ویلنٹائن ڈے اور ہماری نئی نسل
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
ویلنٹائن ڈے(۱۴ فروری) مغربی تہذیب
میں منایا جانے والا ایک دن ہے جسے عیسائی مذہب کے مختلف فرقے مختلف حوالوں
اور انداز سے مناتے ہیں۔ ویلنٹائن نامی شخص، جس کے متعلق بزرگ ہونے کا گمان
کیا جاتا ہے، کوئی ایک آدمی نہ تھا۔ مختلف عیسائی فرقوں میں اس کی حیثیت
اختلافی نوعیت کی ہے۔ اصل بات ماضی کی دھند میں کہیں کھو گئی ہے ۔ اور اب
روایات باقی ہیں جن سے کسی حد تک استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
روم کے ایک بزرگ ویلنٹائن کے متعلق کہا جا تا ہے کہ وہ ایسے رومی سپاہیوں
کی شادیاں کروایا کرتا تھا جنہیں شادی کرنے کی اجازت نہ تھی۔ اسے سزا کے
طور پر جیل میں ڈال دیاگیا جہاں ، روایت کے مطابق ،اس نے جیلر کی بیٹی ،جسے
کوئی دیرینہ مرض تھا، کو صحت یاب کر دیا ۔اور جب اسے سزا ئے موت دی جانے
لگی تو اس نے اس لڑکی کو ایک خط لکھا جس کے اختتام پر اس نے اپنے آپ کو یوں
پیش کیا ’ آپکا ویلنٹائن‘۔اینگلیکنAnglican)) اور لوتھرن(Lutheran) فرقوں
میں یہ دن تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مشرقی آرتھو ڈوکس(Orthodox) چرچ
بھی یہ دن مناتا ہے لیکن ۶ اور ۳۰ جولائی کو۔ پہلا دن رومی
پرسبیٹیریئنPresbyterian) (بزرگ ویلنٹائن اور دوسراہیرو مارٹر (Hieromartyr)
ویلنٹائن بشپ کی یاد میں۔
جوفرے چاسرGeoffrey Chaucer) )جو کہ انگریزی زبان و ادب کا جدِ امجد مانا
جا تا ہے ،کے زمانے میں یہ دن رومانوی محبت کے طور پر منایا جانے لگایہ
زمانہ چودھویں صدی اور قرونِ وسطیٰ کے اختتام کے قریب کا تھا۔اٹھاروی صدی
میں یہ دن اور زیادہ رسمی طور پر منایا جانے لگا اور ویلنٹائن مبارک بادی
کارڈ، جن کو بھی ’ویلنٹائن ‘ ہی کہا جاتا ، کا لین دین شروع ہو گیا ، اور
مٹھائی وغیرہ بھی اس دن کے لحاظ سے بطورِتحفہ اور برکت پیش کی جانے لگی۔
یورپ میں بزرگ ویلنٹائن کی چابیاں بھی علامت کے طور پر چلنے اور بکنے لگیں
جو عاشق مزاج لوگ خریدتے اس نیت اور منشا کے ساتھ کہ اس سے ان کے محبوبوں
کے دل ان کے حق میں کُھل جائیں گے۔ بچوں کو بھی یہ چابیاں پہنائی جاتیں تا
کہ وہ مرگی جیسے مرض سے محفوظ رہیں کیوں کہ مرگی بزرگ ویلنٹائن کی بیماری
کہی جاتی ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدیوں میں بھی اس دن کو خوب فروغ ملا اور
اس وقت اسے عالمی شہرت کا حامل دن کہا جا سکتا ہے۔
موجودہ زمانہ ، ماضی سے ترقی کے لحاظ سے جہاں بہت زیادہ تیز ہے، وہاں تباہی
کے لحاظ سے بھی ماضی میں اپنی نظیر نہیں رکھتا ۔ ماضی میں انسانی روابط میں
تیزی کم اور مضبوطی زیادہ تھی جبکہ آ ج کا انسان تیز زیادہ اور مضبوط کم ہے
۔ اس کا اخلاق، مذہب اور کردار اسی تناسب سے کمزوری کا نشانہ بنے ہیں۔اگرچہ
