پاکستان کا ہر فرد جانتا ہے کہ آج ملک نازک
دور سے گزر رہا ہے ہمیں بیرونی اور اندرونی سازشوں اور سورشوں کا سامنا ہے
اور ان سازشوں کا قلعہ قمع کرنے کیلےء ہماری فوج نبرد آزما ہے پاک فوج نہ
صرف سرحدوں کی حفاظت کر رہی ہے بلکہ ملک کے اندر بھی عوامِ پاکستان کی جان
و مال عزت و آبرو کی بھی حفاظت کا فریضہ بجاطور پر انجام دے رہی ہے ان
حالات کے پیش نظر ہم وطن عزیز کے تمام صائب عقل ،دانشوروں، صافیوں ،اساتذہ،
طالبعلموں ،سماجی تنظیموں ،علماء کرام اور ملک کے محب وطن سیاستدانوں سے
اپیل کرتے ہیں اگر ملک کو استحکام دینا چاہتے ہو ملک اور آنے والی نسلوں کا
مستقبل بچانا چاہتے ہو تو جو تم پر اس ملک کا قرض ہے وہ ادا کرو ایسی صورت
میں جب پاک فوج رینجرزاور پولیس ملک کو دھشت گردوں اور سازشی عناصر سے پاک
کرنے کیلئے برسرِے پیکار ہے ہم پر بھی فرض ہے کے ہم جہاد بلقلم کریں شعور
اور بیداری پیدا کریں ایسی تحریریں اور ایسے پروگرامز مرتب کریں جوفوج کے
اس عظیم مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو ۔دھشت
گردی کی وبا عالم اسلام ہی میں کیونکر پھیل رہی ہے یہ بھی ایک سوال ہے مگر
ہم اپنی اپنی حثیت کے مطابق کم ازکم اپنے ملک کو اس عفریت سے بچانے کیلئے
جدوجہد توکرسکتے ہیں دھشت گردی کی شکل خواں کچھ ہی کیوں نہ ہو ان سب سے
آگہی اور اس کے مضیر اثرات سے عوام کو روشناس کرانے کا فریضہ ادا کرنا
ہوگااس طرح ہم فوج کا ہراول دستہ ثابت ہونگے اور اس مشن میں ہم اپنی فوج کے
شانہ بہ شانہ ہونگے کیونکہ اﷲ کریم نے قرآن میں فرمایا ہے کے نیکی و بھلائی
کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو ۔
الحمد پاکستان بھی اس جہادمیں مصروف عمل ہے، ہمارا جہاد ی عمل فکری اور
بیداری پیداکرنے پر ہے ان رونما حالات و واقعات کو ان دو مَسلوں میں دیکھتے
ہیں اور ان ہی کو ان تمام تر مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔پہلا مسلہ ملک میں
بڑھتی ہو غربت کا انسداد ہے غربت کے سنگین نتائج کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ غربت مذھب، ملکی سا لمیت اور معاشرے کیلئے خطرناک ہے ۔ اب د و
ر بد ل گیا ہے لو گو ں میں خطر نا ک تبد یلی آ گئی ہے ا ب ا کثر یت نے پیسے
ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے لو گ ا ب شا ر ٹ کٹ پر یقین ر کھتے ہیں ر ا تو ں
ر ا ت ا میر بننے کی جستجو میں ر ہتے ہیں جس کے لئیے و ہ سب کچھ کر گزر جا
تے ہیں۔بلکہ ا س در جہ گر جا تے ہیں کہ ا نکی کا ر ستا نیو ں پر ز مین و آ
