ہمارے ملک ہندوستان کی تعمیروترقی میں سب
سے بڑا دخل ہمارے نظامِ تعلیم کا ہے، بلکہ ہماری تعلیمی پس ماندگی ہی ہماری
حرماں نصیبی کی اصل وجہ ہے ۔ سن 2011کے عالمی تعلیمی سروے کے مطابق شرحِ
خواندگی میں ہندوستان کا دنیا کے 234 ممالک میں سے 134واں مقام تھا اور اس
وقت ملک کی شرح خواندگی 63 فیصد تھی جو بڑھ کر اب 75 فیصد تک پہنچ چکی ہے ،مگر
اِن تعلیم یافتہ گان کا معیار کیا ہے اور ان میں کتنے لکھے پڑھے ہیں اور
کتنے پڑھے لکھے ہیں، تو حالیہ تحقیق میں ملک کی 75 فیصدآبادی کوتعلیم یافتہ
بتایاگیا ہے، یعنی کل آبادی 1,283,470,000میں سے 9,62,602,500 لوگوں
کوتعلیم یافتہ ، جبکہ 3,20,867,500 لوگوں کوناخواندہ ،مگر یہ بھی سچ ہے کہ
ان75 فیصد تعلیم یافتہ گان میں سے پچاس فیصد، تو وہ لوگ ہیں جو واقعی پڑھے
لکھے ہیں، جبکہ ابھی بھی اس کا نصف فیصد ان لکھے پڑھوں کی ہے، جو انگوٹھا
لگانے کے بجائے دستخط کرنا جانتے ہیں۔اور ظاہر سی بات ہے کہ جس ملک کی کل
آبادی کا نصف سے زاید زیورِ علم سے آراستہ نہ ہوں، تو وہاں ترقی کانام لینا
ریت میں گھروندے تعمیر کرنے کے مترادف ہوگا۔اور مزید یہ کہ ہمارے یہ تعلیم
یافتہ گان کیسے ہیں، ان کی قابلیت کی سطح کہاں تک ہے؟ ذرا ن کا بھی سرسری
جائزہ لیتے چلیں،مگر ان سے قبل تعلیمی اداروں کا تجزیہ کرنا ضروری ہے، تو
2014 کے عالمی سروے کے مطابق چوٹی کی دو سو یونیورسیٹیوں کی فہرست میں
ہندوستان کی ایک یونیورسٹی بھی نہیں تھی ، بلکہ اس سے پہلے سن 2013 میں
ARWU (Academic Ranking of World Universities) نے دنیا کی500 چوٹی کی اعلیٰ
تعلیمی انسٹی ٹیوشن کی فہرست جاری کی تھی، مگر صد افسوس کہ ان میں بھی کسی
ہندوستانی انسٹی ٹیوشن کا کوئی مقام نہیں تھا، البتہ عالمی سائنس انسٹی
ٹیوشن کی فہرست میں انڈین سائنس انسٹی ٹیوشن کا مقام تین سو اور چار سو کے
درمیان آتا ہے اوروہ بھی صرف بنگلور کی یونیورسیٹیاں ہیں، ورنہ تو دوسرے
صوبوں کے تعلیمی مراکز کا اعلیٰ عالمی تعلیمی مراکز میں کوئی مقام نہیں
ہے۔اور چونکہ تعلیمی مراکز کا طلبا کی صلاحیتوں پربھی گہرا اثر ہوتا ہے اور
جب ہمارے اعلیٰ تعلیمی مراکز ہی دنیا میں کوئی بھی مقام حاصل کرنے میں ہنوز
ناکام ہیں، تو کیا یہ ممکن ہوسکتا کہ دنیا میں ان کے طلبا کی لیاقت وصلاحیت
میں بھی اپنا کوئی مقام ہو؟تو O E D (Organisation for Economic
Co-operation and Development) کی رپورٹ کے مطابق جب P I S A ( Program for
International Student Assessment) کے تقابلی مقابلے میں 73 ممالک سے پندرہ
سال کی عمر کے بلا امتیاز پانچ لاکھ طلبانے شرکت کی اور سائنس وریاضی کے
مختلف موضوعات پر دو گھنٹے تک ان کے اس مقابلاتی پروگرام کا سلسلہ جاری
