ڈگریاں۔۔۔۔۔۔ ردی کے ڈھیر

علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض تو ہے لیکن ہمارے معاشرے کے بیشتر نوجوانوں کو معاشرہ کے لوگ ہی علم کی دولت سے نوازدیتے ہیں ۔کیونکہ ان بچوں کے والدین سکولوں ،کالجوں کی فیسیں ادا نہیں کر سکتے اس لئے وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی ڈگری لے لیتے ہیں ۔وہ اپنا قیمتی وقت سکولوں اور کالجوں میں ضائع نہیں کرتے اور اپنے آپ کو ہنر مند بنانے اور معاشرے کا باوقار انسان بننے اور اپنے گھر کا خرچہ چلانے ، روزگار کمانے کے لئے ہنر مند بننا پسند کرتے ہیں ۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس دور میں جہاں سفارش کا بول بالا ہو، ہر طرف رشوت ہی رشوت ہووہاں کیا پڑھائی اور کیا نوکری۔اس لئے آج وہ نوجوان جو ہنر کو ترجیح دیتے ہیں وہ ایک ایم اے پاس سے زیادہ ذریعہ معاش کما رہے ہیں ۔ آج کے دور میں علم حاصل کرنا غریبوں کے بس کی بات نہیں ۔جہاں پر تعلیم حاصل کرنے کا تعلق ہے توایک غریب کے لئے بہت ہی مشکل ہے ۔ تعلیم اب اس قدر مہنگی ہوتی جا رہی ہے کہ ایک غریب آدمی اپنے بچوں کا پیٹ پالے یا پھر ان کو تعلیم دلوائے دونوں کام ہی مشکل ہیں ۔ایک غریب آدمی بڑی مشکل سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے ۔ وہ ان کو مہنگی تعلیم کیسے دلوا سکتا ہے ۔اور اگر وہ اپنا پیٹ کاٹ کار ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر بھی دے تو ان کے مستقبل کو کون سہار ا دے گا۔آج میں جو کچھ کہنے جا رہا ہوں اس کو پڑھ کر آپ بھی افسوس کریں گے کہ میاں صاحب ہر وقت میرٹ پالیسی ،میرٹ پالیسی کرتے رہتے ہیں ۔کہاں گئی ان کی میرٹ پالیسی اگر ایسا ہی ہونا ہے تو بہتر ہے ہم پاکستانیوں کو بیچ ہی دیا جائے۔کیوں ہمارے ملک کے غریب نوجوانوں کے ساتھ ظلم و ذیادتی ہو رہی ۔ان کا حق کسی دوسرے کو کیوں دیا جا رہا۔قارئیں کی نظر میں ایک نوجوان کی دردبھری داستان پیش کر رہا ہوں جس کو پڑھ کر آپ بھی ضرور سوچیں گے کہ ہمارے ملک میں کب تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔

چند دن پہلے میری ایک دوست سے ملاقات ہوئی ۔اس سے میں نے پوچھا بھائی آج کل کیاکررہے ہو۔ اس نے کہامیں نے ایم بی اے کیا ہوا ہے اور آج کل نوکری کی تلاش میں ہوں ۔بہت پریشان حال ہوں ،گھر میں بوڑھے والدین ،بہن بھائی ہیں ان کا پیٹ پالنے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے والدین نے مجھے اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لئے اپنا سب کچھ بیج دیا۔ یہاں تک کہ میری بہنوں کے جہیز کے لئے جو کچھ بنایا تھا۔وہ سب بھی میری تعلیم پر لگ گیا۔اب عرصہ دو سال سے میں نوکری کی تلاش میں ہوں ۔بہنوں کی شادی کے لئے جہیزاور بوڈھے والدین کے لئے ادویات چاہئے،مگر در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں مگر کہیں بھی کچھ سنائی نہیں ہو رہی ۔بہت سی جاب میں اپلائی کیا ۔NTSٹیسٹ بھی دیے مگر پاس ہو جانے کے باوجود کہیں نوکری نہیں مل رہی ۔پرا ئیویٹ کمپنیوں میں نوکری ملتی ہے مگران کی تنخواہ سے گھر بھی نہیں چلتا۔اس نے کہا کہ کیا یہی ہمارے ملک کا قانون ہے ۔جن لڑکوں کے نمبرز میرے سے کم تھے آج وہ جاب کر رہے ہیں ۔ مگر میں سڑکوں پر اپنے نصیب کو کرید رہا ہوں۔اس لئے کہ میرے پاس سفارش نہیں ہے اور نہ رشوت دینے کے لئے دولت۔ ہمارے حکمران پتہ نہیں کن لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کر دیتے ہیں جن کا کام صرف دولت بنا نا ہی ہے ۔یہ ملک تو مظلوموں اور مسکینوں کے لئے بنا تھا۔ تاکہ اس ملک میں غریب عوام کو انصاف مل سکتے ۔ان کو زندگی گزارنے کے لئے گھر مل سکے۔ ان کو کھانے کے روٹی مل سکے۔میں کب تک بھٹکتا رہوں گا ۔اور کب مجھے نوکری ملے گی رشوت اور سفارش کے بغیر ۔

قارئین!یہ داستان ایک غریب گھر سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی تھی جس کے والدین نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لئے اپنا سب کچھ لگا دیا۔مگر جب ان کا بیٹا اس قابل ہو گیا کہ اب وہ اپنے بوڑھے والدین کا سہار ابن سکے تواس کو نوکری کے بدلے صرف اور صرف ذلت ملی ۔یہ داستان سن کر مجھے بہت دلی افسوس ہوا کہ ہمارے حکمران تو ہر روز میرٹ پالیسیی کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں مگر پتہ نہیں ان کی میرٹ پالیسی ہے کیا۔ لگتا یہی ہے کہ میرٹ میں سب سے پہلے امیر اور سیاستدانوں کے بچے ان کے بعد کسی اور کو یہ حق مل سکے گا۔

قارئین!ہمارے ملک کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں تو ہیں مگر ان کے پاس اچھی نوکری اور وسائل کی کمی ہے ۔ہماری حکومت کب ان کو وسائل مسیر کرے گی اور کب ان کو ان کا حق مل سکے گا۔ہمارے ملک میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں ۔اور ایسے واقعات ہی کچھ غلط کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایسے نوجوان موجود ہیں جو اسی طرح مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں ۔اور اب ان کی ڈگریاں ردی کے ڈھیر بنی پڑی ہیں ۔ان ڈگریوں کا کیا کریں جن کو حاصل کرنے کے لئے ان پر ان کے والدین کا خون پسینہ لگا ہے ۔آخر کب تک غریبوں کی محنت رائیگاں جائے گی اورکب غریبوں کے بچوں کو وسائل ملیں گے ۔ اور کب امیروں اور سیاست دانوں کے بچوں سے جان چھوٹے گی ۔اگر حالات اسی طرح رہے تو ہمارے ملک کے نوجوان تباہ وبربادہو جائیں گئے اور دہشت گرد،چور،ڈاکوبن کر ابھریں گے۔ چوری اور ڈکیتی جیسی گندی عادتیں ان کو لگ جائیں گی ۔برائی پھیلے گی ۔اور جرائم میں آضافہ ہو گا ۔اور کسی بھی غریب کے گھر میں سکون نہیں ہو گا۔اور نہ ہی پیٹ پالنے کے لئے روزگار۔۔ آخر کب تک صرف غریب پسے گا۔ اور امیر گھروں میں بیٹھ کر موجیں کریں گے ۔اگر مستقبل کے معماروں کو بچانا ہے تو مساوی حقوق کی بنیاد رکھنی ہو گی
Muhammad Riaz Prince
About the Author: Muhammad Riaz Prince Read More Articles by Muhammad Riaz Prince: 107 Articles with 92928 views God Bless You. Stay blessed. .. View More