سما ن کا نپ ا ٹھتے ہیں خو د ا نکی ما ئیں ا نکو جنم د ینے پر شر مند ہ ہو
جا تی ہیں کیو نکہ یہ د ھر تی ما ں کا سو د ا کر نے میں بھی عار محسو س
نہیں کر تے ا و ر سب سے بڑ ھ کر یہ ا س ر ب کے سا تھ بد عہدی کر تے ہیں جس
نے ا ن کو پید ا کیا چند ر و ز ہ ز ندگی کے لیئے دین دھر م ا و ر ضمیر کا
سو د ا کر نے و الے یہ لو گ مذ ہب، ملک و معا شر ے کے نا سو ر ہو جا تے ہیں
۔صبر و قنا عت ختم ہو چکا ہے ا ب تو صبر و قنا عت کے معنی ٰ و مفہو م سے
بھی عا ر ی ہو چکے ہیں ا یک خیا ل کے مطا بق غر بت کی ا س عفر یت کے ساتھ
معا شر تی ا سٹیٹس کو بر قر ا ر رکھنا مشکل ہو گیا ہے ا س لیئے بھی لو گ غر
بت سے نجا ت حا صل کر نا چا ہتے ہیں جسکے لیئے و ہ سب کچھ کر نے کیلئے تیا
ر ہیں بلکہ کر ہی ر ہے ہیں جو ا یک ا نسا ن ا و ر بلخصو ص ا یک مسلما ن
کوتو کسی طو ر ز یب نہیں د یتا ۔ آ ج غر بت کیلئے عصمت فر و شی چو ر ی
ڈکیتی بر د ہ فر و شی ،ر شو ت ،منشیا ت فر و شی جیسے متعد د جر ا ئم کئے جا
تے ہیں ۔
مز ید خطر نا ک پہلو یہ ہیں کہ غر بت کے با عث ا یما ن خر ید ے جا تے ہیں
یہ غر بت حب ا لو طنی فر و خت کر ا ر ہی ہے غر بت کے با عث ا سلا م ا و ر و
طن کے دشمنو ں سے جا ملے ا و ر ا نکے آلہ کا ر بن ر ہے ہیں بلکہ ا ز خو د ا
نید ھن کے طو ر پر ا ستعما ل ہو ر ہے ہیں۔آج ا سلا م ا و ر و طن دشمن عنا
صر و ا یجنسیا ں ا پنے مذ مو م مقا صد کیلئے ا یسے ہی غر یبو ں کو خر ید تی
ہے یا ا نکی غر بت کا سو د ا کر تی ہیں یہ با ت تو آ پ بخو بی سمجھ سکتے
ہیں کہ جو د ھشت گر دی ملک میں ہو ر ہی ہے ا س میں سنکڑو ں نہیں ہز ا ر و ں
ا فر ا د کا ر فر ما ہیں ا و ر ا تنی بڑی تعد ا د با ہر سے نہیں آتی ۔جب ا
ن دشمنا ن ا سلا م و پا کستا ن کو یہ پتہ ہے کہ یہا ں غر بت عا م ہے ا و ر
یہ غر یب با آسا نی خر ید ے جا سکتے ہیں ا و ر ا تنی ہی آسا نی سے ا ستعما
ل کئے جا سکتے ہیں تو ا ن کے صر ف چند کا ر ند ے ہما رے غر یبو ں کو خر ید
کر ا پنے مظمو م و بہا نک مقا صد کیلئے ا ستعما ل کر لیتے ہیں دو سر ا طبقہ
بھی بکتا ہے مگر وہ حو س ِ ز ر کے چکر میں لیکن و ہ بطو ر ا یند ھن ا ستعما
ل نہیں ہو تے کیو ں کے و ہ غر یب نہیں ہو تے و ہ صر ف ا پنے مقا صد حا صل
کر تے ہیں ا س کیلئے سب کچھ کر جا تے ہیں۔ غر بت پر ثا بت قد م ر ہنا ایما
ن و ضمیر کو سینے سے لگا ئے ر کھنا بلا شبہ عظمت کی دلیل ہے مگر ا ب ا یسا
