بے سکوں محبت

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت آپ بدلنے کا ۔
تبدیلی ،تبدیلی کی تلاش میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارا لحکومت " اسلام آباد " کی سڑکوں پر دن رات تھرکنے والی قوم کے جوان بیٹے اور بیٹیاں اپنے تئیں بھرپور انداز سے یہ یقین دلانے میں کوشاں ہیں کہ " تبدیلی آ نہیں رہی ۔۔۔تبدیلی آ گئی ہے "۔۔۔۔

نام نہاد تبدیلی سے جہاں " بدل رہا ہے خیبر پختون خواه " ۔۔ وہیں خوشحال روشن خیال پڑھے لکھے پنجاب میں بھی تبدیلی کے اونٹ نے کچھ اس انداز سے کروٹ لی ہے کہ " رائیونڈ محل " کے " شیروں " نے اپنے ہی " جنگل " کے واحد " چشمہ " سے سیراب ہو کر اڑان بھرنے والی ، ابرھہْ وقت کی سازشوں سے نبرد آزما " ابابیلوں " پر پابندی لگا دی ہے تا کہ " امپورٹڈ ترقی " اور "یو ایس ایڈ کی لیبل زدہ روشن خیالی " کی گاڑی سگنل فری میٹرو بس کی طرح بلا رکاوٹ دوڑتی رہے۔۔

لاہور اسلام آباد کی سڑکوں پر جہاں سرخ میٹرودوڑتی پھر رہی ہے وہیں آج کل ہر گلی کوچے میں لال غبارے ، شرارے فوارے ۔۔۔ ٹماٹر رنگ شگوفے اور گلدستے ۔۔۔ سرخ دل اورہوا بھرے دل کی شکل کے پھل پھول پودے اور تکیے ۔۔۔ غرض ہر چیز گلاب رنگ لئے " ہول سیل " ریٹ پر دستیاب ہے ۔۔

تبدیلی کے شیدائی ماہِ فروری میں حسبِ معمول پروانوں کی طرح تلاشِ " شمع " میں دل کی بتی گُل کر کے " دل لگی " کے مشن پر مصروف ہیں اور شمع " شمعِ ِ محفل " بنے خوں رنگ لباس میں ملبوس " حیا کی پوشاک " کا خوں کرنے پر تُلی ہے ۔.. میڈیا کی یلغار اور طاغوت کی اقدار کے ہاتھو ں گرفتار " قوم کےمعمار " دیں سے بیزار رہ کر زندگی میں " بہار " کے متمنی اور محبّت کے کاروبار کے دل دادہ ہیں ۔۔

" فلسفہْ محبت " کے ناکام ہیرو" ویلنٹائن" کی یاد میں طوفانِِِ بدتمیزی برپا کرنے کی تیاریاں پھر سے عروج پر ہیں ۔ محبّت کے اس کاروبار بلکہ بیوپار نے جہاں مردانہ غیرت و حمیت کو منوں مٹی تلے دفن کیا ہے وہیں نسوانی شرم و حیا کا جنازہ بھی خوب دھوم سے نکالا ہے ۔۔سال کے سال محبوب کی تبدیلی کرنے والے عاشقوں کو روم کے بت پرست کی ناجائز معشوقی یاد ہے مگر رات کی تاریکی میں مہتاب سے حسین تر بلکتی ہستی کا ذرا پاس نہیں جس کی ہچکیوں میں " امّتی امّتی " کی صدا شامل ہے ۔۔ اور جس نے ایمان کی اولین شرط اپنی محبّت کو قرار دیا ۔۔مگر افسوس نہ ہماری محبّت شفاف رہی اور نہ ہمارا ایمان کامل ہو سکا ۔۔ اور نتیجتاً انارکی ، بد امنی انتشار اور فساد ہمارا مقدّر ٹھہرے ۔۔ اغیار کی تقلید میں اندھے اتنے هوئے کہ منزل سے بھی بھٹکے اور واپسی کا راستہ بھی بھول بیٹھے ۔۔ کشتیاں جلا کر اور اپنی تہذیب بھلا کر دوسروں کی چال کی نقا لی میں اپنی چال رو بہ زوال ہوتی گئی اور پستی کی گہرائی میں اوندھے منہ جا گرے ۔۔۔

معیار ِ محبّت ہم نے عیسائی پادری کو بنایا ۔۔۔" تمہارا ویلنٹائن " کے الفاظ پر ختم ہونے والے خط کو " نامہ محبّت " کا درجہ دیا اور طاق میں رکھے ، غلاف میں لپٹے " نامۂ خدا " پر پڑی دھول ۔۔۔۔۔۔۔ہماری بھول کی شکایت اس بارگاہ میں لگاتی رہی کہ جس کے ہاں سے محبّت کے دریا پھوٹتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جو خود مرکزِ محبّت و الفت ہے ۔۔۔ہاں وہی خدا کہ جس کی رحمت کے دریا میں پوری انسانیت بلا تفریق ازل سے غوطہ زن ہے ۔۔۔ ہاں وہ پالن ہار کہ جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔۔۔۔ وہ جو ہر رات آسمان ِ دنیا پر رات آخری پہر منادی کرتا ہے ۔۔" ہے کوئی میرا بندہ مجھ سے مانگنے والا ۔۔میں اسے نواز دوں "۔۔۔۔۔ وہی رب جو ہمارے ایک قدم پر دوڑ کر آتا ہے ۔۔۔ اس پیار کرنے والے رب کی محبّت کے بدلے ہم مغرب سمت جو گیۓ تو پھر طلوع نہ ہوسکے۔۔

اغیارکی غلاظت سے لتھڑی یہ کیسی محبّت ہے جو صرف ایک یوم کے اظھار کی محتاج ہے ۔۔۔۔۔ یہ کیسی محبّت ہے کہ جس نے اس خوبصورت جذبہ کی تقدیس کو پامال اور پراگندہ کر ڈالا ہے ۔۔۔یہ کیسا عشق ہے کہ جس نے اخلاقی حدوں کو پھلانگ کر گھر کی عزت و آبرو کو سر ِ بازار تماشا بنا ڈالا ہے ۔۔۔۔ یہ کونسی محبّت کا درس ہے کہ کہ جس کے تحت سرخ پوشاکوں کی بیہودہ نمائش ہمیں ہر گلی کوچے میں بکھرے لہو تر لاشوں سے بےپرواہ اور بیگانہ کیے ھوئے ہے ۔ یہ کیسی محبّت ہے جو ھر سال اپنا محبوب بدل لیتی ہے ۔۔ اس محبّت کو میں کیا نام نام دوں جس نے حوا کی بیٹی کے سر کی چادرچھین لیاور اس کی عصمت، اور عزت پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں ۔۔۔جس نے مسلم مرد کی نظر سے حیا ، ذہنی وسعت اور بالیدگی پر ڈاکا ڈالا ہے اور صنفِ نازک کے حجاب اور لباس کو تار تار کر دیا ہے ۔۔۔ آخر کیوں حیا کی لالی گالوں سے غائب اور سرخی پاؤڈر کی مصنوعی لالی کی بہتات ہے ۔۔۔ نام نہاددانشوروں اور خود کو لبرل کہلا کر خوش ہونے والوں کو ماننا پڑے گا کہ محبّت کے نام پر کاغذی رشتے ہم کو اسی تنزلزدہ معاشرے کی طرف لئے جا رہے ہیں کہ جس میں خاندان کا شیرازہ بکھرتا ہے ۔۔ سوچ فرسودہ ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر اپنی اقدار سے دوری روحانی بے سکونی کا موجب بنتی ہے ۔۔ بقول اقبال؛
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہےترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ؐ ۔
(نام نہاد لبرلز سے معذرت کے ساتھ)
Muavia Sarwar
About the Author: Muavia Sarwar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.