لائبریری پروموشن بیورو سے شائع ہونے والی اردو مطبوعات
(Dr. Nasreen Shagufta, Karachi)
چند ہم خیال لائبریری سائنس دانوں نے ۱۹۶۵ء
میں لائبریری پروموشن قائم کی۔اللہ کے فضل و کرم اور بانی ارکان کے ساتھ
مخلص افراد کی ایک جمیعت کے جہد مسلسل کے طفیل ۲۰۱۶ء میں اس ادارہ نے اپنے
پچاس سال مکمل کر لئے۔ یہ پچاس سال بہترین کتب خانوی خدمات اور کتب خانوی
مواد کی فراہمی میں صرف ہوئے ۔ بیورو نے پاکستان میں کتب خانہ داری اور کتب
خانوی سائنس کے فروغ کے لئے وہ فقیدالمثال کردار ادا کیا جو کسی اور ناشر
نے تند ہی، لگن اور استقلال کے ساتھ ادا نہیں کیا ۔
میں یہاں بیورو کے ان مقاصد کا ذکر کرتی ہوں جن کا تعلق اردو سے ہے ۔ اس کا
ایک اہم مقصد یہ ہے کہ قومی زبان میں پیشہ ورانہ موضوعات پر کتابیں اور
مضامین شائع کرنا، تحقیق کے خلاصے شائع کرنا تاکہ نتائج قارئین تک پہنچ
سکیں۔ کتب خانوی سائنس پر قومی زبان میں درسی کتب، حوالہ جاتی کتب، علمی و
ادبی کتب کی اشاعت کے اسباب مہیا کرنا اور تقسیم کرنا۔
مختصر ذکر پاکستان لائبریری بلیٹن کا بھی ہوجائے۔
۱۹۶۶ء میں پاکستان لائبریری بلیٹن میمو گراف کی شکل میں شائع ہوا۔ اس کے
بعد ڈکلریشن حاصل کیا گیا جس میں یہ اندراج تھا کہ یہ رسالہ اردو اور
انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوگا۔ ۲۰۰۴ ءمیں اس رسالہ کا نام تبدیل کرکے
پاکستان لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس جرنل رکھا گیا۔ رسالہ کے ساخت میں
تغیر آیا۔ ہر شمارہ میں اردو مضامین کے علاوہ لائبریری سائنس دانوں کے
انٹرویوز اور کتابی تبصرے بھی شامل کئے گئے۔ گاہے بہ گاہے خطبات اور
رودادیں بھی پیش کی جاتی رہیں۔ نئی مطبوعات کی خبریں بھی شامل کی جاتی ہیں۔
بیورو کی اردو مطبوعات کی فہرست بھی ہر شمارہے میں شامل ہوتی ہے۔اس شعبہ
کےذریعہ نہ صرف نئے مصنفین کی ہمت افزائی کی گئی بلکہ جدید دنیا کے نئے
موضوعات مثلا برقی یا میکانکی کتب خانہ داری اور معلوماتی سائنس پر مضامین
شائع ہوئے۔ ایک سلسلہ شخصی کتب خانوں کا شروع کیاگیا۔ جس میں کم و بیش ۵۰
شخصی علمی ذخائر کی وہ معلومات فراہم کی گئیں جو کسی اور صورت میں دستیاب
نہیں تھیں۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تاریخی کتب خانوں پر خصوصی مضامین اور
تحقیق میں دستاویزات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔ غرض مختلف موضوعات پر
قومی و بین الاقوامی سطح پر مضامین کی پذیرائی کی گئی۔
پاکستان لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس جرنل نے ۴۶ جلدیں مکمل کیں جو کسی
اور پاکستانی کتب خانوی رسالہ نے پوری نہیں کیں۔ اس کے شمارے متعدد بار
شائع ہوئے اور آن لائن بھی دستیاب ہیں۔ ان میں اردو مضامین شامل ہیں۔ کمال
تو یہ ہے کہ اس ادارے اور رسالے میں تمام اراکین اعزازی طور پر کام کرتے
ہیں۔ عطیات کے سہارے بغیر اشتہارات کے یہ رسالہ استقلال اور لگن کے ساتھ
جاری ہے۔ پاکستانی کتب خانوی ادب اردو میں پیش کرکے اس نے ایک تحریک کا
مقام حاصل کیا۔
محققین اپنی تخلیقات اور ان کے خلاصے یہاں سے شائع کروانا پسند کرتے ہیں۔
