حکومت ،سپریم کورٹ ،لینڈ مافیا اور عاجز شہری!
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
سپریم کورٹ کا یہ بیان کہ '' حکومتیں خود ہی تو قبضہ گروپوں کو نقشے بنا کر دیتی ہیں'' ،پڑھ کر سپریم کورٹ میں چنار پارک پر لینڈ مافیا کے قبضے کے مقدمے کی ایک پیشی یاد آ گئی۔اس کے بعد سات آٹھ سال سے لینڈ مافیا پبلک چنار پارک پر بدستور قابض ہے،پارک میں دو کچے کمرے بنا کر لینڈ مافیا نے اپنے مسلح افراد وہاں بٹھا رکھے ہیں جو تما م آبادی کے لئے مسلسل خوف و ہراس کا باعث ہیں۔لینڈ مافیا کی پشت پناہی کرنے والوں میں پنجاب حکومت کے چند اعلی افسران اور ایک اعلی پولیس افسر کا نام بھی آتا ہے۔پولیس اہلکاران آئے روزچنار پارک میں آتے ہیں اور لینڈ ما فیا کے غنڈوں کی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے ہیں۔اس معاملے پر کئی بار وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو درخواستیں دی گئیں لیکن کچھ نہ ہوا۔کچھ عرصہ قبل چیف سیکرٹری پنجاب کو بھی چنار پارک پر لینڈ مافیا کے قبضے کے خلاف در خواست دی گئی جو انہوں نے راولپنڈی پولیس کو ارسال کی لیکن سال سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود اس معاملے میں کچھ نہ ہوا۔تعجب انگیز بات یہ ہے کہ راولپنڈی کی انتظامیہ خود اپنی مفصل تحریری رپورٹ میں یہ قرار دے رہی ہے کہ لینڈ مافیا ناجائز طور پر سرکاری چنار پارک پر قابض ہے لیکن سرکاری ملکیت والے چنار پارک کو واگزار کرانے کی کوئی کاروائی نہیں کی جا رہی،شاید وہ کسی حکم کے منتظر ہیں یا کسی حکم پر خاموش بیٹھے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک اہم قومی ادارے کا ایک بڑا افسر میرے گھر آیا،گھر سے روانہ ہوتے وقت اس کی نظر سامنے واقع سر سبز قائد اعظم پارک پر پڑی تو وہ بے ساختہ بول اٹھا'' اوہ ،ابھی تک کسی نے اس پارک پر قبضہ نہیں کیا ؟''۔اتنا ہی عرض ہے کہ شہریوں کے ساتھ اس طرح کے طرز عمل سے شہریوں کا اعتماد انتظامیہ ،پولیس،عدلیہ اور حکومت سے ہی نہیں ،ملک کے نظام سے بھی اٹھ جاتا ہے۔لیکن اس کی فکر کس کو ہے؟ |
|
سپریم کورٹ نے آئین کے واضح احکامات
کے باوجود یاستی اداروں کی جانب سے ملک بھر کے بے گھروں کورہائش کی لازمی
فراہمی کو یقینی نہ بنانے اور اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے کچی آبادیوں
کے خلاف آپریشن سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران وفاقی و صوبائی حکومتوں
اور سی ڈی اے حکام کو آ خری مہلت دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ غریب اور متوسط
طبقہ کیلئے سستے رہائشی منصوبے شروع کیے جائیں اور اس کیلئے قانون سازی کا
مسودہ دوماہ کے اندر اندر عدالت میں پیش کیاجائے۔ ا یسے منصوبوں کے ماہرین
پر مشتمل ایک کمیشن بھی تشکیل دیا جائے، اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیتے
ہوئے کہا کہ حکومتیں خود ہی تو قبضہ گروپوں کو نقشے بنا کر دیتی ہیں۔ ،عدالت
نے قرار دیا ہے کہ حکومتیں ملک کے پسماندہ طبقات کے سماجی حقوق کے حوالہ سے
اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں، بصورت دیگر سپریم کورٹ اپنی آئینی ذمہ
داریوں کے تحت سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوگی۔
سپریم کورٹ کا یہ بیان کہ '' حکومتیں خود ہی تو قبضہ گروپوں کو نقشے بنا کر
دیتی ہیں'' ،پڑھ کر سپریم کورٹ میں چنار پارک پر لینڈ مافیا کے قبضے کے
