اقدار فروش

اقدار فروش۔۔۔ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ایک سبق آموز تحریر

مضمون نگار: علامہ محمد اسمٰعیل بدایونی

حسبِ معمول جب کالج جانے کے لیے نکلا تو راستے میں موجود پھول فروشوں کی دکانیں صبح صبح ہی کھلی ہوئیں تھی دل میں خیال آیا یا اللہ کیا ماجرا ہے کیا رات گئے کوئی انقلاب آگیا کہ لوگوں نے صبح صبح دکانیں کھولنا شروع کر دیں۔ تمام پھو ل فروشوں کی دکانیں لائین سے سجی ہوئیں تھی بلکہ آج تو ان کی سجاوٹ ہی نرالی تھی بہت سارے چھوٹے بڑے گفٹ بھی نظر آرہے تھے بڑا حسین منظر تھا تھوڑا اور قریب گیا پھولوں کو چھو کر دیکھا دانتوں میں انگلی دبائی یقین ہو گیا کوئی خواب نہیں دیکھ رہا ہوں یہ سب کچھ حقیقت ہے میری قوم صبح صبح رزقِ حلال کی تلاش میں نکلنے لگی ہے اب۔ اتنے میں ایک ماڈرن نوجوان لڑکی آئی اور پھولوں کا ایک گلدستہ لے کر چلی گئی ایک لڑکی نقاب میں آئی اور اس نے بھی گلدستہ خریدا اور اپنے کالج کی وین میں بیٹھ کر چلی گئی کچھ دیر یہ دیکھتا رہا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا اور پھول فروشوں کو حوصلہ دینے ان کے قریب چلا گیا ان سے کہا:بھائی آپ لوگوں نے صبح صبح دکان کھولنے کی برکت دیکھی خوب بک رہا ہے مال، ماشاء اللہ۔ وہ دکاندار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا کہنے لگایہ کوئی صبح صبح کی برکت نہیں ویلنٹائین ڈے کی برکت ہے۔ میں حیران رہ گیا یہ ویلنٹائین ڈے کیا بلا ہے؟ بھائی ! میں نے دکاندار سے پوچھا :ارے ماسٹر صاحب ! ایک نوجوان لڑکا ایک نوجوان لڑکی سے آج کے دن محبت کااظہار کرتا ہے اس کو پھول پیش کرتا ہے تحفہ دیتا ہے اسی طرح ایک نوجوان لڑکی ایک نوجوان لڑکے کو تحفہ دیتی ہے پھول پیش کرتی ہے محبت کا اظہار کرتی ہے ۔اور آج کے دن پھول اور یہ تحفے کئی گنا مہنگے بکتے ہیں بس یوں سمجھ لیجیے صرف آج کے دن کی کمائی اتنی ہوتی ہے کہ مہینہ گزر جاتا ہے ۔دکاندار نے ہنستے ہنستے مجھے بتایا۔ میں حیرت سے یہ سب سُنتا رہا۔ رگوں میں دوڑتا ہوا خون خشک ہوتا محسوس ہونے لگا دماغ اس بے حیائی اور بیہودگی پر کھول اٹھا سوچا کیوں نہ ان صاحب کو کچھ سبق سکھایا جائے۔ بھئی اگر یہ بات ہے تو ایک گلدستہ ہمیں بھی دیجیے۔ بالکل بالکل ویسے ماسٹر صاحب کون سا والا دوں آپ کو ؟دکاندر نے مجھ سے پوچھا۔ بھئی آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کی بیٹی کو کون سا پسند ہے ؟ میں نے شرماتے ہوئے کہا۔ دکاندار کے چہرے کا رنگ فق سے اڑ گیا ماسٹر! تم ہوش میں تو ہو کیا بک رہے ہو ؟ لگتا ہے کچھ زیادہ ہی پی لی ہے ؟ابھی اتارتا ہوں تمہارا نشہ ،دکاندار کا چہرہ غصہ سے لال ہو رہا تھا۔ میں اس کے غصے سے خوب لطف اندوز ہورہا تھا۔ بھئی آپ تو جانتے ہیں میں پینے پلانے کی خرافات سے بہت دور رہتا ہوں آپ بس ایسا گلدستہ بنائیے کہ جو دیکھے دیکھتا رہ جائے اور آپ کی بیٹی تو خوش ہوجائے پیسوں کی بالکل پروا نہ کیجیے گا جتنے لگیں لیکن آپ کی بیٹی کا دل خوش ہو جانا چاہیے۔ دکاندار کا صبر جواب دےگیا اس سے پہلے کہ وہ میرا گریبان پکڑتا۔ میں نےاس سے کہا بھائی ! دیکھو ! ناراض نہ ہو تمہاری بیٹی میری بہن ہی ہے مگر یہ بتاؤ تھوڑے سے نفع کے لیے تم یہ کیا کررہے ہو ؟آج تم پھول نہیں بیچ رہے دوست تم اقداربیچنے نکلے ہو یہ پھول محبت پر نہیں بلکہ اقدار کے جنازے پر چڑھائے جا رہے ہیں تم سوچو آج تمہاری بیٹی کی بات آئی تو تم چراغ پا ہو گئے لیکن یہ ہی پھول فروشی کا دھندہ تم دوسروں کی بہن بیٹی کے لیے کررہے تھے تو کچھ نہ تھا تمہارا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا یاد رکھنا! تم پھول فروش نہیں اقدار فروش ہو اور جب اقدار بکیں گی تو نیلام تمہاری عزت بھی ہو گی۔ گل فروش کی آنکھوں میں آنسو تھے اور میں اپنے کالج کی جانب بڑھ گیا۔
14 Feb Manany Walon ko Ummed hai Is Se Bohat Kuch Samjh Agaya hoga...
Mustafa
About the Author: Mustafa Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.