کم ہو تا جا ر ہا ہے کیو نکہ ہر فر د ا سٹیٹس کی د و ڑ میں بس د و ڑ ا جا ر
ہا ہے،حر ا م حلا ل کی تمیز ختم ہو ر ہی ہے ا ب ا یک لمحے کیلئے ر و ک کر
یا پلٹ کر دیکھنا بھی نہیں چا ہتا کے و ہ کیا کر ر ہا ہے کس کی گر د َن پر
یا لا ش پر پا ؤ ں ر کھ کر آگے بڑھ ر ہا ہے غر یب یا غر بت کا ا ستعما ل عا
م ہو چکا ہے کہیں تو ا یند ھن بنا یا جا ر ہا ہے ا و ر کہیں غر بت کے عو ض
ا س سے ا س کے ا یما ن کا سو دا کیا جا ر ہا ہے غر بت کے با عث مسلما نو ں
کو غیر مسلم بنا ئے جا نے کا عمل بہت تیز ی سے جا ری ہے بز د ل سا ز شی مکا
ر عنا صر مسلما نو ں کی ا س کمز و ر ی سے نا جا ئز فا ئد ہ ا ٹھا ر ہے ہیں۔
غر بت ، مہنگا ئی ، بے ر و ز گا ر ی جیسے سنگین مسا ئل ا و ر ا سکے محر کا
ت کو کسی طو ر نظر ا ند ا ز نہیں کیا جا سکتا ا ن ا سبا ب پر غو ر و فکر تو
کیا جا سکتا ہے اور متعد د سوا لا ت ا بھر تے ہیں پر یہ سو چ کر ہر فر د خا
مو ش ہو جا تا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں بعض یہ بھی کہتے ہیں کے یہ کا م
فلا ں فلا ں کا ہے
ہما ر ا نہیں ہر شخص ا یک د و سر ے کو مو ر ود ا لز ا م ٹھر ا ئے تو یا د ر
کھیئے کہ تب بھی آ پ بر ی ذ مہ نہیں آپ کو جو ا ب بھی دینا ہو گا ا و ر حسا
ب بھی ا و ر ا سی دنیا میں سز ا بھی بھگتنا ہو گی کیو ں کے ا ب جو کچھ ہو ر
ہا ہے ا س کے ا ثر ا ت بہت سی شکلو ں میں سب ہی کو بھگتنا پڑ ر ہے ہیں سب
سے بڑ ا ظا لم و ہ ہے جو ظلم سہے ا و ر آ و ا ز نہ اُٹھا ئے بر ا ئی دیکھے
ا و ر چشم پو شی کر جا ئے پھر یہ آگ بڑ ھتے بڑھتے ا سی کے گھر میں لگتی ہے
تو کہتا ہے یہ کیا ہو ا لیکن پھر و قت نہیں ہو تا کیو ں کے یہ آگ سب کچھ
جلا کے بھسم کر چکی ہو تی ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کے جس کی ہم ترویج عام کررہے ہیں وہ ہے خو ف خدا عشق
مصطبف ےٰ ﷺ اور حسن اخلاق جسکا کاالحمد کیجانب سے درس عام دیا جارہا ہے
تاکہ عوام میں ملی یکجہتی کو فروغ دیا جاسکے کیونکہ اسلام عالمی امن و
سلامتی کا درس دیتا ہے جودرس اسلام میں ملتا ہے وہ دنیا کے کسی مذھب میں
نہیں البتہ الہامی مذاھب بھی اسی قسم کی فکر دیتے ہیں مگر مذہبی انتہا
پسندوں یا جنونی لوگوں نے مذہبی منافرت کو فروغ دے کر ہر مذھب و مسلک کودست
گریباں کردیا ہے لادینی قوتوں کی کار رستانیاں ہیں یا سازشی عناصر کی ریشہ
دوانیاں۔ ہم بہ حثیت مسلمان اس بات پرغور کریں کے ہمیں تو اﷲ حکم دیتا ہے
کہ آپس میں تفرقہ نہ ڈالوں ،سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، اور ایک
انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہے کیا اسلام نے جبرنے کا حکم دیا ؟ یا اپنی
بات مسلط کرنے کو کہا؟نہیں ہرگز نہیں اسلام تو صبر و تحمل اور اعتدال پسندی
کا سبق دیتا ہے کتنا آسان بنادیا ہے آج کے ان مذہبی ،سیاسی ٹھکیداروں نے
کفر و قتل کے اس فتوے کو کہ آج ہر گلی کے کونے پر لاشیں پڑی دِکھائی دیتی
ہیں یہ کو ن سا اسلام ہے یہ کون سی سیاسی خدمت ہے خوف اور دھشت کے سائے ہر
د م منڈلاتے ہیں ہر فر د حیران و پریشان ہے کل کا کسی کو پتا نہیں کے اُس
کے ساتھ کیا ہونے والاہے ۔کیا ہم صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہیں یا ہمیں حی
علی ا لفلاح کی صدا سنائی نہیں دیتی ۔ مسلمان کا حال یہ ہو گیا ہے کے
اختلاف در اختلاف ہوتا جارہا ہے کسی بات پر کسی چیز پر متفق ہونے کو
تیارنہیں پھِر یہ دعویٰ کرتے ہیں کے ہم ایک اﷲ ایک رسول ﷺ اور ایک قرآن کو
مانتے ہیں مگر اپنے اپنے نظریات کو درست ثابت کرنے کیلئے آیات و احادث سے
ثابت کرنے کی سر توڑ کو شیش کرتے رہتے ہیں اور کفر کے فتوے صادر کرتے رہتے
ہیں نہ یہ دیکھتے کے آیات کا شان نزول کیا ہے اور حدیث کی روح کیا ہے بس
دوڑ ہے ہر گروہ کو آگے بڑھنے کی اور اپنے گروہ میں اضافہ کرنے کی دین کی
فکر نہیں اسلام کی سربلندی اور ترویج سے کو ئی سروکارنہیں ہا ں تبلیغ کا
کام کرتے ہیں لٹریچر کتابیں بھی شائع کرتے ہیں مسجدیں بھی بناتے ہیں اور
مدرسے بھی مگر اپنے اپنے گروہ اور فرقوں کی وسعت کیلئے یہ ہے انکا دینی کام
۔
قرآن ِمقدس پر سب کا اجتماعی اتفاق ہے بتاؤ وہ تم ہی سے نہیں بلکہ بنی نوں
انسان سے کیا کہتا ہے اور کیا چاہتا ہے ؟کبھی اس پربھی غورکیا قرآن کا ایک
ایک لفظ اور آیات اپنے اندر اتنی جامع وسعت رکھتی ہے کہ جس پر لکھتے لکھتے
علم و عقل سب ماند پٹر جائیں لیکن اس کا درس و فِکر کا ہم احاطہ نہ کرپائیں
نزول قرآن سے تا حال اور نہ جانے کب تک اس کی تشریح کی جااتی رہے گی اور
علم و آگہی کے خزانے کھولتے رہیں گے ۔اسی قرآن مجید کی ایک حقیت یہ بھی ہے
جو کے بلکل سیدھی اور سچی ہے اگر دل کی آنکھوں سے دیکھوتو علم و
عرفان کی معراج کو چھولوگے اور اندھروں میں بھٹکنے کے بجائے روشنی میں
آجاوگے اور اس بات کو سمجھنے کیلئے بہت بڑا عالم ہونا قابل ہو نا بھی ضروری
نہیں۔
قرآن پاک کی مختصر ترین تشریح یو ں کر لو اور سمجھ لو کے قرآن عبادت کرنے
کاحکم دیتا ہے اتباع رسول ﷺ کا حکم دیتا ہے اور حُسن اخلاق کا حکم دیتا ہے