اس زمانے میں اچھے کردار بھی بہت اچھے ہیں لیکن اوسط یا اس سے زیادہ کی بات
کو عام بات کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ زمانہ تنزل پذیر ہے کہ
زہریلی مادیت ،گمراہ شخصی آزادی، اوربے لگام جنسی اختلاط نے زمانے کی چال
بدل کے رکھ دی ہے۔ مغرب گزشتہ کئی صدیوں سے اپنی ترقی ، تیزی اور طاقت کے
ساتھ پسماندہ علاقوں ، قوموں اور تمدنوں پر یوں حملہ آور ہوا ہے کہ بہت سی
اچھی باتیں جو ان پسماندہ تہذیبوں اور علاقوں میں موجود تھیں آہستہ آہستہ
دم توڑتی جا رہی ہیں کہ ان کی سر پرستی کرنے والے ہاتھ خود مغرب کے دست نگر
ہیں۔مغربی زبان و تہذیب کا فروغ زوروں پر ہے اور ہم دیکھتے ہی دیکھتے بغیر
مغرب میں گئے ، یہاں بیٹھے بٹھائے مغربی یا مغرب نما ہوتے جا رہے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے ، دراصل ایک دن نہیں ، ایک تہذیب ہے۔ یہ کہنے کو ایک دن ہے
لیکن اس کے اثرات ایک نئی سوچ اور چلن کے بیج نوجوانوں کے زرخیز ذہنوں میں
بو جاتے ہیں ۔ اور وہ بڑی حد تک اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ آنے
والے نوجوان نسل موجودہ نوجوان نسل سے بھی زیادہ متاثر ہوں گے اور ان کے
بعد یہ چیز اس کلچر کا حصہ بننے لگے گی۔ جیسا کہ باقی چیزوں کے لحاظ سے یہ
بات قابلِ مشاہدہ ہے ۔ انگریزی لباس ، انگریزوں کے دور میں اتنا اچھا نہیں
سمجھا جاتا تھا جتنا آج سمجھا جاتا ہے۔ مقامی زبانوں کی اتنی بے قدری
انگریزوں کے دور میں بھی نہیں تھی جتنی آج ہے۔ ہماری ثقافت اتنی بے پردہ
انگریزوں کے دور میں نہ تھی جتنی آج ہے۔ دراصل کلچر ، تہذہب یا تمدن کی روش
راتوں رات نہیں بدلا کرتی ، اسے بدلنے میں کئی ماہ و سال اور صدیاں لگ جاتی
ہیں ۔ لباس ، زبان اور رویوں کی تبدیلیاں آتے آتے آ ہی جاتی ہیں اور کسی کو
کانوں کان خبر بھی نہیں ہو پاتی۔ ہماری نئی نسل کا قبلہ بڑی حد تک لندن،
پیرس اور نیو یارک جیسے شہر اور تہذیبیں ہی ہیں۔ یہ بات رائے نہیں نوشتہء
دیوار ہے کہ ہمارا فکری قبلہ امریکہ و یورپ ہے اگرچہ مذہبی قبلہ سعودی عرب
میں ہے۔ ہماری سوچ کا مرکز و محور جب بن ہی دنیا گئی ہے تو پھر ہم صدیوں
پرانی سوچوں کو موبائل اور فیس بک پر سینڈ کرنے کے لئے تو استعمال کریں گے
لیکن عملی طور پر اپنے بینک اکائنٹ، شاندار مکان، بے حساب جاگیر ، دنیاوی
شہرت اور عہدوں کو ہی اولیت دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہنے کو مسلمان ضرور
ہیں لیکن ہماری فکروں میں اسلام یا اس کا پیغام کہیں کھو گیا ہے اورامریکہ
و یورپ کی چکا چوند روشنیوں نے ہماری نظروں کویوں خیرہ کر دیا ہے کہ ہم
اپنی نظر سے نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ اپنے دماغ سے سوچ سکتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ ہمارے یہاں بعض مذہبی تنظیمیں اچھا