مقدمے کی ایک پیشی یاد آ گئی۔سالہا سال پہلے لینڈ مافیا نے ایف بلاک
سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی میں واقع پنجاب حکومت کے ملکیتی ،سرکاری چنار پارک
پر قبضہ کیا تو راولپنڈی کی پولیس اور انتظامیہ بھی ان کی معاون نظر
آئی۔اہلیان علاقہ نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن لینڈ مافیا کا اثر و رسوخ برتر
ثابت ہوتا رہا ۔2009ء میں جب لینڈ مافیا نے پبلک چنار پارک میں عمارات
بنانی شروع کر دیں تو مجبور و عاجزشہریوں نے میڈیا کا سہار ا لینے کی کوشش
کی۔انگریزی روزنامہ 'ڈان' نے چنار پارک پر لینڈ مافیا کے قبضے کے معاملے کی
مکمل تحقیقات کے بعد پورے صفحے پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی۔اس کے بعد
انگریزی روزنامہ'' دی نیوز'' نے بھی سرکاری چنار پارک پر لینڈ مافیاکے قبضے
پر اپنی ایک رپورٹ شائع کی۔اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس افتخار چودھری نے '' دی
نیوز'' میں یہ رپورٹ پڑھ کر اس معاملے کا'' از خود نوٹس'' لیا اور راولپنڈی
کی انتظامیہ سے چنار پارک پر قبضے کے معاملے کی رپورٹ طلب کر لی۔راولپنڈی
کے کمشنر اور' ڈی سی او' نے محکمہ مال کی دو ٹیموں سے چنار پارک کی زمین کی
الگ الگ ''ڈیمارکیشن'' کرائی اور سپریم کورٹ کے نام اپنی تحریر ی رپورٹ میں
یہ واضح کیا کہ چنار پارک پہ قابض لینڈ مافیا کے پاس جس زمین کی ملکیت کا
عدالتی فیصلہ موجود ہے ،اس کا خسرہ نمبر چنار پارک کے خسرہ نمبر سے مختلف
ہے۔لینڈ مافیا کا ملکیتی خسرہ نمبر نزدیکی آبادی ڈنہ ہردو میں واقع ہے،جہاں
تعمیرات ہو چکی ہے۔یوں لینڈ مافیا نے ایک خسرہ نمبر کی ملکیت کا عدالتی
فیصلہ رکھتے ہوئے مختلف خسرہ نمبر والے سرکاری چنار پارک کی آراضی پر
ناجائز طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے یہ تفصیلی رپورٹ سپریم
کورٹ میں پیش کی گئی تو اہلیان علاقہ خوش ہوئے کہ اب یہ رپورٹ دیکھتے ہی
چیف جسٹس صاحب انتظامیہ کو حکم دیں گے کہ چنار پارک کو لینڈ مافیا سے
واگزار کراتے ہوئے پارک کی حیثیت بحال کی جائے اور سرکاری پارک پر قبضے
کرنے پر لینڈ مافیا کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔ سپریم
کورٹ میں چیف جسٹس کے'' از خود نوٹس'' کے علاوہ اہلیان علاقہ نے بھی چنار
پارک پر لینڈ مافیا کے قبضے پر ایک کیس دائر کر رکھا ہے۔اس کیس کی سماعت کی
تاریخ آئی تو شہری خوش ہوئے کہ اب انصاف ہو گا اور لینڈ مافیا کو اپنے
ناجائز کاموں کے لئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
چنار پارک لینڈ مافیا کیس کی سماعت پر اہلیان علاقہ کے ایک گروپ کے ساتھ
میں بھی پیشی پر سپریم کورٹ گیا۔شہریوں کی طرف سے حبیب وہاب الخیری
ایڈووکیٹ چیف جسٹس جسٹس افتخار چودھری کی عدالت میں پیش ہوئے۔مقدمے کی
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس افتخار چودھری نے وہا ب الخیری سے کہا کہ پہلے
یہ دیکھ لیا جائے کہ یہ مقدمہ 12(2) کا بنتا ہے یا نہیں۔وہاب الخیری نے کہا
کہ جناب چنار پارک پر لینڈ مافیا کے قبضے کا آپ نے '' از خود نوٹس '' بھی
لیا ہواہے اور وہ مقدمہ آپ کی عدالت میں ہے۔اس پر چیف جسٹس جسٹس افتخار
چودھری نے کہا کہ جب اس مقدمے کی سماعت ہو گی تو دیکھ لیں گے۔وہاب الخیری
نے کہا کہ جناب لینڈ مافیا چنار پارک میں تعمیرات کر رہا ہے،تو چیف جسٹس نے
کہا کہ کوئی بات نہیں بعد میں گروا دیں گے،آپ پہلے ہائیکورٹ سے ہو کر
