شرم و حیا کا جنازہ
(Malik Shahbaz, Kot Radha Kishan)
ہماری آنکھوں نے مرد و عورت ، چھوٹے بڑے ،
امیر غریب انسانوں کے جنازے اکثر دیکھے ہیں اور بعض کوتو ہم خود کندھا دے
کر قبرستان تک پہنچا کر آئے ہیں۔مگر ایک بہت بڑا جنازہ 14 فروری کو نکلنے
والا ہے اور وہ شرم و حیا کا جنازہ ہے۔اس جنازے میں غیر مسلم لوگوں کے
علاوہ مسلمان قوم کے بہت سے چشم و چراغ بھی بھر پور حصہ لیتے ہیں اور اپنے
آپ پر فخر کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اس بے غیرتی میں کچھ جاہل اور گھٹیا لوگ تو
زنا تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی عزتوں کی سفید چادر کو داغدار کر لیتے ہیں
جبکہ اس گندگی بھرے عمل کو محبت کا نام دے دیتے ہیں۔اور افسوس کی بات یہ ہے
کہ وہ اس گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ شاعر نے خوب ترجمانی کی ہے۔
وائے ناکامی ، متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
نہ جانے کیوں ان لوگوں کو اپنی عزتوں کا پاس نہیں ہے اور نہ ہی ان کو قرآن
و سنت اور فرامین نبوی ﷺ کا پاس ہے۔ بلکہ ایک غیر مسلم ویلنٹائن کے نام پر
ہر سال شرم و حیا کا جنازہ نکال دیتے ہیں جو کہ غیر محرم مرد ، عورت کی
نکاح کے بغیر ملاقات کا حامی تھا۔مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں چاہیے کہ شرم و
حیا کا جنازہ نکالنے کی بجائے اس بے غیرتی اورجہالت کا جنازہ نکالیں اور
شرم و حیا کو فروغ دیا جائے۔ تمام مسلمان مرد اپنی نظروں کی حفاظت کریں اور
تمام مسلمان عورتیں پردے کو شعار بنالیں اور آئندہ اسی پر قائم رہنے کی
کوشش بھی کریں اور دعا بھی۔اور اگر کوئی گرا ہوا اور گھٹیا ذہن کا جاہل
انسان اس بے غیرتی کی طرف دعوت بھی دے تو اس کو بھی بڑی حکمت و دانائی کے
ساتھ سلمیٰ نامی اس نیک پارسا خاتون کی طرح سیدھے راستے میں لائیں۔
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کسی علاقے میں سلمیٰ نام کی ایک نیک ، انتہائی
شریف، شرم و حیا کی پیکراسلامی خاتون رہتی تھی۔وہ اپنے گھر کے کاموں میں
مصروف رہتی تھی اور فارغ اوقات میں اسلامی کتب کا مطالعہ اور ذکر و اذکار
اس کا معمول تھا۔اس کی زندگی اس طرح گزر رہی تھی کہ کچھ عرصہ بعد ان کے
محلے میں نئے کرایہ دار رہنے کے لیے آگئے۔میاں ، بیوی،اور دوبیٹیوں کے
علاوہ ایک نو جوان لڑکا ایوب بھی اسی کرایہ دار خاندان کا حصہ تھا۔چونکہ
محلے میں ان کی کوئی خاص واقفیت نہ تھی کہ کسی کے پاس جا کر بیٹھ جائے اس
لیے ایوب کالج سے واپس آکر رسالے ، وغیرہ پڑھ کر وقت گزارتا تھا۔اسی طرح
ایوب کی زندگی گزرنے لگی۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایوب کالج سے واپسی پر گلی
میں سے گزر رہا تھا کہ اسے ایک گھر کا دروازہ کھلا ہوا نظر آیا۔ایوب اس گھر
کے سامنے پہنچا تو اس کی نظر ایک نوجوان لڑکی پر پڑی۔ یہ وہی سلمیٰ تھی جس
کا ذکر کر چکا ہوں، سلمیٰ انتہائی خوبصورت تھی اسی لیے ایوب کی پہلی نظر
کوہی بھاگئی تھی۔جیسے ہی لڑکی کو پتہ چلا کہ باہر کا دروازہ کھلا ہے اس نے
فوراََدروازہ بند کروایا۔ایوب اس دن اس حسین منظر کو یاد کرتے کرتے ہی
سوگیا۔اور رات کو خواب میں بھی اس کو وہی لڑکی نظر آتی رہی ۔ایوب کے دل پر
سلمیٰ مکمل طور پر چھا چکی تھی اسی لیے صبح کالج جاتے ہوئے اور واپس آکر
گلی کے کئی چکر لگائے کہ شاید اس خوبصورت لڑکی کو دوبارہ دیکھنے کا موقع مل
جائے مگر بار بار چکر لگانے کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ایوب کسی موقعہ کی تلاش
میں تھا کہ کسی دن اکیلے میں گھر جا کر اپنے دل کی کیفیت بیان کرے اور اپنی
محبت کا اظہار کرے۔کچھ دن بعد ایوب نے اس لڑکی کے گھرکے دروازہ پر دستک دی
توخود اسی لڑکی نے دروازہ کھولا ۔ اس لڑکی کے کوئی بات کرنے سے پہلے ہی
ایوب بول پڑا کہ وہ اس سے اظہار محبت کرنے آیا ہے اور اس سے دوستی کرنا
چاہتا ہے۔ لڑکی نے کہا کہ وہ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتی مگر ایوب کے بار
با ر اصرار کے بعد لڑکی نے ایک شرط بتا دی کہ اس شرط پر اس سے دوستی کرے
گی۔شرط کچھ یوں تھی کہ اگر ایوب دو مہینے باقاعدگی سے نماز کی پابندی کرے
اور اوقات نماز میں اپنی پوری توجہ نماز کی طرف رکھے اور نماز کو ترجمہ کے
ساتھ یاد بھی کرے اور اس دورانیے میں کبھی ملنے کی غرض سے دروازے پر نہ
آئے۔ شرط پر عمل کرنے پر مقررہ وقت پر لڑکی نے خود ہی ملنے کا وعدہ کیا تو
ایوب نے یہ شرط بخوشی قبول کی اور نماز پڑھنے پر لگ گیا اور آہستہ آہستہ
نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن بمعہ ترجمہ بھی معمول بنالیا ۔ دو
مہینے پورے ہونے کے بعد لڑکی نے پیغام بھجوایاکہ اگرایوب نے شرط ٹھیک طرح
سے پوری کی ہے تو آجائے سلمیٰ دوستی کے لیے تیار ہے ۔ ایوب نے واپسی پیغام
بھجوایا کہ میری اسلامی بہن اب میری آنکھیں کھل چکی ہیں ، اور مسلمان ہونے
کے ناطے غیر محرم کے سامنے جانا یا اس سے فضول بات کرنا بھی اسلام میں جائز
نہیں۔لہذا تمہارا بہت شکریہ جو تم نے مجھے سیدھے راستے پر چلانے میں میری
مدد کی، چونکہ اسلام میں غیر محرم مرد ، عورت کی ملاقات جائز نہیں اس لیے
میں تم سے نہیں مل سکتا۔اس پر لڑکی بہت خوش ہوئی اور اس نے شکرانے کے نوافل
ادا کیے کہ اس کی حکمت بھری کوشش سے ایک بھٹکا ہوا انسان سیدھی راہ پر چل
پڑا۔اس سبق بھرے واقعے پر اور اپنی زندگی پر غور کریں تو صاف واضح ہو جائے
گا کہ ہمارا ایمان ہی کمزور ہے کہ ہماری نمازیں ، تلاوت، نعتیں،محفلیں،
جلسے ، ریلیاں،حضرت محمد ﷺ سے عقیدت و محبت ، اور مسلمان ہونے کے آسمان سے
چھوتے ہوئے دعوے سطحی ہیں اندر سے ہم ایمان سے خالی ہیں کہ سب کچھ جان بوجھ
کر بھی ویلنٹائن ڈے جیسے غیر اسلامی دن منا رہے ہیں ۔ہمیں اس لڑکی کے ایمان
سے اپنے ایمان کاموازنہ کرنا چاہیے کہ کیا ہم حقیقی مسلمان ہیں؟ اور اگر ہم
خود کومسلمان کہتے ہیں تو خدارا شرم و حیا کا جنازہ نہ نکالا جائے بلکہ
جہنم کی آگ اور قبر کے سانپوں اور بچھو ؤں کو ذہن میں رکھیں اور اپنے اﷲ سے
معافی مانگیں اور گزشتہ سالوں کی معافی مانگنے کے بعد اس سال 14فرری کو اس
غلیظ شیطانی مہم کا حصہ نہ بنیں۔اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔ آمین |
|