کرتی ہیں کہ اس دن کو مذہبی اطوار کا دن بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور ہمیں
کچھ لمحوں کے لئے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ابھی تہذیب کے محافظ موجود ہیں ۔
لیکن دراصل بات اتنی سادہ نہیں کہ صرف بینر لگا کر تہذیبی حملہ پسپا کر دیا
جائے ۔ اس کے لئے ایک لمبی جدو جہد کی ضرورت ہے وہ جدو جہد ایک شخص کی نہیں
ایک نسل یا جنریشن کی ہو گی۔ جسے کھیلنے کے لئے ہم لوگ قطعاً تیار نہیں ہیں
۔ ہمارے ٹی وی چینلز اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ فحاشی کو اب فحاشی کہنا
مناسب نہیں اسے روشن خیالی یا ترقی یا شخصی آ زادی کے نام دے کر قبول کر
لینا ہی بہتر ہے۔ ہماری نئی نسل راتوں رات مغربی لباس زیبِ تن کر لینا
چاہتی ہے ۔ اور مشرقی لباس کو فرسودہ ، پسماندہ یا بوڑھوں اور بوڑھیوں کا
لباس قرار دے کر ترک کر دینے پر آمادہ ہے کہ یہ لباس ان لوگوں کا ہے جو
ترقی کی دوڑ میں باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے، اس لئے ان کا لباس آثارِ قدیمہ
والوں کے حوالے کر ترقی یافتہ ممالک اور علاقوں کے لباس پہن کا فخر محسوس
کرنے میں کیا حرج ہے، کسی کا کیا جاتا ہے ، انہوں نے پہہننا ہے ، اپنے پَلے
سے پہننا ہے، کسی کو کیا ہے ، منع کرنے والے ’مامے‘ لگتے ہیں کہ انہیں
روکیں کہ یہ لباس ہمارا نہیں ، یہ زبان ہماری نہیں ، یہ رویہ ہمارا نہیں۔
نہیں ، نہیں سب کچھ ہمارا ہے۔ جو مرضی کریں، جو مرضی پہنیں، جو مرضی بولیں۔
جو مرضی تہوار منائیں۔
جب ذہنوں میں مغربیت کی اتنی یلغار اورتسلط ہو گا تو ویلنٹائن ڈے ، سال بعد
نہیں،ہر روز منایا جائے گا ۔ اس میں مذاہب کو عمل دخل نہیں ۔ انسان کی اس
بے راہ روی میں انسانوں کا اپنا ، ذاتی عمل دخل زیادہ ، اور مذاہب کا کم
ہے۔ ہر مذہب شرم و حیا کا درس دیتا ہے اور ترقی پسند ، من مانی کرنے والے،
خود سر ذہن اس سوچ کو دقیا نوسی قرار دے کر دریائے نیل میں بہا دینا چاہتے
ہیں تا کہ پھر کسی کو اس کا سراغ نہ مل سکے۔یہ مذاہب سے زیادہ تہذیبوں کی
جنگ اور تصادم ہے۔ اور تہذیبوں کے ساتھ ساتھ مزاجوں اور رویوں کا ابدی دنگل
ہے جو ہر علاقے اور ہر زمانے میں ہوا ہے اور ہوتا رہے گا ۔ جن میں کمزور
قومیں طاقتوروں کے آگے سرنگوں ہوتی رہی ہیں ہوتی رہیں گے۔
ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ہماری پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم ذاتی
سطح پر اپنے آپ کو زمانے کے منفی اثرات سے بچائیں یا بچانے کی کوشش کریں۔
دوسروں کو نصیحت کرنے سے زیادہ مذیدار کوئی چیز نہیں اور خود اس پر عمل
کرنے سے زیادہ بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ ہمیں پہلے اپنے آپ کو شخصی طور
پر ٹھیک کرنا ہو گا اور پھر اگر ہم کسی کو اس دن کے منانے سے روکنے کی کوشش
