نصابی کتب کا ازسرِ نو جا ئزہ

 کسی بھی ملک کے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جا نے والے نصابی کتب (Text Books) قوم کی تعمیر میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔نصابی کتب صرف پڑھنے لکھنے کا طریقہ سیکھنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ تکمیلِ انسانیت اور قوم کو ایک کامیاب قوم بنانے کا اہم ہتھیار ہے۔یہ انسان کے ایسے بنیادی خیالات کی شکیل کرتا ہے جو ساری عمر اس کے زیرِ اثر رہتا ہے۔اگر ہم وطنِ عزیز میں پڑھائے جانے والے نصابی کتب کا جائزہ لیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہما رے ہاں پڑھائے جانے والے نصابی کتب ان مقاصد کو بالکل پورا نہیں کر رہے ہیں جس کی آج ہمیں اشّد ضرورت ہے۔ہم نے گزشتہ 65سالوں میں جو کچھ پڑھایا، اس کا نتیجہ اگر صفر نہیں تو غیر تسلی بخش ضرور ہے۔مثلا اگر ہم اپنے آپ سے یہ سوال پو چھیں کہ کیاہمارے نصابی کتب نے ہمین ایک متحد قوم بنایا ؟

تو جواب نفی میں ہے۔کیا ایک قوم ہو تے ہوئے ہم مختلف سوچ، مختلف فکر اور مختلف زاویہ نگاہ کے مالک نہیں ؟صرف مذ ہبی طور پر نہیں، ثقافتی، سیاسی،سماجی اور فکری لحاظ سے ہم مختلف طبقوں میں بٹے ہو ئے ہیں۔نیشنلزم کی سوچ مفقود ہے۔ہمارے نصابی کتب نے اتنے دیا نت دار لوگ پیدا نہیں کئے جتنے کرپٹ اور چور پیدا کئے ہیں۔چپڑاسی سے لے کر وزیرِ اعظم اور صدر تک جس کا جتنا بس چلتا ہے، اتنا ہاتھ مارتا ہے۔

گویا آج اس امر کی ضرورت ہے کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے ( Text Books) کا از سرِ نو ایک تقابلی جائزہ لیا جائے۔تاکہ ہمارا مستقبل روشن ہو۔اس ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہو ئے بعض شخصیات اور ادارے نصابی کتب میں اہم تبدیلیاں لانے کے لئے کو شاں ہیں۔ ان میں ایک نام پیڈ فاونڈیشن کا بھی ہے۔جسے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ،ما ہرِ تعلیم خاتون ثمینہ امتیاز اور شگفتہ خلیق کی راہنمائی میسر ہے۔گزشتہ روز اسی مقصد کے لئے انہوں نے ایک مقامی ہو ٹل میں ایک تقریب منعقد کی ، جس میں ڈپٹی سپیکر مہر تاج رو غانی صاحبہ سابق وائس چانسلر قبلہ آیاز صاحب، اقلیتوں کے نمائندے ایم این اے سورن سنگھ اور حکومت کی طرف سے ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ کے چیف پلاننگ آفیسر ادریس نے شر کت کی۔اس موقعہ پر تقریر کرتے ہو ئے قبلہ آیاز صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ بحیثیتِ چئیر مین اسلامیات ڈیپارٹمنٹ میں نے یہ بات محسوس کی ہے کہ ناظرہٗ قرآن کی ذمہ داری تعلیمی ادارے کی بجائے والدین کی ہو نی چا ہیے؛ کیونکہ ماضی میں جب یہ ذ مہ داری والدین کی تھی تو بچے صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے-

مگر آج ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح ہمارے اسلاف کو عموما نصابی کتب میں جنگجو اور فتوحات کا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے ، ان کے فلاحی کاموں کا ذکر نہیں کیا جاتا مثلا شیر شاہ سوری کے جنگی مہرت کا ذکر تو کیا جاتا ہے مگر انہوں نے خیبر سے دہلی تک جو سڑک بنائی ہے اور پانی کی سبیلیں لگوائی تھیں ،ان کا ذکر نہیں کیا جاتا ۔ممبر قومی اسمبلی سورن سنگھ نے کہا ، کہ نصابی کتب میں غیر مسلم کے فلاحی کاموں کے بارے میں بھی اسباق شامل کر نے چا ہیئں۔ مثلا لیڈی ریڈنگ جس نے بنایاہے، بلٹن بلاک کس کا عطیہ ہے، جیسے باتوں کا ذکر بھی کتابوں میں ہو نا چا ہیے۔ڈپٹی سپیکر محترمہ ڈاکٹر مہر تاج روغانی صاحبہ اور چیف پلاننگ آفیسر ادریس نے پیڈ فاونڈیشن کے کو ششوں کی تعریف کرتے ہو ئے اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

بحر حال ایک نقطہء نظر جس پر سب کا اتفاق تھا ،یہ تھا کہ دنیا اب ایک گلو بل ویلیج بن چکا ہے اور ہم نے اس گلو بل ویلیج میں نہ صرف رہنا ہے بلکہ اس میں Competeبھی کرنا ہے، سیاسی میدان میں بھی، معاشی میدان بھی، ثقافتی میدان میں بھی اور انسانیت کے میدان میں بھی۔۔۔لہذا ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کے لئے ایسے ٹیکسٹ بک تیار کرنے چا ہیئں جو ہمیں اس گلوبل ویلیج میں زندگی گزارنے کا بہترین راستہ دکھائے، جو ہمیں تحمل و برداشت سکھائے، جو ہمیں و سیع النظر اور وسیع القلب بنا دے، جو ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے اور  برداشت کر نے کا حوصلہ دے ، جو ہمیں عالمی سمجھ بو جھ،ایک دوسرے سے تعاون، امن، انسانی حقوق کے بارے میں بھی مثبت رجحان اختیار کرنے میں مدد گار و معاون ثابت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284401 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More