آج معاشرے کے سامنے میں اقبالِ جرم کرنا
چاھتی ہوں۔ میں ایک باغی ہوں۔ میں اس نظام سے بغاوت کا اعلان کرتی ہوں جہاں
قدم قدم پہ ہمیں دوہری قدروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔میری بغاوت کے بہت
سارے اسباب ہیں اور میں ایک وقت میں ایک ہی سبب پہ روشنی ڈال سکتی ہوں۔
آئیے آج میں آپ کو اپنے باغی ہونے کی پہلی وجہ بتائؤں۔۔چاہیں تو آپ بھی اس
بغاوت میں میرے قدم سے قدم ملایئں ۔ چاہے مجھے قابلِ سزا قرار دیں۔
میرے باغی ہونے کے اسباب کو سمجھنے کے لئے آپ کو زندگی کے سٹیج کے چند
مختلف مناظر کو دیکھنا ہوگا۔ آپ میرے ہم سفر رہیں اور میں آپ کو ماضی کے
چند لمحوں کی سیر کراتی ہوں۔
پہلا منظر:
اسپتال کے بستر پہ ایک نازک سی لڑکی لیٹی ہے اور اس کے پہلو میں ایک گڑیا
جیسی بچی۔ ماں کبھی ممتا بھری نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھتی ہے اور کبھی
ملتجی نظروں سے اپنے شوہر اور ساس کو۔ ان کے چہروں کی مصنوعی مسکراہٹیں ان
کی مایوس آرزوئوں کو چھپانے میں قطعی طور پہ ناکام ہیں۔ شوہر کو
بیٹے کی تمنا تھی اور ساس کو پوتے کی آرزو!
مبارکبادی دینے کے لئے آنے والے بھی اپنا کردار بھرپور طور پہ ادا کر رہے
ہیں اور اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں!بھئی مبارک ہو۔ فکر نہ کرو
جس اللہ نے بیٹی دی ہے وہ بیٹا بھی ضرور دیگا!۔ ساس کے چہرے کی مسکراہٹ اور
پھیکی پڑ جاتی ہے اور وہ چمک کر کہتی ہیں۔ بات تو سچی یہی ہےکہ پہلوٹھی کے
بیٹے کی خوشی ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ خیر ہم کوئی ااپنے للہ سے مایوس تھوڑی
ہیں۔ آپ دیکھئیگا اگلی دفعہ بیٹا ہی ہوگا۔
نوعمر ماں کی آنکھوں میں نمی تیر جاتی ہے جس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے
وہ بے بسی میں اپنی پھول جیسی گڑیا کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ ابھی تو وہ
تخلیق کے کرب کو بھولی نہیں ہے اور موت کی دہلیز کو چھو کر واپس پلٹی ہے۔
ابھی سے اگلی دفعہ کی باتیں شروع ہو گئیں۔ صرف اس وجہ سے کے پیدا ہونے والا
بچہ بیٹا نہیں بیٹی ہے۔ کوشش کے باوجود دو آنسو اس کی آنکھوں سے ڈھلک کر
تکئے میں جذب ہو جاتے ہیں-
میں بغاوت کرتی ہوں اس نظام اور سوچ سے جہاں بیٹی کو اللہ کی رحمت نہیں
خوشیوں پہ اوس ڈالنے والی ہستی سمجھا جاتا ہے اور بیٹے کو مسرتوں کا پیامبر۔
دوسرا منظر
کئی سال گزر چکے ہیں اور وہ نو عمر ماں ایک ادھیڑ عمر کی عورت بن چکی ہے جس
کو اللہ نے ایک اور بیٹی کے ساتھ دو بیٹوں سے بھی نوازا ہے۔ حیرت کی بات یہ
ہے کہ اب اس کے سوچنے کا انداز یکسر بدل چکا ہے۔ آج کے منظر میں ہم
دیکھینگے کے ماں کچن میں کھانابنا رہی ہے ۔بیٹی جو اب تقریبآ تیرہ چودہ
سال کی ہے اس کے پاس آ کر کہتی ہے، "امی مجھے حساب اور انگریزی کی ٹیوشن
لگوا دیں۔ امتحان سر پہ ہیں اور ان دونوں مضامین میں میرے نمبر بہت کم آ
رہے ہیں"۔