اس ادارہ کی خدمت کرتے ہوئے کئی افراد نے پاکستان اور بیرونی ممالک سے
ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تحقیقی مقالات میں ان کتابوں اور مضامین کے
حوالے ملتے ہیں جو بیورو نے وقتا فوقتا شائع کئے۔ اس طرح تصنیف و تحقیق کے
فروغ میں بھی یہ ادارہ ضرب المثال کردار ادا کر رہا ہے۔
اردو تصانیف کا سلسلہ جس پہلی کتاب سے شروع ہوا وہ "پاکستان میں کتابیاتی
سرگر میاں" تھی۔جو ۱۹۷۱ء میں شائع ہوئی یہ محمد عادل عثمانی کی کتاب کا
اردو ترجمہ تھا۔ جو زین الدین صدیقی نے کیا تھا۔
کتب خانوی سائنس میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ کمپیوٹر کے استعمال کےساتھ ساتھ
نئے مضامین داخل ہوئے۔ ایک مجموعہ مضامین "جدید لائبریری و اطلاعاتی سائنس"
مرتب ہوا جو ڈاکٹر نسیم فاطمہ اور ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے اشتراک سے
تیار کیا۔ بیورو سے اب تک ۵۵ اردو کتب شائع ہوئیں۔ کتابوں کی نوعیت مختلف
رہی، خودنوشت، سوانح عمریاں اور شخصیات پر مبنی کتابیں منظر عام پر آئیں۔
مخطوطات پر کیٹلاگ اور کیٹلاگ سازی ضابطے مرتب ہوئے۔ علم کتب خانہ پر
مضامین کے مجموعات سامنے آئے جو قدیم اور جدید دونوں قسم کے موضوعات کا
احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ تکنیکی موضوعات پرنظری و عملی نقطہ نظر سے کتابیں
شائع ہوئیں۔ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالات شائع کئے گئے۔ادب میں نثری و
شعری اصناف پر محیط کتابیں شائع ہوئیں۔گویا بیورو نے کتب خانوی ادب کے ساتھ
ساتھ اردو ادب کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ سب کی ضروریات کا خیال
رکھا گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ مضامین کے موضوعات میں اور ہیت میں تبدیلیاں آتی رہیں۔
ابتدائی دور میں مضامین مختصر بھی شائع ہوتے رہے۔ لکھنے والے کم تھے۔ لیکن
پھر رفتہ رفتہ رجحان فنی و تکنیکی موضوعات کی طرف ہوا مثلا کتابیات سازی،
کیٹلاگ سازی، درجہ بندی، کیٹلاگ سازی ضوابط، کتب خانوں کی تاریخ، کتب خانوی
شخصیات اور ان کے کارنامے موضوع بحث رہے۔
جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور درسی ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے
مختلف اقسام کتب خانہ پر خصوصی شمارے شائع ہوئے۔ خط و کتابت بھی اردو کے
حصے میں شائع ہوئی۔ کتابی تبصروں کی ضخامت بڑھی اور موضوع پر سیر حاصل
تبصرہوا۔ لائبریری سائنس دانوں کے انٹرویوز شائع ہوئے۔ان انٹرویوز میں
شخصی، پیشہ ورانہ، تجرباتی، دلچسپی، ذوق مطالعہ، کتب اندوزی اور تصنیف و
تالیف پر روشنی ڈالی گئی اس طرح منتظمین کے کارنامے ریکارڈ ہوئے اور تاریخ
کا حصہ بنے۔
میں یہاں چند تجاویز پیش کرتی ہوں۔
۱۔ جدید کتب خانے داری پر اردو میں مزید تکنیکی و تحقیقی مضامین شائع ہوں۔
۲۔شخصیات کے ساتھ ساتھ موضوعات اور اداروں پر بھی توجہ دی جائے۔
۳۔نصابی ضروریات کے مطابق اردومیں مختصر کتابیں بھی شائع کی جائیں۔
۴۔ کتب خانوی موضوعات پر اردو دانوں کو لکھنے پر متوجہ کیا جائے۔ |
|