یہ ہی وہ تین باتیں جن کے گرد آپکی زندگی گھومتی ہے اور اسی میں آپ کی منزل
ہے ان تین جملوں میں آپ کاضابطہ حیات کار فرما ہے یہ تین دائرے دجال کی
تکون کو توڑ دینگے اگرہم ان پر کاربند ہوجائیں تو! یہ تین باتیں وضاحت ہیں
ان تین باتوں کی ۱۔ خوف خدا ۲۔عشق مصطفے ٰ ﷺ ۳۔ ُحسن اخلاق لہذا اس مختصر
ترین مفہوم کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ان باتوں کی گہرائی آپ اپنے علم
کی وسعت کے اعتبار سے جتنا چاہیں کرسکتے ہیں اگرآپ متلاشی ہیں صراط مستقیم
کے اور اﷲ رب العزت کے حضور دُعا بھی کرتے رہو کے اﷲ مجھے سیدھا راستہ
دِکھا اور سیدھے راستے پر چلا تو یہ ہی ہے وہ سیدھا راستہ جس کی ہمیں ضرورت
ہے یہ وہی راستہ جس پر اﷲ کا انعام ہے اﷲ کے بتائے ہوئے راستے سے بھٹک جانے
والوں کیلئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ذلت بھی ہے اور عذاب بھی اور
یہاں سے وہ راستہ بھی کھل جاتا ہے جو ابلیس کا راستہ ہے۔ فلاح وبہلائی کا
راستہصرف خُو ف خدا عشق مصطبفےٰ ﷺ اور حسن اخلاق ہی میں پِنہا ہے۔ …… ان
تما م معاملا ت کو حل کر نا ہم سب کی مذہبی ، قو می ، ا خلا قی ذمہ د ا ر ی
ہے -
فکر ا لحمد کا ا یک مقصد یہ بھی ہے کہ ا گر ہم لو گو ں کی کم ا ز کم تو جہ
ا س جا نب مبذ و ل تو کر ا سکتے ہیں ا و ر عمل ہمشہ جا ر ی و سا ر ی ر ہنا
چا ہئے۔ا و ر جتنی ا چھی حکمت عملی کے سا تھ ہم ا پنی ا س فکر کو دو سرے لو
گو ں میں منتقل کر سکیں گے ا تنا ا چھانتیجہ سا منے آئیگا آپ کے ا س عمل سے
و طن عز یز کو د ھشت گر د ی سے ا و ر معا شر ے کو جر ا ئم سے پاک کر نے یا
کم ا ز کم ا نسد ا د کر نے میں آ پ کا ا ہم کر د ا ر ہو گا کیوں کے آپ نے
کسی کو دھشت گردی کی بھنٹ چڑھنے یا دھشت گر دی کی آگ میں جلنے سے یا کسی کو
معا شر ے کا نا سو ر بننے سے بچا نے کے عمل میں شا مل ہوئے تو آپ کا ضمیر
بھی مطمعین ہو گا ا ﷲعز و جل کی با ر گا ہ میں سرخرو ہو نگے بلا شبہ ا س
فکر کو عا م کر نا ا و ر عملی طو ر پر ا س کیلئے کا م کر نا ا سلا م ، وطن
ا و ر معا شر ے کی بہتر ین خد مت ہے۔واضح رہے یہ کام فوج ،رینجرز یا پولیس
کا نہیں یہ کام ہمارا ہے عوامی اداروں کاہے سرکار کاہے کہ ہم سب مل کر شعور
اور آگہی پیدا کریں۔
آئے آ پ بھی ا س کار و ا ں میں شا مل ہو ں ا و ر ا پنے حلقہ ا حبا ب کو بھی
فکرِ ا لحمد میں شا مل کر کے ا پنا مذ ہبی ،قو می ، معا شرتی فر یضہ ا د ا
کر یں ہمیں ہر قیمت پر ملک کی سلامتی کو بچانا ہے ہمیں آگے جانا ہے۔ |