عمران سیریز کی بڑھتی ہوئی چربہ سازی اور اس کا زوال

میں آج جودل پہ پتھررکھ کر لکھنے جارہاہوں اس پرمیں اپنے بہت سے قارئین سے شروع میں ہی بہت معذرت خواہ ہوں۔بس کچھ وجہ ہی ایسی ہے کہ دل خون کے آنسورورہاہے ۔اب سے دو سال قبل میں نے ایک تحریر"عمران سیریزکی یادمیں"میں لکھی تھی۔جس میں میں نے اپنی عمران سیریزسے والہانہ عشق کاقصہ سنایاتھااور لکھاتھاکہ وہ بھی کیادن تھے جب ہم عمران سیریزپڑھاکرتے تھے۔محترم ابن صفی صاحب سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ جناب مظہر کلیم تک پہنچااور آج کل اس کی کمان ظہیراحمد صاحب کے ہاتھ میں ہے۔اس کے بعد میں نے ان دو مصنفین کی جو تعریف کی وہ بھی آپ سب لوگ پڑھ چکے ۔مگر اب تو حد ہی ہوگئی ۔اس سے قبل کہ میں آگے بڑھوں میں یہ بات واضح کردیناچاہتاہوں کہ یہ تحریر میں بطور عام قاری کی حیثیت سے لکھ رہاہوں،میری اوقات ،میری حیثیت اتنی نہیں کہ میں کسی پر بھی تنقید کروں مگر جب ظلم کی اتنہاہوجائے اور مجھ جیسے بے شمار عمران سیریز کے قارئین ذہنی کرب اور تکلیف کی کیفیت سے گزررہے ہوں تو سوچاکہ قلم اٹھاکر ان کی آواز بن جاؤں ۔شاید میرے پاس بھی اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔آپ بھی کہہ رہے ہونگے کہ ایسابھی کیا ہواکہ خدایاد آگیاتو بالکل جناب ایساہی ہواہے۔

میں اِن دنوں اپنے نئے ناول "جہنم کے سوداگر"پر کام کررہاہوں سو مجھے تو خبرہی نہ ہوئی کہ کہانی کہاں سے شروع ہوئی تھی اور اب اس قدر زوال کا شکار ہے کہ لوگ عمران سیریزکانام ہی لینانہیں چاہتے ۔وہ اتنے بیزار ہیں کہ ان کی بیزاری الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ ان دوسالوں میں آخرایساکیاہوگیاکہ جس نے کایاہی پلٹ دی ؟چربہ سازی کی اس قدر شکایات کہ ابن صفی صاحب کی روح بھی احتجاجاً چیخ اٹھی ہوگی کہ اتناظلم اور بربریت تو کسی مصنف کی کسی تخلیق کے ساتھ شاید ہی کبھی ہواہو۔جو ان کے عظیم کرداروں اور انکی تخلیق کردہ عمران سیریز سے ہورہاہے۔

محترم ابن صفی صاحب کی علالت کے دوران بہت سے مصنفین نے ان کی غیرحاضری میں عمران سیریزکو آگے بڑھاناشروع کردیا۔کسی نے ابن صفی صاحب کی ایسی بھونڈی چربہ سازی کی کہ ان کے اپنے ہی نام کے نیچے دو نقتوں کااضافہ کر کے ان کی شہرت سے فائد ہ اٹھانے کی کوشش کی (این صفی )تو کسی نے صحیح معنوں میں عمران سیریزلکھنے کا حق ادا کیا۔صفی صاحب جب اپنی علالت کے دو سال بعد میدان میں دوبارہ اترے تو عمران سیریزکے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ناول "ڈیڑھ متوالے "لکھ ڈالا۔اسی عرصے میں جن مصنفین او ر ناشران نے ظفر الملک اور جیمسن کے کرادا روں پر لکھاتو صفی صاحب نے نہ صرف ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی بلکہ لکھا کہ ان کرداروں کی وہ مٹی پلید ہرگزنہیں ہونے دیں گے۔اس کے بعد ہم نے دیکھاکہ کسی مصنف نے عمران سیریزکے ان کرداروں پر دوبارہ طبائع آزمائی نہ کی ۔

