انسانی زندگی میں نکاح وشادی کوبہت
ہی اہمیت حاصل ہے جو ذہنی و نفسی آسودگی ،قوم و نسل کی بقا و دوام کے لئے
اور ناجائز خواہشات و تعلقات سے بچنے کے لئے جاتا ہے کیا جاتا ہے۔ہر مذہب و
معاشرے میں اس کی اہمیت و افادیت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔حیات انسانی
کا یہ ایک ایسا انوکھا رشتہ ہے جب اس کی عقد و گرہ کو ازدواجی و معاشرتی
زندگی کے اٹوٹ بندھنوں میں باندھ دیا جائے تو کوئی بھی اسے کھولنے کی ناکام
سعی و کوشش نہیں کرسکتا،اس پاکیزہ رشتہ و ازدواجیت کا پختہ ثبوت اﷲ کے رسول
ﷺ کے اس فرمان سے بخوبی ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا ــ''اے جوانو! تم میں جو
نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر
کرنے سے روکتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی
استطاعت نہیں وہ روزہ رکھے کی روزہ قاطع شہوت ہے۔''(بخاری)
فرمان رسول ﷺسے یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح ظاہر و عیاں ہے کہ اسلام کس
قدر صاف ستھرا اور پاکیزہ مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں کو تمام ذہنی و طبعی
جرائم سے از حد گریز کرنے کی تلقین و تاکید کرتا ہے، لہذا اب یہ اسلام کے
ماننے والوں پریہ منحصر ہے کہ کس طرح وہ اپنی ازدواجی و معاشرتی زندگی کو
صالح دینی و اسلامی ماحول میں ڈھالیں ،یوں تو شادی کو نسل انسانی کے فروغ و
دوام کا ایک بہتریں ذریعہ قرار دیا گیا ہے کیوں کہ شادی ہی ایک ایسا بہترین
رشتہ ہے جس کے ذریعہ اولاد آدم کے مابین باہمی اتحاد ویک جہتی اور پیار و
محبت جیسے رشتے مزید استوار ہوتے ہیں،لیکن آج شادی کے معاملے میں معاشرے کا
عجیب و غریب حال ہے جسے دیکھ کر عقل ورطہ حیرت میں پڑجاتی ہے کہ مسلم
معاشرے میں ''جبری جہیز کی لعنت''اس قدر عام رواج پاچکی ہے کہ جس سے ہر کہ
و مہ کا بچ نکلنا نہایت ہی مشکل امر ہوگیا ہے جس نے معاشرتی نظام کو پورے
طریقے سے درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے جو اسلامی اصول و قوانین اور اس کی
تعلیمات کے یکسر منافی ہے، جس کے باعث غریب و نادار والدین کا اپنی لاڈلی
بیٹیوں کو گھر سے سسرال بخوشی رخصت کرنا انتہائی ناممکن ہوچکاہے اور کتنی
ہی جوانیاں جہیز اور من مانی مطالبات وفرمائش کے پورا نہ کرنے کے انتظار
میں بابل کے گھر بیٹھے بیٹھے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر موت کی منتظر رہتی
ہیں،یہ تو معاملہ شادی سے قبل کا ہے جس میں مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا
پڑتا ہے ،بعض اوقات تو یہاں تک دیکھا گیا کہ لڑکی کوشادی کے بعد بھی مشکل
گزار گھاٹیوں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے پھر بھی اس" جبری جہیز کی لعنت " سے
چھٹکارا نہیں ملتا اور یہ حرص و طمع کی آگ اسے من مانی مطالبات پورا نہ
کرنے پر پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے یہاں تک کہ اسے اپنی جان سے
ہاتھ دھونا پڑتا ہے ،اس طرح کے واقعات ہمارے ملک میں ایک دو نہیں ہے جن کو
نظر انداز کردیا جائے بلکہ سیکڑوں ایسی دل دہلادینے والی ہماری ماں بہنوں ،اور
بیٹیوں کی داستانیں ہیں جو چیخ چیخ کر قوم کے حساس و باغیرت افراد سے جو بے
خبری کی چادر اوڑھ کر سوئے ہوئے ہیں بار بار اس فعل شنیع و عمل قبیح کے
خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے جس نے ہمارے صالح اسلامی معاشرے کو کئی ایک
معاشرتی بیماریوں میں گھیر رکھا ہے ،لہذا ہر غیرت و حمیت رکھنے والے فرد کے
لئے لازم وضروری ہے کہ سما ج میں پھیلی ان تمام برائیوں کا سد باب کریں۔
اگر جہیز کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بہت ہی محبوب و پسندیدہ
عمل ہے جس مین شادی کے بعد کی زندگی کے کئی ایک مسائل کا حل موجود ہیں ،ماں
باپ اپنی بیٹی کو گھر سے سسرال رخصت کرتے وقت کچھ
کپڑے،زیورات،برتن،پلنگ،جائے نماز،قرآن مجید اور ان جیسی حاجات و ضروریات کی
چیزیں دیتے ہیں وہ جہیز کہلاتا ہے بلا شبہ یہ جائز بلکہ سنت ہے کہ خود