رہا،مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اس پروگرام میں ہندوستان نے 72 واں مقام
حاصل کیا، جبکہ کرگزستان نے 73 واں مقام حاصل کیا۔جب یہ حیرت انگیز تفصیلات
سامنے آئیں، تو یقیناًاربابِ دانش کو تو بغلیں جھانکنا ہی تھا، البتہ
ہندوستان کے پرگرام منسق جناب شاہین مستری نے جو بات کہی وہ ہمارے لیے
واقعی لمحۂ فکریہ ہے، چنانچہ انہوں نے کہا تھا :’’ یہ تفصیل جان کر ایک
گونہ مجھے خوشی ہوئی کہ چلو کم از کم اس سے یہ توپتہ چلا کہ ہماری بساط کیا
ہے اور یہ لوگوں کے سوچنے کا بھی مقام ہے کہ انہیں ترقی کرنے کے لیے ابھی
کتنا وقت درکار ہے‘‘۔
ان پس ماندگیوں کے پیچھے ایک تو اسکول اور کالجوں کی نج کاری
(Privatisation) ہے ، کیونکہ ان پرائیوٹ اسکولوں میں روزِ اول ہی سے اختصاص
کے بجائے تنوع پر پوری توجہ صرف کی جاتی ہے، جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ طلبا
یہ طے نہیں کرپاتے کہ وہ کیا حاصل کریں اور کس موضوع کو اختیارکریں اور کس
کو چھوڑیں، نتیجۃً کسی بھی میدان میں وہ خاطر خواہ کارنامہ انجام نہیں دے
پاتے؛ طالبِ علم جب نرسری اور ابتدائی کلاسوں میں ہوتا ہے، تو بے چارہ اپنی
کمر پر پڑی کتابوں کے وزن کو برداشت نہیں کرپاتا، تو پھر ان کے مفہوم
ومطالب کے افہام وتفہیم کی گتھیوں کو کہاں تک حل کرسکتا ہے اور جب بڑی
کلاسوں میں داخل ہوتا ہے، تو اسکولوں کی گراں قدرفیس کا اضافہ انہیں مزید
اپاہج بنا دیتا ہے اور جہاں تک سرکاری تعلیم گاہوں کا سوال ہے، تو اولاً
ابتدائی کلاسوں میں طلبا مڈ ڈے میل میں نمک تلاش کرنے میں پورا دن صرف
کردیتے ہیں، تو علیا درجات میں رشوت دے کر استاذ بننے والے اساتذہ مڈڈے میل
کی مکھیوں کو بھگانے ہی میں اپنا اور بچوں کا پورا وقت ضائع کردیتے ہیں،
سرکاری تعلیم گاہوں کی ناکامیوں ہی کی بنیاد پر آج ہر سال درجنوں کی تعداد
میں پرائیویٹ اسکول قائم کیے جارہے ہیں اور ان کی آں و ایں زرق وبرق دیکھ
دیکھ طلبا بھی ان کی طرف کھینچے چلے جارہے ہیں،مگر ان رنگ برنگ کے تجارتی
اڈے تعلیم کے نام پرملک وملت اور انسانی اقدار کو کہاں تک پہنچا دیا ہے، اس
کا مکمل عملی نمونہ ہمارے آج کا ہندوستان ہے! اور آج کا ہماراسب سے بڑا
المیہ یہ ہے کہ ہم کم سے کم وقتوں میں ترقی کرکے آسمان کی بلندیوں کو چھونا
چاہتے ہیں، جس کے لیے ہم انہی رنگ برنگ کے تجارتی تعلیمی اڈوں کا رخ کرتے
ہیں اور طرفہ کی بات یہ بھی ہے کہ ان پرائیویٹ اداروں میں آج ایسے بے شمار
رجسٹرڈ اسکول اور کالج ہیں جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں ، مگر وہ منھ
مانگی قیمت لے کر لوگوں کو سند فراہم کرتے ہیں، ہمارے ملک میں آج علم کی
قدر نہیں بلکہ ڈگری کی قدر ہے اور ڈگریاں تو کوڑے دان میں بھی مل جاتی ہیں
!