صفی صاحب کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ایک بار پھر سے وہی سلسلہ شروع ہوگیاجو آج تک جاری ہے۔کئی مصنفین آئے اور پھر چلے گئے لیکن ایک مصنف کا نام ہمیشہ اس میں سرفہرست رہااور وہ تھاملتان سے لکھنے والے مظہر کلیم کا۔ان کے ابتدائی ناولوں نے عمران سیریزکو وہ عروج بخشاکہ ان کے ساتھ والے مصنفین اپنابوریا بستر گول کرکے گھر چلے گئے ۔پھر کئی دہائیوں تک انہوں نے عمران سیریزکے واحد رائٹر کی حیثیت سے راج کیا۔لوگوں نے انہیں بے پناہ عزت وتوقیر سے نوازہ پاکستان کی وہ تمام نسلیں جو اَسی اور نوے کے دہائیوں میں پیداہوئیں ان کی آبیاری انہوں نے کی۔اس دور میں پاکستان کا شایدہی کوئی نوجوان ہوگاجس نے جناب مظہر کلیم کا کوئی ناول نہ پڑھاہو۔اسی مصنف کی وجہ سے یوسف برادرز کا نام بنااور پوری دنیا سے ان کے لئے محبت بھر ے خطوط آتے تھے ۔بلاشبہ انہوں نے عمران سیریزکی اس سلطنت پر بھرپور انداز میں حکومت کی ۔

مگر جیسے ہر عروج کو زوال ہے ویسے ڈھلتی عمر کے ساتھ رفتہ رفتہ جب عمران سیریزبے تحاشہ لکھی جانے لگی تو مظہر کلیم صاحب آہستہ آہستہ تنقید کی زد میں آتے گئے ۔یہ آج سے چند سال پہلے کی بات ہے جب نیانیاسوشل میڈیاآیاتھااور پورے انٹرنیٹ پرصرف ابن صفی اور مظہر کلیم کے نام سے سائٹس بنناشروع ہوئیں تو ان دونوں مصنفین کے ساتھ ساتھ ان مصنفین کی تحریریں بھی انٹرنیٹ پر آگئیں جن کا اب کوئی وجود باقی نہیں رہا۔تمام ناولزانٹرنیٹ پر پی ڈی ایف کی صورت میں آنا شروع ہوگئے اور پھر اسی دور میں ایک نئے مصنف نے سرابھارہ جسے لوگ ظہیر احمد کے نام سے جانتے ہیں ۔مظہر کلیم بیمار ہوتے گئے اور ظہیراحمد کا نام بنتاچلاگیا۔بلکہ اگر یہ کہیں کہ ادارے نے مظہرکلیم صاحب کی شہرت کافائدہ اٹھاکر ظہیر احمد کانام بناناشروع کیاتو یہ غلط نہ ہوگا۔

پھر اسی بیماری کے دوران ظہیر احمد نے "گولڈن کرسٹل "جیسا ناول لکھ کر سب کے دل جیتے تو وہیں آہستہ آہستہ ان کے پاس ان کے اپنے ناولزکے لئے پلاٹ ہی ختم ہوتے گئے تو انہوں نے مظہرکلیم صاحب کے گزشتہ ناولز کی چربہ سازی شروع کردی ۔یہی نہیں بلکہ مظہر کلیم صاحب کی بیمارکی وجہ سے ادارے نے اس ڈر سے کہ مظہر کلیم صاحب رخصت ہی نہ ہوجائیں انہوں نے ان کے حصے کے ناولز بھی ظہیراحمد صاحب سے لکھواناشروع کردیئے ۔جب وہ چیزپکڑائی میں آئی تو ادراے نے حرص اور لالچ میں آکر مظہر صاحب کے اپنے ہی ناولوں کی خود ہی مٹی پلید کرناایسے شروع کردی کہ ان کے اپنے ہی ناولوں کو نئے ناموں اور نئے کرداروں کے ساتھ ایک بارپھر سے شائع کرناشروع کردیا۔اس پر ستم ظریفی یہ کہ مظہر صاحب نے بھی سب کچھ دیکھنے کے باوجود اپنی آنکھ بند کر لی اورادارے کو ان کے ناولوں کی چوری سے نہیں روکاسو وہ بھی اس جر م میں "برادر اِن کرائم "ٹھہرے۔سو چربہ سازی سے شروع ہونے والا یہ سفر اپنی بدترین مثال بن کر رہ گیااور آج کل زوال کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔

میری تحریر کے دامن میں اتنی جگہ نہیں کہ میں تمام ناولوں کی فہر ست فراہم کروں البتہ چند ایک ضروری نام لے دیتاہوں جو گزشتہ دو برسوں سے کاپی ہوکر آرہے ہیں تاکہ سند رہے ۔ان کا حال ہی میں آنے والا ناول" سپریم فورس" ان کے گزشتہ ناول" رائل فورس" کی کاپی ہے۔ان کا اور ناول اساڈم جو" بلیک ایجنٹس" اور" راڈکس "کو ملاکر لکھا گیانیٹ پر پی ڈی ایف میں آتے ہی پکڑا گیا۔شاید ادارے والے اب بھی اُسی نوے کی دہائی میں رہ رہے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی نہیں پکڑسکتا۔انہیں یہ بات اپنے ذہن کے آخری گوشے میں بٹھالینی چاہیے کہ ایک ناول کی کاپی کر نا تو ایک طرف جب وہ کوئی پلاٹ بھی چوری کریں گے تو بھی وہ پکڑائی میں آجائے گا۔چاہیے و ہ جتنے مرضی کرداروں کے نام اور مقامات تبدیل کرلیں ۔اس کے بعد ان کا ایک اور حال ہی میں مارکیٹ میں آنے والا ناول "بلیک کراؤن" ان کے ہی سابقہ ناول" سلور ہنڈز" کاچربہ ہے۔

