کسی بھی قوم کا مستقبل اسکے نوجوانوں،تعلیم
کی شرح اور روزگار سے لگایا جا سکتا ہے بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں جن سے
والدین اور ملک و قوم کو بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں مگر پاکستان کی
بدقسمتی رہی کہ تعلیم اور روزگار کی طرف کسی نے توجہ ہی نہیں دی جس نے بھی
اقتدار سنبھالا ،،بھکے ننگوں،کی طرح قومی خزانے کو لوٹنے کو ترجیح دی ایک
دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے کرتے ملکی خزانہ کو خالی کرتے گئے اجتماعی
مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیحی دی گئی جس سے اقوام عالم میں
پاکستان کے وقار کو بھی مجروع کیا گیا اورعوا،م کے اعتماد کو بھی ٹھیس
پہنچائی جاتی رہی ۔جسکے دیگر نقصات کے ساتھ ساتھ قوم کی بنیادوں کو کمزور
اس انداز سے کیا گیا کہ تعلیم عام نہ ہو سکی اور نہ ہی غریبوں پر تعلمی
اداروں کے دروازے کھل سکے اور بدقسمتی ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی چلی
گئی جو بہت بڑے ،،گھاؤ،،میں تبدیل ہو کر ہمارے سامنے کھڑی ہو چکی ہے جسکا
علاج کرنے والے معالجوں نے کبھی غربت اور جاہلیت کو قریب سے دیکھا ہی نہیں
اور نہ ہی وہ معالج غربت کی چکی میں پسنے والے عام آدمی کے مسائل جانتے ہیں
ان کی بے وقو فیوں کی بدولت آج پاکستان میں چائلڈ لیبر قانون کی ضرورت
محسوس کی گئی مگر فوکس صرف بھٹہ خشت کو بنایا جا رہا ہے چائلڈ لیبر کا مطلب
تو جہاں بھی چودہ سال سے کم عمر بچہ کام کرتا دکھائی دے کاروائی عمل میں
لائی جانی چاہیے۔جن بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں اور کندھوں پہ بیگ ہونے
چاہیے تھے حکومتی لاپرواہیوں سے وہ معصوم بچے آج ،ہر وڈیرے کے ڈیرے
پر،ہوٹلوں ،چائے خانوں،کوٹھییوں ،کارخانوں،میں مجبوریوں کا بوجھ اٹھائے کسی
کے پاؤں دبا کر ،کہیں برتن صاف کر کے،کسی کھر کی صفائی کر کے ،تو کہیں
بھٹوں پر اینٹوں کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں۔اس کے پیچھے انکے والدین کی
مجبوریاں ہوتی ہیں ان میں سے زیادہ تر کے والد نشہ ،چوری چکاری،جرائم ،کے
عادی ہوتے ہیں جو جاہلیت سے جنم لیتی ہے ۔بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں
کی تنخواہیں نہیں ہوتی اور نہ ہی روزانہ کی دیہاڑی پر رکھا جاتا ہے بلکہ
انکو خریدا جاتا ہے جو ایک بھٹے سے دوسرے پر بکتے چلے جاتے ہیں جنکی دنیا
صرف کام کرنا اور قرض لینا تک محدود ہوتی ہے بھٹہ مزدور اپنے بچوں کو جونہی
چلتا پھرتا دیکھتا ہے تو اسکو اپنے ساتھ کام پر لگا کر مزید قرض اٹھا لیتا
ہے مگر اس میں بھٹہ مالکان سے زیادہ قصور وار مزدور ہیں جنہوں نے کبھی اس
طرف توجہ دینا ہی مناسب نہیں سمجھا اور اب بھی سکول ٹائم پر اپنے بچوں کو
گھروں میں قید کر کے ٹائم گزرنے کا انتظار کرتے ہیں اور جونہی دو بجتے ہیں
وہی بچے کام کرنے لگتے ہیں ۔چائلڈ لیبر میں صرف بھٹوں کو ہی فوکس نہیں کیا
جانا چاہیے اسمیں وڈیرے کے ڈیرے پر،ہوٹلوں ،چائے خانوں،کوٹھیوں ،کارخانوں،سمیت
ہر اس جگہ پر سختی کرنا ہو گی جہاں چودہ سال سے کم عمر کا بچہ کام کر تا
