انتہاپسندی بمقابلہ اعتدال پسندی
(عابد محمود عزام , Karachi)
انتہاپسندی ایک ایسا نفسیاتی رویہ ہے جس کی
وجہ سے انسان انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے اپنی سوچ کو دوسروں پر زبردستی مسلط
کرنا چاہتا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرہ انتشار اور بدامنی کی کیفیت سے
دوچار ہوجاتا ہے اور سکون غارت اور امن برباد ہوجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں
اعتدال پسندی ایسا وصف ہے، جو نہ صرف معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بناتا
ہے، بلکہ اس کی بدولت ہر فرد کو اس کا پورا پورا حق بھی میسر آتا ہے۔
انتہاپسند انسان کا مقصود دوسروں کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے، اس کے لیے خواہ
اسے اپنی ذات کا نقصان ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ اس کے برعکس اعتدال
پسند انسان کی فکر یہ ہوتی ہے کہ خود کو نقصان سے بچانے کے لیے دوسروں کو
نقصان سے بچانا چاہیے۔ انتہاپسند انسان کی پوری زندگی ”کرو یا مرو“ کی عملی
شکل ہوتی ہے، جب کہ اعتدال پسند انسان کی پوری زندگی ”جیو اور جینے دو“ کے
فلسفے کی عملی تعبیر ہوتی ہے۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں سے کون سا
انسانیت کے لیے مفید اور کونسا نقصان دہ ہے، یہ جاننے کے لیے بہت بڑا عالم
و مفکر ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ ایک عام انسان بھی اس کو آسانی سے سمجھ
سکتا ہے، لیکن اعتدال پسندی کی تمام تر خوبیوں اور انتہاپسندی کی تمام تر
خامیوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں اکثریت انتہاپسندی ہی کی جانب
مائل رہی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہو، جہاں اعتدال پسندی کے مقابلے
میں انتہاپسندی زیادہ نہ پائی جاتی ہو۔
پاکستان بھی ایک عرصے سے اس کی زد میں ہے۔ انتہاپسندی دن بدن پورے معاشرے
کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہے۔ اگرکسی بھی معاشرے میں تحمل و
برداشت کی جگہ انتہاپسندی اور شدت پسندی لے لے تو بہت جلد وہ معاشرہ تباہی
کا شکار ہو جاتا ہے اور پاکستان میں بدامنی و بے سکونی کی صورت میں معاشرے
کی تباہی اس انتہاپسندی ہی کی دین ہے، جو قتل و غارت گری اور دہشت گردی کی
صورت اختیار کر چکی ہے اور ہزاروں بے گناہ لوگ اسی عفریت کی نذر ہوچکے ہیں۔
یوں تو ملک کا کوئی طبقہ انتہاپسندی سے محفوظ نہیں ہے، مذہبی و غیرمذہبی سب
ہی اس کی زد میں ہیں، لیکن مذہبی انتہاپسندی زیادہ نقصان دہ ہے۔ جب
انتہاپسندی کو مذہب کا تڑکا لگ جاتا ہے تو تباہی کئی گنا بڑھ جاتی ہے،
کیونکہ مذہب ہی واحد ایسی چیز ہے، جس پر کوئی شخص سمجھوتا کرنے کے لیے تیار
نہیں ہوتا، بلکہ مرنے اور مارنے پر تل جاتا ہے اور کارخیر سمجھ کر دوسرے کی
جان لیتا ہے۔
مسلمانوں کو جتنا نقصان مذہبی انتہاپسندی اور شدت پسندی نے پہنچایا ہے،
اتنا نقصان شاید دشمنان اسلام بھی نہ پہنچا سکے ہوں۔ مذہب ہمیں انسانیت کی
معراج تک پہنچانے کا ذریعہ ہے، لیکن انتہاپسند رویوں کی وجہ سے ہماری
زندگیوں میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے
احکامات کی اصل روح سمجھنے کی بجائے ان چیزوں میں الجھ جاتے ہیں جن کی ہم
سے ڈیمانڈ بھی نہیں کی جا رہی ہوتی۔ اسلام نے ہمیں میانہ روی اختیار کرنے
کی تعلیمات دی ہیں، لیکن اکثر و بیشتر روزمرہ زندگی سے لے کر تمام اہم
مواقع تک ہمارے عمل عموماً انتہاپسندی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ حالانکہ
دین اعتدال کی حیثیت سے اسلام زندگی کے ہر شعبے میں میانہ روی کا داعی ہے۔
دین فطرت ہمیں انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے جملہ معاملات میں
توازن و اعتدال برقرار رکھنے کا سختی سے حکم دیتا ہے۔ نظامِ سیاست و معیشت
سے میدانِ جہادو تبلیغ تک، حقوق العباد کی ادائیگی سے حقوق اللہ کی بجا