کریں تو ممکن ہے کہ ہم کامیاب ہو جائیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں اپنے
نوجوانوں کو اپنی تہذیب کے ثمرات اور مغربی تہذیب کے نقصانات سے آگاہ کرنا
ہو گا ، تا کہ مغرب کی اندھا دھند پیروی کی روش میں کچھ کمی آ سکے، تیسری
بات یہ کہ ہمیں بھی ترقی کرنا ہو گی ، جب تک گاؤں ترقی نہیں کرے گا اچھے
اور ترقی پسند لوگ وہاں سے ہجرت کر کے شہروں کا رخ کرتے رہیں گے۔ ہم ترقی
کے تناظر میں مغرب کے لحاظ سے گاؤں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ گاؤں پر شہر کا
تسلط ایک دائمی حقیقت ہے جس سے فرار کا کوئی رستہ نہیں ہے ۔ ہم گاؤں میں
رہتے ہوئے ، شہر کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہم جب تک ترقی نہیں کریں گے ،
تہذیبوں کے حملوں کا شکار رہیں گے۔ چوتھی بات یہ کہ ہمیں ایک فلاحی ریاست
کو فروغ دینا ہو گا جو ذہنوں میں اٹھنے والے بہت سے سولات کا ایک تسلی بخش
جواب ہو سکتی ہے ۔، فلاحی ریاست بنائے بغیر ملک میں امن اور سکون کی فضا کو
فروغ دینا مشکل ہی نہیں محال بھی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ ہم مغرب کے آگے اپنا سب کچھ ہار چکے ہیں تو یہ بات بڑی
حد تک درست بھی ہو گی۔ ہم اپنی تمام تر امنگوں، خواہشوں اور آرزوؤں میں
دنیا داری ہی بھر چکے ہیں، دراصل یہی مغربیت ہے۔ ہم اگرچہ مغرب میں نہیں
ہیں لیکن مغرب ہمارے اندر ضرور ہے۔جب تک مغرب ہمارے اندر سے نہیں نکلتا ،
ویلنٹائن ڈے منانے سے حقیقی طور پر روکا نہیں جا سکتا اگرچہ ظاہری طور پر
کچھ اقدام کر بھی لئے جائیں۔ ہم اپنے دین ، ریاست اوت تہذیب کی ترقی، طاقت
اور استحکام کے بغیر ترقی یافتہ تہذیبوں کا مقابلہ کرنا جوئے شِیر لانے کے
مترادف ہے۔ یہ بات اپنی جگہ افسوس ناک ہے کہ ہم ترقی کے راستے کی خود ہی
رکاوٹ ہیں۔ ہر قسم کی بدعنوانی ہمارا شعار ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں
پر زیادہ سے زیادہ تنقید کریں اور زندگی کے جو مثبت پہلو ہیں ان سے پہلو
تہی کرتے رہیں۔ہم اپنے آپ کو اچھے پاکستانی، اچھے مسلمان اور اچھے انسان
بنانے کا کوئی پروگرام یا پلاننگ نہیں رکھتے۔ ہم بس دوسروں پر تنقید پر ہی
گزارہ کر لیتے ہیں کہ ہمیں خود سے کچھ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
آخر پر خدا سے دعا کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمیں سب سے پہلے خود کو اچھا انسان
بننے کی توفیق دے اور پھر ہم ویلنٹائن ڈے جیسے مغربی تہذیب کے منفی پہلوؤں
کا مقابلہ بھی کر سکیں اور ان کے مقابلے میں اپنی تہذیب کی شاندار روایات
کا ایسا مینارِ نور تعمیر کریں کہ ہماری نئی نسل کو مغرب کی طرف دیکھنے کی
ضرورت ہی محسوس نہ ہو اور پھر جو کوئی تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہو اس کا
پوری قوت سے قلع قمع کیا جائے۔ |
|