محبت ایک طاقتور انسانی جذبہ ہے ،یہ ایک ایسی قوت
ہے جو کسی کی زندگی کو آباد بھی کر سکتی ہے اور برباد بھی کر سکتی ہے آج کے
نوجوان اس جذبے کی اہمیت پر ویلنٹائن ڈے منا رہے ہیں ویلنٹائن ڈے کیا ہے ؟
اور یہ کس طرح رواج پایا اس کے بارے میں کوئی مستند اور حتمی رائے موجود
نہیں ۔ ایک واقعہ جو اس کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے ۔
ویلنٹائن اس دور کے پادری کا نام ہے جب روم میں آگ لگی ہوئی تھی ، اور یورپ
جنگوں کی زد میں تھا ، نفسا نفسی کا دور تھا ،اس وقت ہر طرف جنگ ہی جنگ تھی
تو اس وقت کے بادشاہ نے شادیوں پر پابندی لگا دی تھی اور ہر نوجوان پر فوجی
ٹریننگ لازمی کر دی تھی تا کہ افراد کی کمی کو دور کیا جا سکے اور محاذ پر
تا زہ دم دستے روانہ کیے جا سکیں اور یہ اعلان کیا کہ جو بھی شادی کرے اور
کروائے گا اس کو سزائے موت دی جائے گی تو اس وقت پادری ویلنٹائن ان میں ایک
تھا جس نے بادشاہ کے خلاف آواز اٹھائی ، لیکن بادشاہ نے اس کی ایک نہ چلنے
دی ، کچھ عرصہ تک خاموشی رہی ، ایک لڑکی اس دوران ایک لڑکے کے ساتھ محبت
کرتی تھی اور اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی اسکو اس بات کا خطرہ تھا کہ
گر بادشاہ وقت کے کانوں تک یہ بات پہنچ گئی تو اس کی اور اس لڑکے کی جان کو
خطرات لاحق ہو جائیں گے ، چنانچہ اس لڑکی نے بھاگ کر ویلنٹائن کے پاس پناہ
لے لی ،ویلنٹائن جو کہ بادشاہ کا مخالف تھا اور شادی کے حق میں تھا اس نے
لڑکی کو پناہ دے دی،ویلنٹائن کو اس دوران اس لڑکی سے محبت ہوگئی اور اس کے
ساتھ ایک رات صحبت کر ڈالی ۔
اس واقعہ کی خبر بادشاہ کو ہوگئی اور اس نے پادری کو گرفتار کرلیا ،پادری
نے اعتراف جرم کرلیا ،اور کہا محبت کرنا جرم نہیں ہے ، بادشاہ نے پادری کو
جیل میں ڈال دیا اورحکم دیا کہ ابھی بھی وقت ہے باز آجاؤ،لیکن ویلنٹائن نا
مانا ۔حاکم وقت نے اسے پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا ۔
لوگوں نے اسکی قبر پر پھول نچھاور کیئے اور تنبیہی کارڈڈالے ،پھر اسکے ایک
سال گزرنے کے بعد ویلنٹائن کی برسی کا دن آیا تو کچھ منچلوں نے اس کی قبر
پر پھول ڈالے اور محبت کرنے والوں کو ویلنٹائن کی یاد میں کارڈ بھیجے ۔
اس حقیقت کہ بعد ساری بات عیاں ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کے
تہواروں کو پروان چڑھانا اسلامی معاشرے کی تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ
بھی نہیں۔
اب یوم تجدید محبت کے نام پر کھلا کھلم بے راہ روی کی ترغیب دی جارہی ہے
اور اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے تہواروں کو جان بوجھ کر ہوا دی جا رہی
ہے ،تاکہ مسلمان اپنے مبارک اورپاک تہوار چھوڑ کر غیر اسلامی تہوار منا کر
اسلام سے دور ہو جائیں ۔
دین اسلام میں نبی پاک ﷺ نے امت مسلمہ کو دو مقدس تہوار دیے ہیں حضرت انس
رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ دور جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار
منا یا کرتے تھے ، جب آنحضرت ﷺمدینہ میں شریف لائے تو صحابہ کرام ؓ سے
فرمایا اﷲ تعالٰی نے تمھیں ان دونوں تہواروں کے بدلے میں دو تہوار عطاء کر
دیے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں عیدالفطر اور عیدالضحٰی (صحیح سنن
نسائی )
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس کی تشہیر میں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ
میڈیا کو بھر پور استعمال کیا جا رہا ہے ، اور اس دن کو خاص پروگرام دکھا
کر یہ باور کرونے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے یہ غیر مضرت رساں یا مسلمانوں
ہی کا تہوار ہے ۔
تہوار بنیادی طور پر کسی بھی معاشرے کی ثقافت کے امین ہوتے ہیں اور اس
معاشرے کی سوچ اور عمل کی عکاسی کرتے ہیں۔
افسوس صد افسوس کہ اب مسلمانوں نے بھی اس بے حیاء اور بے شرم نسل کی طرح اس
دن کو باقاعدگی کے ساتھ منانا شروع کر دیا ہے اس دن پھولوں اور تحفوں کا
تبادلہ کیا جاتا ہے ۔نوجوان لڑکے ،لڑکیاں ایک دوسرے سے اظہار محبت کرتے ہیں
اور پھر اسلامی اور اخلاقی اقدار کی دھجیوں کو اڑاتے ہیں اب ساری بات عیاں
ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کے تہواروں کو پر وان چڑھا کر اسلامی
معاشرے کی تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔
سوچئیے بحثیت مسلمان اور اسلامی معاشرہــ!
ہمیں اپنی اسلامی اقدار کو محفوظ کرنا ہے یا غیروں کے تہوار منا کر نسل نو
کو بے را ہ روری، بے حیائی ، فحاشی اور عریانی کے سیلاب میں دھکیلنا ہے ۔
اﷲ ہمیں سیدھے راستے پے چلنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین |