رغبت کرتا ہے اس میں جہالت ،شہوت اور عورتوں کی عقل کی طرف میلان بڑھ جاتا ہے ۔
5۔ جو بچوں کے ساتھ بیٹھتا ہے اﷲ تعالیٰ اس میں طنز و مزاح اور لہو و لعب میں اضافہ کردیتا ہے ۔
6۔ جو گنہگاروں کی معیت اختیار کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اسکے اندر گناہ کرنے کی جرأت ،نافرمانیوں کی طرف پیش قدمی اور توبہ میں سستی پیدا کردیتا ہے ۔
7۔ جو شخص نیک لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے اﷲ تعالیٰ اس میں اطاعت کی رغبت اور حرام سے اجتناب کا جذبہ کوٹکوٹ کر بھر دیتا ہے ۔
8۔ جو شخص علمائے کرام کی مجلس میں بیٹھتا ہے اﷲ تعالیٰ اسکے علم و تقویٰ میں اضافہ فرما دیتا ہے ۔

علمائے کرام کی زیارت وہم نشینی:حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ۔النظر فی وجہ العالم عبادۃ ،والنظر فی الکعبۃ عبار ۃ والنظر فی المصحف عبادۃ۔’’عالم دین کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ،خانہ کعبہ کو دیکھنا عبادت اور قرآن مجید کو دیکھنا عبادت ہے۔ (المقاصد الخسنہ کشف الخفاء)

حضرت فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی علمی مجلس میں عالم دین کے چہرہ کے دیدار کے علاوہ کوئی اور منفعت نہ بھی ہو تب بھی ایک عقلمند کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایسی رغبت رکھے اور کیوں رغبت نہ رکھے گا جبکہ رحمت عالم ﷺ نے علماء کو اپنا جانشین اور قائم مقام بنایا ہے ۔( تنبیہ الغافین )

ضروری ہے کہ علماء کرام اپنے علمی منصب کے مطابق اصلاح و تربیت کو فروغ دیں اور عوام الناس کے لئے ضروری ہے کہ علماء کی قدر کریں تاکہ احیاء اسلام کی تحریک تیز تو ہو سکے۔
Alama Pir Muhammad Tabasum
About the Author: Alama Pir Muhammad Tabasum Read More Articles by Alama Pir Muhammad Tabasum: 85 Articles with 182656 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.