ہمارے پیارے آقا ﷺ نے بھی اپنی لخت جگر نور نظر خاتون جنت حضرت فاطمۃ
الزہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو گھر سے رخصت کرتے وقت کچھ سامان بطور جہیز
دیا تھا،لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جہیز لینا دینا یہ کو ئی فرض و
واجب کی قبیل سے ہے بلکہ یہ ماں باپ کی محبت و شفقت کی نشانی ہے ،اب داماد
کے لئے قطعی یہ جائز و روا نہیں ہے کہ لڑکی کے ماں باپ کے سامنے بے شرمی کی
حد پار کرتے ہوئے دست سوال دراز کرے اور من مانی مطالبات کے پورا کرنے پر
زور و دباؤ دالے،یہ حق تو صرف اورصرف لڑکی کو اپنے ماں باپ سے بنتا ہے کہ
وہ ان کی بساط و وسعت کے مطابق سوال کرے، لیکن داماد اور ان کے گھر والوں
کو کہاں یہ حق پہنچتا کہ وہ جہیز کے نام پر لڑکی کے ماں باپ سے بھیک مانگے
،شریعت نے صرف دو ہی صورتوں میں سوال کرنے کی اجازت دی ہے ،ایک تو سائل کا
کوئی حق کسی پر ہے یا پھر وہ اتنا تنگ دست اور مفلوک الحال شخص ہے کہ بغیر
سوال کئے گزر بسر انتہائی مشکل ہے تو ایسی صورت میں مانگ سکتا ہے وہ بھی
بقدر حاجات ضرورت سے زیادہ تو قطعا جائز نہیں ۔
ذخیرۂ احادیث میں بکثرت حدیثیں اس کی شدید مذمت و ممانعت میں وارد ہیں چند
حدیثیں قارئین کے لئے پیش ہیں :
حدیث ۱: حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی ااﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرماتے ہیں آدمی سوال کرتا رہے گا یہااں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے
گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہوگا یعنی نہایت بے آبرروو ہوکر۔(
بخاری)
حدیث ۲:حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مرووی ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد
فرمایاجو مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے ووہ انگارے کا سوال کرتا ہے تو
چاہے زیادہ وہ مانگے یا کم۔ ( بخاری )
حدیث ۳:حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس پر نہ فاقہ گزرا اور نہ اتنے بال بچے ہیں
جن کی طاقت نہیں اور سوال کا دروازہ کھولے تواﷲ تعالیٰ اس پر فاقے کا
دروازہ کھول دے گاایسی جگہ سے جو اس کے گمان میں بھی نہیں۔ (بخاری )
اس طرح کی بے شمار احادیث کریمہ کتب احادیث میں درج ہیں جو ان لوگوں کے لئے
قابل درس و لائق عبرت ہیں جو ناجائز و بے جا سوالات کرکے غریب سسراال والوں
کو اذیت وو تکلیف میں مبتلا رکھتے ہیں اور من مانی مطالبات کی تکمیل نہ
ہونے پر لڑکی کو بھی اس کا شوہر اور سسرال والے طرح طرح کی ذہنی و طبعی
تکلیفیں دیتے ہیں یہ سماج میں انتہائی المناک مسئلے کی شکل اختیار کر چکا
ہے ۔اس ضمن مین بہت سے سوالات ذہن و دماغ میں جنم لیتے ہیں کہ ایسے حریص و
بے غیرت فقیروں کے خلاف سماج و معاشرے میں کیا اقدامات ہونے چاہیے ؟
ہماری ماں ،بہنوں اور بیٹیوں پر جہیز کے نام پر جو ہر آئے دن ظلم و ستم
کرتے ہیں ایسے ظالم و ستم ظرف لوگوں کو کیفر کردار تک کیسے پہہنچایا جائے ؟
آئندہ نسل نو کو شرعی حدود و قیود کے ساتھ اسلامی ماحول و معاشرے میں کیسے
ڈھالا جاسکے جو آئندہ اس طرح کے اقداروروایات سے دور و نفور اختیاار کرکے
ایک صالح قوم ثابت ہو؟یہ چند سوالات و مسائل ہیں جن کا حل ہر حساس و بیدار
مغز شخص کے لئے از حد ضروری ہے۔
بس اس کا ایک ہی جواب دریچۂ ذہن میں دستک دیتا ہے کہ اگر ہر لڑکا بوقت نکاح
اپنے سسرال والوں سے بخوشی ملننے والی چیزوں کے علاوہ مزید کچھ مطالبہ نہ
کرے تو اس طرح کے برے رواسم و روایات کے سد باب کی کچھ توقع کی جاسکتی ہے
اور دوسرا یہ کہ لڑکے کے گھر والوں کے قلوب و اذہان میں بھی یہ احساس جا
گزیں ہوگا کہ اگر وہ آج اس رسم بد سے دست کشی کرلیتے ہیں تو آئندہ کل ان کی
بھی بہن بیٹیاں بغیر کسی جہیز و مطالبہ کے بابل کے گھر سے بخوشی رخصت ہوگی
یہی ایک ممکنہ صورت ہے جس سے معاشرتی ناسور کو دودھ سے مکھی کی طرح باہر
نکال کر پھیکا جاسکتا ہے جس میں ہماری اور ہمارے معاشرے کی فلاح و کامرانی
ہے۔ |