دکھائی دے کیونکہ کسی بھی ضلع کو لے لیں فرض کریں اگر وہاں دس بھٹے ہونگے
تو ان پر زیادہ سے زیادہ سے زیادہ فی کس بیس بچوں کے حساب سے دو سو بچے
چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتے ہیں لیکن اگر اسکی آبادی دس لاکھ ہے اور اسمیں
دوکانات پچاس ہزار،کھاتے پیتے گھرانوں کی تعداد پچاس ہزار
ہے،کارخانوں،ڈیروں،ورکشاپس ،ہوٹلوں،چائے خانوں وغیرہ کو بھی اکٹھا کر لیا
جائے تو انکی تعداد بھی تقریبا پچاس ہزار بن جاتی ہے اور دس لاکھ کی آبادی
میں ڈیڑھ لاکھ بچہ فی کس ایک بچے کے مطابق ،چھ سال سے چودہ سال تک کام کرتا
دکھائی دے گا ۔
کیا اسے چائلڈ لیبر کا نام نہیں دیا جائے؟
کیا اس بچے کا کوئی حق نہیں کہ اسے تعلیم کا شعور دیا جائے؟
کیا ایسے لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے وقت بڑے بڑے نام سامنے آ سکتے ہیں؟
اس لیے صرف بھٹوں پر ہی توجہ دی جا رہی ہیں؟
مگر طے ہے کہ ان جگہوں پر چودہ سال سے کم عمر کے بچے کام کریں یا بھٹوں پر
،چائلڈ لیبر ہی کہلائے گا؟
اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ جس طرح گذشتہ دن کے کالم میں عرض کیا تھا کہ
چائلڈ لیبر کا اگر ہمیں خاتمہ کرنا ہے اور انقلابی اقدامات کرتے ہوئے سکول
آباد کرنے ہیں،قوم کے معماروں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے تو
،وڈیرے کے ڈیرے پر،ہوٹلوں ،چائے خانوں،کوٹھییوں ،کارخانوں،میں کام کرنے
والے بچے ہو یا بھٹہ کی مزدوری میں معصومیت کی آنسو بہاتا بچہ ہو اسے تعلیم
دلائی جانی از حد ضروری ہے مگر کاروائی میں جہاں کام کرتا بچہ پکڑا جائے اس
مالک سمیت بچے کے وارث کو بھی برابر سزا دی جائے گی تو چائلڈ لیبر کا آسانی
سے خاتمہ ہو سکے گا کیو نکہ جب کسی بھی بچے کے سربراہ کو سزا کا خوف ہو گا
تو کبھی بھی اپنے بچے کو کام نہیں لگائے گا اور اپنی ذمہ داری سے سکول داخل
بھی کروائے گا تب جا کر جاہلیت کا خاتمہ ممکن ہونے کا خواب پورا ہو سکے گا
صرف خانہ پری اور خود کو عوامی خادم ثابت کرنے کے لیے بلاوجہ کی پالیسوں پر
خزانے کے منہ کھولنا اور انتظامیہ کو سب کام چھوڑ کر ایک ایسے کام کی طرف
دوڑیں لگوا دینا جس کے نتائج ہی برآمد نہ ہوں اسے عقلمندی نہیں کہا جا سکتا
۔اس لیے چائلڈ لیبر کا خاتمہ کرنا جہاں ضروری ہے وہاں بہتر اور دور رس
نتائج والی پالیسی لانا بھی انتہائی ضروری ہے تا کہ میرے ملک کا ہر بچہ
چاہے وہ غربت کی کوکھ سے ہی جنم کیوں نہ لے اسے تعلیم ہر حال میں ملنا
چاہیے۔کہا جا رہا ہے کہ بھٹہ مالکان کے ساتھ مذاکرات ہوچکے ہیں جسمیں وارث
کو بھی چائلڈ لیبر کے جرم میں برابر کا شریک سمجھتے ہوئے سزا ملے گی جو خوش
آئند ہے کیونکہ جس طرح وزیر اعظم پاکستان اور میاں شہباز شریف کے بیانات آ
رہے ہیں کہ ہم معصوم بچوں کے ہاتھوں میں اینٹ،چابی پانہ،میزیں صاف کرنے
والا کپڑا،نہیں قلم دیکھنا چاہتے ہیں بہت بڑا ویژن ہے اگر اسکی نگرانی کرنے
والوں کی نگرانی کر لی گئی تو کروڑوں چائلڈ لیبر کا شکار بچے زیور تعلیم سے
آراستہ ہو سکتے ہیں اور پاکستان ترقی کر سکتا ہے ورنہ اندھوں کے دربار میں
بہرے قانون سازی کرتے رہیں گے- |