آئیں۔ہم جو یہ توقع لیئے آئے تھے کہ چیف جسٹس صاحب انتظامیہ کی رپورٹ دیکھ
کر فوری ایکشن کا حکم دیں گے لیکن چیف جسٹس جسٹس افتخار چودھری کی طرف سے
سماعت کے دوران مقدمے کا ضابطے کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کے نکتے کو
دیکھاجا رہا ہے ۔سب شہری بہت مایوس ہوئے۔یہ صورتحا ل دیکھ کر مجھے بھی غصے
آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟وہاب الخیر ی صاحب کو واپس ان کے گھر چھوڑنے کے
لئے کار میں بیٹھے تو میں نے حبیب وہاب الخیری ایڈووکیٹ سے کہا کہ جناب ایک
بات تو بتائیں،جب چیف جسٹس صاحب کو نکالا گیا اور پھر ایک عوامی تحریک کے
ذریعے وہ واپس اپنے عہدے پر فائز ہوئے ،تو ان کا واپس اپنے عہدے پر دوبارہ
بحال ہونا مروجہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہوا؟ حبیب وہاب الخیری ایڈووکیٹ نے
کچھ دیر خاموشی کے بعد جواب دیا ایسا آئین کے مطابق ہوا۔میں نے دوبارہ عرض
کی کہ جناب آئین کے مطابق تو ہوا لیکن کیا ایسا مروجہ طریقہ کار کے مطابق
ہوا؟ اس پر حبیب وہاب الخیری ایڈووکیٹ نے جواب دیا ،''نہیں مروجہ طریقہ کار
کے مطابق نہیں ہوا''۔اس پر میں نے کہا تو پھر چیف جسٹس صاحب چنار پارک لینڈ
مافیا کیس کے معاملے میں ہمیں مروجہ طریقہ کار میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ اس کا
جواب شاید حبیب وہاب الخیری ایڈووکیٹ کے پاس بھی نہیں تھا اس لئے وہ ایک
دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ خاموش رہے۔( حبیب وہاب الخیری ایڈووکیٹ عدلیہ
بحالی تحریک اور چیف جسٹس جسٹس افتخار چودھری کے بڑے حامی تھے اور ہم سے
بھی گفتگو میں ان کی وکالت کرتے رہتے تھے)۔
اس کے بعد سات آٹھ سال سے لینڈ مافیا پبلک چنار پارک پر بدستور قابض
ہے،پارک میں دو کچے کمرے بنا کر لینڈ مافیا نے اپنے مسلح افراد وہاں بٹھا
رکھے ہیں جو تما م آبادی کے لئے مسلسل خوف و ہراس کا باعث ہیں۔لینڈ مافیا
کی پشت پناہی کرنے والوں میں پنجاب حکومت کے چند اعلی افسران اور ایک اعلی
پولیس افسر کا نام بھی آتا ہے۔پولیس اہلکاران آئے روزچنار پارک میں آتے ہیں
اور لینڈ ما فیا کے غنڈوں کی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے ہیں۔اس
معاملے پر کئی بار وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو درخواستیں دی گئیں
لیکن کچھ نہ ہوا۔کچھ عرصہ قبل چیف سیکرٹری پنجاب کو بھی چنار پارک پر لینڈ
مافیا کے قبضے کے خلاف در خواست دی گئی جو انہوں نے راولپنڈی پولیس کو
ارسال کی لیکن سال سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود اس معاملے میں کچھ نہ
ہوا۔تعجب انگیز بات یہ ہے کہ راولپنڈی کی انتظامیہ خود اپنی مفصل تحریری
رپورٹ میں یہ قرار دے رہی ہے کہ لینڈ مافیا ناجائز طور پر سرکاری چنار پارک
پر قابض ہے لیکن سرکاری ملکیت والے چنار پارک کو واگزار کرانے کی کوئی
کاروائی نہیں کی جا رہی،شاید وہ کسی حکم کے منتظر ہیں یا کسی حکم پر خاموش
بیٹھے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک اہم قومی ادارے کا ایک بڑا افسر میرے گھر آیا،گھر
سے روانہ ہوتے وقت اس کی نظر سامنے واقع سر سبز قائد اعظم پارک پر پڑی تو
وہ بے ساختہ بول اٹھا'' اوہ ،ابھی تک کسی نے اس پارک پر قبضہ نہیں کیا
؟''۔اتنا ہی عرض ہے کہ شہریوں کے ساتھ اس طرح کے طرز عمل سے شہریوں کا
اعتماد انتظامیہ ،پولیس،عدلیہ اور حکومت سے ہی نہیں ،ملک کے نظام سے بھی
اٹھ جاتا ہے۔لیکن اس کی فکر کس کو ہے؟ |
|