ماں ھانڈی سے نظر اٹھائے بغیر لا پرواہ انداز سےکہتی ہے " بیٹی جیسے بھی
کوشش کر کے خود ہی امتحان کی تیاری کرو۔ تمہارے ابو دونوں بھائیوں کی ٹیوشن
فیس ہی بڑی مشکل سے ادا کر رہے ہیں۔ وہ اس مزیز بوجھ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
بیٹی جھنجھلا ئے ہوئے لہجے میں کہتی ہے " میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر
معاملے میں بھائیوں کو کیوں ہم پہ اتی فوقیت دی جاتی ہے۔ ان کی تعلیم اور
کھانی پینے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے! کل ہی ناشتے میں ایک انڈا تھا میں
نے پوچھا تو آپ نے منع کر دیا اور بعد میں وہی انڈا دونوں بیٹوں کو آدھا
آدھا کھلا دیا۔ کیا ہم آپ کی اولاد نہیں؟
ماں۔"بیٹی تم تو پرایا دھن ہو! آج ہمارے پاس کل سسرال چلی جائوگی۔جتنا
تمہاری قسمت میں ہو لکھ پڑھ لو۔ لیکن ان بیٹوں کو تو میرے اور تمہارے ابو
کے بڑھاپے کا سہارا بننا ہے۔ان پر خاص توجہ کیوے نہ دیں؟
آج بیٹی کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔" امی اگر میں بیٹی ہوں تو اس میں میرا کیا
قصور ہے؟
ماں کے چہرے پہ لمحہ بھر کو پشیمانی کا سایہ لرزتا ہے۔ پھر وہ بیٹی کو
معصوم سوالوں سے بچنے کے کئے جلدی جلدی رات کی روٹی کا آٹا گوندھنے لگتی ہے۔
میں بغاوت کرتی ہوں اس نظام سے جس میں رزق کی فراہمی کا بھروسہ اللہ پر
نہیں اولادِ نرینہ پہ کیا جاتا ہے ۔ بیٹوں کے مقابلے میں ہر معاملے میں
بیٹیوں کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ ان کو پرایا دھن اور بیٹوں کو قیمتی سرمایہ
سمجھا جاتا ہے
تیسرا منظر
مزید چار پانچ سال گزر چکے ہیں۔ آج کے منظر میں ہم دیکھینگے کے کل احتجاج
کرنے والی بیٹی اب جوان اور شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہے۔ ڈرائینگ روم میں
کچھ مہمان خواتین بیٹھی ہیں۔ بیٹی نظریں نیچی کئے ہوئے شرمائے ہوئے انداز
میں چائے کی ٹرالی لے کر داخل ہوتی ہے اور ادب سے سلام کر کے ایک طرف بیٹھ
جاتی ہے۔ ماں دل میں پریشان ہے کہ کئی دن کا بجٹ آج ٹرالی سجانے میں صرف ہو
گیا لیکن خندہ پیشانی کے ساتھ مہمانوں کو پھل، کیک اور مٹھائی پیش کر رہی
ہے، جبکہ ناشتہ کرتے ہوئے خواتین لڑکی کا بغور جائزہ لے رہی ہیں۔ آپس میں
کچھ کھسرپسر بھی ہو رہی ہے۔ ٹرالی کے ساتھ پورا انصاف کرنے کے بعد وہ منھ
پونچھتی ہوئی اٹھتی ہیں اور ماں کو مخاطب کر کےکہتی ہیں "بہن آپ لوگ ہمیں
بہت پسند آئے،آپ کی بیٹی بھی خوش اخلاق اور سلیقہ مند لگتی ہے لیکن کیا
کریں ہمارے بیٹے کو گوری دلہن چاھئیے اور آپ کی بیٹی سانولی ہے! آپ کا گھر
بھی کچھ واجبی سا ہے، رشتہ والی نے تو آپ لوگوں کو خاصہ پیسے والا بتایا
تھا! "
میں بغاوت کرتی ہوں اس نظام سے جس میں بیٹیوں کو چائے کی ٹرالی پہ گائے
بکروں کی طرح پرکھا جاتا ہے۔جہاں اچھی لڑکیوں کا معیار ان کی تعلیم، سلیقہ
اور اخلاق و آداب نہیں صرف اچھی شکل و صورت یا دولت ہے!