ہمارے نیتا جی ہندوستان کو اسمارٹ سٹی بنانے کے گو آج ہزار بلندوبانگ دعوے
کرلیں، مگر جب تک وہ ملک کے نظامِ تعلیم کو درست نہیں کرلیتے، ان کا وہ
خواب کبھی شرم ند�ۂ تعبیر ہوہی نہیں سکتا، کیونکہ تعلیم کے بغیر ملک کی
زیبائش ممکن ہی نہیں اور کیا آپ دعوے کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ ملک کاہر کس
وناکس ان پرائیویٹ اسکولوں کے بوجھ کو برداشت کرسکتاہے؟اور ترقی کے لیے ملک
کے ہر کس وناکس کو زیورِ علم سے آراستہ ہوناناگزیر ہے، کیونکہ علم ہی وہ
آلہ ہے جس کے ذریعہ ہم عالم میں ہم اپنی خفگی مٹاکر اپنی برتری ظاہر کرسکتے
ہیں۔ آج ہم جن ممالک کو ترقی یافتہ بتاتے ہیں وہ ویسے ہی ترقی یافتہ نہیں
بن گئے، انہوں نے تعلیم ہی کو ترقی کا اولین زینہ مانا اور پھر چڑھتے چلے
گئے ، ان ممالک میں پیدائش کے بعد سے ہی بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی
توجہ دی جاتی ہے اور حکومت کی طرف سے کم از کم انہیں بارہویں تک کی تعلیم
مفت فراہم کی جاتی ہے ،جس سے ان کی شرحِ خواندگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور
پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے بچے اور والدین کو بہت زیادہ تگ ودو کی ضرور ت نہیں
پڑتی اوران ممالک میں سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کی تعلیم میں بلکہ معیارِ
تعلیم میں ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا، بلکہ پرائیویٹ اداروں کے مقابلے میں
سرکاری ادارے کچھ زیادہ ہی جدید آلات سے لیس ہوتے ہیں ، جن کی وجہ سے بچوں
کا رجحان بھی ان کی طرف زیادہ ہوتا ہے ، مگر ہمارے ملک کا انداز ہی جدا ہے
طلبا سرکاری اداروں کے بالمقابل پرائیویٹ اسکولوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں،
نیز اس ملک کا ایک عجیب المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں تعلیم سے زیادہ تبدیلیِ
نصاب پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، چنانچہ آج اگر کوئی وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ
پر فائز ہوتا ہے ، تو وہ اپنے من پسند لوگوں کی کتابوں کو نصاب میں داخل
کرواتا ہے،تو کل ہوکر کوئی دوسرا اس عہدہ پر فائز ہوتا ہے تو وہ اس سابقہ
نصاب کو ہٹا کر اپنے لوگوں کی کتابوں کو داخلِ نصاب کرواتا ہے، یہاں تک اسی
تبدیلی اور ادھیڑ بن میں اصل علم کی روح ختم ہوجاتی ہے اور جب تک بچے اس
کتاب کو سمجھ پاتے ہیں کہ دوسری کتاب ان کے میز پر پڑی ملتی ہیں، ایسے میں
بچے اپنے اندر اختصاص کیسے پیدا کرسکتے ہیں ، کیونکہ ہمارے سیاست دانوں میں
اخلاص ہے ہی نہیں اور جس معاشرے سے اخلاص واختصاس دونوں کا فقدان ہوجائے تو
اس قوم کا دنیا میں کوئی مقام کبھی آہی نہیں سکتا ۔ اس کی وجہ بھی یہی کہ
ہم قائد کے انتخاب میں عقل ودانش کے بجائے جذبات سے زیادہ کام لیتے ہیں جس
کے باوصف وہ شخص جس کاعلم وعمل میں اپنا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا وہ تعلیمی
امور کے ساتھ ساتھ دیگر امور کا بھی قائد بن جاتا ہے اور بمقتضائے مثلِ
مشہور’’بندر جانے ادرک کا سواد‘‘ وہ اپنی عقل کی کسوٹی پر ہر چیز کو تولتا
ہے یہاں تک کہ عالم میں وہ خود رسوا ہوتا ہے اور ملک کو بھی رسواوبدنام
کردیتا ہے!!! |