ا?وری تک زندگی کے ہر گوشے میں اسلام کا حسن توازن جھلکتا نظر آتا ہے، اسی
حسن توازن کو دیکھ کر کٹر مخالف بھی اسلام کی جانب مائل ہوجاتے ہیں، لیکن
جو لوگ اسلام کے نام پر انتہاپسند اقدامات کرتے ہوئے بے گناہ لوگوں کی
جانیں لیتے ہیں، وہ لوگ اسلام کے اس حسن توازن کو بگاڑرہے ہیں۔ یہ عناصر
دنیا کے سامنے اسلام کو ایک خوفناک مذہب بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
معاشرے میں پائی جانے والی انتہاپسندی پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے،
کیونکہ اس سے مسلمان اور اسلام دونوں بدنام ہورہے ہیں۔ اس کے خاتمے کے لیے
اپنا کردار ادا کرنا ہر مسلمان کی ذمے داری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مذہبی
انتہاپسندی کو مذہبی اعتدال پسندی کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ اعتدال
پسند نظریات کو جتنا زیادہ فروغ دیاجائے گا، اتنی ہی جلدی انتہاپسندی کو
شکست ہوگی۔ اس کے لیے علمائے کرام، حکومت اور عوام کا مل جل کر کردار ادا
کرنا ضروری ہے۔ علمائے کرام کا کردار سب سے اہم ہے۔ جب تک علمائے کرام اس
ضمن میں تعاون نہیں کریں گے، اس وقت تک انتہاپسندی و شدت پسندی پر قابو
پانا انتہائی مشکل، بلکہ ناممکن ہے۔ معاشرے میں بہت سے اہل علم ایسے ہیں،
جو دین کے فہم، زندگی کی ضروریات اور دینی اقتدار کے لیے توازن اور اعتدال
پر قائم ہیں۔ جو ہمیشہ دوسروں کے جذبات، نظریات اورخیالات کا احترام کرتے
ہیں۔ انھیں اختلاف رائے کا احترام کرنے سلیقہ ہے۔ جو اس آفاقی حقیقت کو
جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مختلف طبایع کے ساتھ پیدا کیا
ہے اور تمام انسانوں کو ایک ہی سوچ اور فکر پر متفق کرنا ممکن نہیں ہے۔ کسی
دوسرے کو زبردستی اپنی سوچ کے تابع کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی شریعت اس کی
اجازت دیتی ہے۔ یہ اہل علم اپنی سوچ کو دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کی سعی
نہیں کرتے۔ اپنی خواہشات کو اسلامی اصولوں پر لاگو نہیں کرتے۔
معاشرے سے شدت پسندی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اعتدال پسند اہل علم کو
آگے بڑھ کر معاشرے کی باگ ڈور سنبھالنا ہوگی۔ یہی لوگ امت کی امیدوں کا
مرکز ہیں، پورے معاشرے کی نگاہیں ان پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ
اپنی دعوت زیادہ سے زیادہ پراثر بنائیں۔ انتہاپسند عناصرکے ساتھ مکالمہ
کریں اور ان کی ذہن سازی کریں، تاکہ یہ لوگ شدت پسندی کو ترک کر کے اعتدال
پسندی کا دامن تھام لیں۔ انتہاپسندی چونکہ خود تمام مذہبی طبقات کے لیے
چیلنج ہے، اس لیے اس پر قابو پانے کے لیے تمام مذہبی مسالک اور فرقوں میں
موجود اعتدال پسند افراد اور جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایک متفقہ لائحہ عمل طے
کر کے اس پر عمل کرنا چاہیے۔ ملک میں جتنی بھی مذہبی سیاسی، اصلاحی اور
تبلیغی جماعتیں اور شخصیات ہیں، حکومتی سطح پر ان کے ساتھ تعاون کرنا ضروری
ہے، کیونکہ اعتدال پسند نظریات کی حامل جماعتوں اور افراد کو معاشرے میں
تعاون فراہم کر کے انتہا پسندی کو شکست دی جاسکتی ہے۔ ملک میں اعتدال پسند
تبلیغی جماعت کو بطور مثال لیا جاسکتا ہے، جس کے وابستگان کو ہمیشہ شدت
پسندی سے نفرت اور پیار و محبت سے تبلیغ کرنا سکھایا جاتا ہے اور ان کی
جڑیں معاشرے میں بھی مضبوط ہیں، اس لیے ان کا معاشرے پر اثر انداز ہونا
آسان ہے۔ ملک میں تبلیغی جماعت کی پرامن سوچ جتنی تیزی سے پھیلے گی،
انتہاپسندی و شدت پسندی کے خلاف اتنی ہی تیزی سے ذہن سازی ہوگی۔ اس کے
علاوہ بھی ملک میں جو معتدل مذہبی جماعتیں ہیں، حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے
اور وہ خود اپنی ذمے داری اداکرتے ہوئے معاشرے میں اعتدال پسندی کو فروغ دے
کر انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔اسی صورت میں معاشرہ
معتدل اور امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ |
|