جہاں بیٹوں کے کئے چاند کا ٹکرا ڈھونڈھنے والیاں یہ بھول جاتی ہیں کہ ان کے
گھر بھی ایک سانولی، یا موٹی یا چھوٹے قد کی بیٹی اچھے رشتے کے انتظار میں
بیٹھی ہے
چوتھا منظر
مزید دو تین سال گزر چکے ہیں۔ بیٹی کا رشتہ آخر کار طے ہو چکا ہے۔ لیکن
والدین پریشان ہیں۔ جہیز کی تیاری، مایوں مہندی کی تقریبات، باراتیوں کا
کھانا، دولھا میاں اور ان کے عزیزوں کے لئے تحفے تحائف! ایک کمانے والا اور
اجراجات کی نہ ختم ہونے والی فہرست! رات کا وقت ہے اور ماں باپ کمرے میں
بیٹھے یہی باتیں کر رہے ہیں۔ ماں کئی چیزیں گنواتی ہے جو ابھی خریدنی باقی
ہیں، ہال والے کو بھی پیشگی رقم دینی ہے۔ باپ بوجھل لہجے میں کہتا ہے،"آکر
یہ جہیز کی لعنت کب ھمارے معاشرے سے ختم ہوگی؟ کیا یہ کافی نہیں کہ ھم اپنے
جگر کا ٹکڑا ان لوگوں کو دے رہے ہیں؟ اور سسرال والوں کو اتنے تحفے دینے کی
کیا ضرورت ہے؟ ہم نے تو ان سے اپنی حیثیت نہیں چھپائی تھی! پہلی بیٹی کی
شادی پہ ہی اتنا مقروض ہو جائونگا تو دوسری کی شادی اور بیٹوں کی تعلیم کا
کیا ہوگا؟ وہ یوں بول رہا ہے جیسے اپنے آپ سے ہی یہ سوالات پوچھ رہا ہو۔
ماں جواب میں کہتی ہے،" جیسے بھی ہو یہ سب کرنا تو پڑیگا ورنہ ہماری بیٹی
کی سسرال میں کیا عزت ہوگی؟ اس کو طعنے نہ پڑینگے کے تمہارے اماں باوا نے
جہیز میں دیا ہی کیا ہے؟
میں بغاوت کرتی ہوں اس نظام سے جس میں استطاعت نہ ہونے کے باوجود فضول رسم
و رواج پہ مجبورآ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ جہاں بیٹی کی سسرال میں قدر و
منزلت اس کے حسن سلوک، اعلی اخلاق، تعلیم اور سلیقے کے بجائے وہ ڈھیروں
جہیز ہے جو وہ اپنے ساتھ لائی ہے،
آج میں نے معاشرے کے سامنے اپنی بغاوت کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔ میں ایک
باغی ہوں اور اس فرسودہ نظام کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے فخر
محسوس کرتی ہوں۔ آپ چاہیں تو مجھے سزا دیں، چاہیں تو اس بغاوت میں میرا
ساتھ دیں اور ہم چراغ سے چراغ جلانے کے مصداق ایک نئے دور کا آغاز کریں! |