عدم برداشت کا رجحان
(Falahuddin Falahi, India)
ہندوستانی معاشرے میں گزشتہ کئی سالوں سے
عدم برداشت کے رجحان میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جبکہ انسانی
معاشرہ ایک گل دستے کی طرح ہے جس طرح گل دستے میں مختلف رنگ کے پھول اس کی
خوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معاشرہ بھی مختلف الخیال،
مختلف المذاہب اور مختلف النسل کے افراد سے مل کر ترتیب پاتا ہے اور اس کا
یہی تنوع اس کی خوبصورتی کا باعث ہوتا ہے ، اگر کسی جگہ ایک ہی نسل اور
مذہب کے لوگ رہتے ہوں تو اسے ہم معاشرتی گروہ تو کہہ سکتے ہیں مگر اسے
کلیتاً معاشرے کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
تاہم معاشرے کی مختلف اقسام ضرور ہوتی ہیں جیسے مذہبی معاشرہ، کمیونسٹ
معاشرہ وغیرہ، مگر ان میں بھی ہر طرح کے افراد پائے جاتے ہیں، کسی غالب
اکثریت کی وجہ سے ایسے معاشرے کو ایک خاص قسم سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔
جیسے روس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کمیونسٹ معاشرہ ہے اسی طرح ایران
کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مذہبی معاشرہ ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ان
معاشروں میں دوسرے مکتبہ فکر کے لوگ موجود نہیں ہیں ، وہاں ہر نسل، ہر سوچ
اور مذہب کے افراد موجود ہیں مگر غالب اکثریت چونکہ اقتدار میں بھی ہے اس
لئے انھی کا رنگ زیادہ نظر آتا ہے۔
میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا
اور انصاف کرنا یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دور
دورہ ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں ان خوبیوں کی کمی ہو تی ہے وہاں بے چینی ،
شدت پسندی ، جارحانہ پن ، غصہ، تشدد، لاقانونیت اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ
پکڑ لیتی ہیں، معاشرے کا ہر فرد نفسا نفسی میں مبتلا نظر آتا ہے، یہ
نفسانفسی معاشرے کی اجتماعی روح کے خلاف ہے اور اسے گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
بدقسمتی سے ہندوستانی معاشرے میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے
رجحان میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے افراد
کی اکثریت کی قوت برداشت ختم ہو چکی ہے اور رواداری جیسی اعلیٰ صفت معاشرے
سے ختم ہو چکی ہے۔ ہر فرد دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے،
بے صبری ، بے چینی اور غصہ ہر کسی کے ماتھے پر دھرا دکھائی دیتا ہے۔
ٹریفک سگنل کو ہی لے لیں ، وہاں پر کھڑا ہر فرد دوسرے سے جلدی میں دکھائی
دیتا ہے خاص طور پر موٹر سائیکل سوار تو اشارہ کھلنے کا بھی انتظار نہیں
کرتے، ابھی سگنل سبز سے سرخ بھی نہیں ہوتا کہ وہ موٹرسائیکل بھگا لے جاتے
ہیں اور اگر سگنل پر ٹریفک اہلکار موجود نہ ہو تو پھر سگنل کی طرف دیکھنے
کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے، افراتفری کے عالم میں چوراہے کو پار کرتے ہیں،
اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے حتیٰ کہ
بعض اوقات نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے اور کوئی بھی اپنے موقف سے
پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور نتیجتاًمعاملہ تھانے کچہری میں چلا
جاتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے اور وہ کھلے
دل سے اسے تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لے تو یقینا ً دوسرے کو بھی اخلاق کا
مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کرنا پڑے گا اور معاملہ وہیں رفع دفع ہو جائے گا،
مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں کا چلن بالکل بدل چکا ہے، بات کو ختم کرنے کی
بجائے بڑھاوا دیا جاتا ہے۔
عدم رواداری کے اس بڑھتے ہوئے خوفناک رجحان کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں
تشدد کے ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات پیش آ رہے ہیں کہ جن کا ذکر کرتے ہی روح
کانپ اٹھتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔گزشتہ سال دہلی کے
ترکمان گیٹ کے پاس دو بائک سوار کی ٹکر میں تو تو میں میں شروع ہوئی اور
دیکھتے ہی دیکھتے ایک نے دوسرے کو اس کے بیٹے کے سامنے اتنا مارا کہ وہ موت
کی آغوش میں چل بسا ۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ دہلی میں پیش آیا ۔ایک کار
سوار کو بس سے ٹکر لگنے پر کار سوار نے بس کے ڈرائیور کو اتنا مارا کہ
بیچارہ وہیں پر دم توڑ دیتا ہے ۔جس کے باعث دہلی کے تمام بسوں کے ڈرائیور
اور کنڈیکٹر نے مسلسل دو دنوں تک بطور احتجاج روڈ پر گاڑی نہیں چلائی اور
باالاخر دہلی کے وزیر اعلی نے متوفیہ کے اہل خانہ کو واجب معاوضہ کا اعلان
کیا اور پھر مسئلہ حل ہوا ۔لیکن اس ایک شخص کی عدم برداشت کی وجہ سے ایک
شخص کی جان چلی گئی اور دو دنوں تک دہلی کے کروڑوں شہریوں کو پریشانیوں کا
سامنا کرنا پڑا ۔عدم برداشت کا معاملہ صرف عام آدمی کے ساتھ ہی نہیں ہے
بلکہ سرکاری سطح پر تعینات پولیس اہلکار میں تو اس کا زیادہ اثر ہے ۔گزشتہ
ماہ ہی دہلی کے سلیم پور علاقے میں دو شخص کے درمیان لڑائی ہوئی اور بیچ
بچاؤ کیلئے آئے شہنواز نامی شخص کو پولیس نے اس کی بیوی کے سامنے اتنا مارا
کہ وہ بھی وہیں پر دم توڑ دیا جبکہ اس کی بیوی کو لیڈیس پولیس نے جکڑ رکھا
تھا ۔اس کا ویڈیو کسی راہ گیر نے بنایا اور پھر ٹی وی چینل نے بھی اسے نشر
کیا ۔
مذہب انسان کو اخلاق کا درس دیتا ہے، اس کے اندر ایسے اعلٰی اوصاف پیدا
کرتا ہے کہ وہ بہترین انسان بنے اور معاشرے کے لئے مفید ثابت ہو ، مگر
ہمارے معاشرے میں مذ ہب کو ہی سب سے زیادہ جارحیت کے لئے استعمال کیا جا
رہا ہے ، مختلفمذاہب کے اختلافات کو اس حد تک بڑھا دیا گیا ہے کہ مختلف
فرقے کے افراد ایک دوسرے کے خون کے پیا سے ہیں۔ اب تک لاکھوں افراد فرقہ
واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ کچھ مذہبی گروہ مذہب کو بالکل ہی مختلف انداز
میں استعمال کر رہے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ان کا پسندیدہ مذہب نافذ
کیا جائے اور اس کے لئے مسلح جد وجہد کو جائز سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام تو
میانہ روی اور رواداری کا درس دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کی
تلقین کرتا ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو معاف کر دینے کو افضل قرار
دیا گیا ہے ، اسی طرح دوسرے مذاہب چاہے وہ الہامی ہیں یا انسانوں کے بنائے
ہوئے سب میں دوسروں کو برداشت کرنے کا درس دیا گیا ہے ، مگر بدقسمتی سے
مذہب کی اصل روح کو سمجھنے کی بجائے اس کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کی
جاتی ہے، یوں مذہب سوسائٹی کی اصلاح کی بجائے لڑائی جھگڑے اور فساد کے لئے
استعمال کیا جا رہا ہے۔
اسی بنیاد پرکمیونسٹ طبقہ مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دینے پر زور دیتا ہے،
حالانکہ مذہب ذاتی معاملہ نہیں ہے یہ تو طرز معاشرت ہے یعنی مذہب کو عام
زندگی میں برتا جائے، اگر کمیونسٹ طبقہ کی اصول پرستی اور اخلاقیات کا
جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بہت سے اصول الہامی مذاہب سے ہی
اخذ کیے گئے ہیں، گویا انھیں بھی کہیں نہ کہیں مذہب کا سہارا لینا ہی پڑا
ہے۔ مذہب کا مقصد ہی معاشرے سے برائی کا خاتمہ کر کے امن و سکون قائم کرنا
ہے تو پھر اسے ذاتی معاملہ تو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم دوسروں پر
زبردستی اپنی سوچ تھوپنے کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی اور یہی مذہب
سکھاتا ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہی ہے جس کا دل اسلام کی
حقانیت تسلیم کر چکا ہو جب معاملہ دل کا ہے تو بات محبت سے دل میں اتاری جا
سکتی ہے ناکہ زبردستی۔ |
|