اس کے بعد حاضرخدمت ہے جناب مظہر کلیم کے شاگرد ظہیر احمد کاناول" بلائنڈ سنیکس" جو چربہ سازی کی بدترین مثال ہے۔اسے مشہورناول" بلڈہاؤنڈز" کابیڑہ غرق کرکے لکھاگیا۔ان کی مشہور ومعروف ڈائمنڈ سیریز بھی مظہر صاحب کے ایک ناول کاپچانوے فیصد چربہ ہے جس میں میجر پرمود کااضافہ کر کے ناول کو نئی شکل دی گئی۔مجھے ظہیر احمد صاحب سے بہت امیدتھی کہ عمران سیریزکا دامن وسیع ہونے جارہاہے اور یقیناوہ کامیابی کے جھنڈے گاڑھیں گے۔مگر ادھر بہتی گنگاکاحال ہی نرالہ ہے۔

انہوں نے جلد شہرت حاصل کرنے کے چکروں میں یہ سب کچھ شروع کردیا۔ہر ماہ اپنے دوناولز اور اپنے استاد کاایک ناول لکھنے میں ان کے پاس پلاٹ ہی ختم ہوگئے تو انہوں نے انڈین مویزکوکاپی کرناشروع کردیا۔جب میں اپنے دوستوں کی محفلوں میں بیٹھتاہوں تو وہاں ظہیراحمد صاحب کا وہ مذاق اڑایاجاتاہے کہ نہ پوچھیں ۔میں انہیں یہی کہتاہوں کہ "گولڈن کرسٹل "کے بعد مجھے ان سے بڑی امید ہے کہ عمران سیریز میں اپنا نام روشن کریں گے مگر کہاں کریں گے انہوں نے میرے سامنے کئی انڈین مویزکے نام لے دیئے جن سے ہوبہو انہوں نے کاپی کیاہواتھا۔ان کا ایک کردار" بلیک جیک" مشہورانڈین فلم" مسٹر انڈیا" کے مرکزی کرادر کی کاپی ہے۔اس کے بعد جب ان کی واپسی Terminatorکے روپ میں ہوئی تو یعنی حد ہی ہوگئی۔ پہلے میں صفدر شاہین صاحب کے ناولوں کو پڑھ کر دیواروں میں ٹکریں مارتاتھاپھر جب بلیک جیک کی واپسی ہوئی تو میرا اردہ ہواکہ خودکشی ہی کرلوں ۔ان کا ناول" پاور پلے "مشہور بھارتی اداکارعمران ہاشمی کی فلم "جنت" کاچربہ ہے۔میرے دوستوں نے مجھے کہا کہ مظہر کلیم صاحب توزیادہ چالاک تھے چار پانچ انگریزی فلموں کو ملاکر ایک ناول تخلیق کرتے تھے جبکہ ان کا شاگر د تو ایک ہی فلم کو اٹھاکر اس کی چربہ سازی کر نے کی کمال مہارت رکھتاہے۔

بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ مظہرصاحب نے جس اسلوب کو اپنایاتھااس کے دامن سے یہی نتیجہ ہی نکلناتھاجو ظہیر احمد کی صورت میں ہم نے دیکھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کبھی جاسوسی ناول تھے ہی نہیں جنہیں جاسوسی بناکر شائع کیاگیا۔جاسوسی ادب کا باب صفی صاحب اور محترم اشتیاق صاحب کے بعد ان کے ساتھ ہی دفن ہوگیا۔کیونکہ جاسوسی ناولز ہمیشہ ون سائیڈ سٹوری ہوتے ہیں مگر مظہرکلیم صاحب نے ٹو وے اسٹوریرزلکھ کر اس کاسارا چارم ہی ختم کردیا۔جب مظہر صاحب اپنے ناول کا تمام پلاٹ ہی ابتدائی ابواب میں کھول دیں تو پھر کہاں کی مسڑی اور کہاں کا جاسوسی ناول ؟۔ان کے چھ سو ناولز میں سے اگر چار سو سے زائد محض لیبارٹری پر ہیں جس میں یاتو عمران اور اس کے ساتھیوں کو اس کی لوکیشن ٹریس کرنی ہوتی ہے یاپھر ناقابل تسخیر لیبارٹری کو تسخیرکس طرح کرناہے یہ بیان کیاجاتاہے تو جب ہر ناول کی کہانی صرف اسی کے گرد گھومے گی تو پھر کہاں گئی جاسوسی ؟ہردفعہ ایک نئے انداز میں کہانی کو پیش کیا گیاجو اپنی مثال آپ تھا۔اس کے بعد صرف نئے واقعات اور نئی سچوئیشن کے ساتھ اسی لیبارٹری کے قصے کومزیدایکشن اور فائٹ کا تڑکالگا رگڑالگایاگیا جو گزشتہ کئی ناولز سے چلاآرہاہوتاہے ۔اسی وجہ سے عمران سیریز کا دامن رفتہ رفتہ ناصر ف محدود ہوگیاہے بلکہ اب اس پر مزید لکھنے کی گنجائش ہی نہیں رہی ۔تبھی ظہیر احمد صاحب کے پاس اور ان کے ادارے ارسلان پبلی کیشنزکے پاس اب پلاٹ ہی سرے سے ختم ہوگئے ہیں ۔توپھر وہ چربہ سازی نہ کریں تو اور کیا کریں ؟ ابن صفی صاحب کی سب سے خاص بات ان کے ڈھائی سو ناولز میں آج تک کبھی کوئی پلاٹ دہرایانہیں گیا۔اسی لئے ان کا چارم آج تک برقرار ہے اور وہی جاسوسی ناولز کے برصغیر میں بانی کہلائے جانے کے اصل حقدارہیں۔

ٹائیگر جیساعظیم کردار جس کا سیکرٹ سروس سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں وہ سیکر ٹ سروس سے بھی ہمیشہ دو قدم آگے ہوتاہے ۔اس پر کئی دفعہ حیرت بھی ہوتی ہے مگر وہ اس خوبصورت انداز میں بیان کیاجاتاہے کہ عمران سمیت ہر کوئی ٹائیگر کو سلیوٹ کر نے پر مجبور ہوجاتاہے۔ لیکن یہ کمال صرف مظہر کلیم صاحب کے پاس تھااور ان کے ساتھ ہی وہ زوال کا شکارہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مظہر کلیم صاحب کاانداز بیان خوب ہے مگر انہوں نے اپنی جوانی کا بیشتر حصہ کسی اور کے ہی کرداروں پر طبائع آزمائی کرکے اپنے دامن سے کچھ تخلیق نہیں کیا ۔جاسوسی ناولوں کی جان اس کاولن ہوتاہے مگر افسوس کے ساتھ یہ بات کرنی پڑتی ہے کہ مظہرکلیم صاحب کے ناولوں میں کوئی ایساولن نہیں جس کاعمران اور اسکے ساتھیوں جیساقدکاٹھ اور کشش ہو۔لے دے کر کرنل ڈیوڈ اور شاگل کے ہی نام ذہنوں میں آتے ہیں جو احمقوں کے سردار ہیں وہی ہردوسرے اسرائیل اور کافرستان کے مشنز میں ہمیں نظر آتے ہیں ۔بدقسمتی سے اس نوجوان نسل کوتو ولن کاوہ ذائقہ ہی نہیں معلوم جو صفی صاحب کے یہاں ملتاہے۔ بوغا،علامہ دہشت ناک ،سنگ ہی اور تھریسیاجیسے عظیم اور لافانی کردار ہمیں کبھی نہیں بھولیں گے ۔

اس کے بعد انہی دنوں میں مظہر کلیم صاحب کا انٹرویہ ایکسپریس کی زینت بنا۔جس پر بے انتہاتنقید ہوئی اس کے جواب میں اپنے محترم ابن ریاض صاحب نے "دشمنی کے معیار"کے نام سے اس تنقید کا جواب لکھا۔جو بعدازاں ایکسپریس میں "مظہرکلیم ایم اے زندہ ہیں ان کی قدرکریں"کے عنوان سے شائع ہوا۔میں ابن ریاض صاحب کی تحریروں کے خاک کے برابر بھی کبھی کچھ تحریر نہیں کرسکتاکیونکہ میں نے ہمیشہ انہیں اپنابڑامانااور اسی وجہ سے ان سے میرا ادب کا رشتہ ہے ۔ لیکن اسی ادب کے دائرے میں رہ کر میں ان سے اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا۔ان کی بہت سی باتوں سے میں متفق ہوں مگر ان کی تحریر سے اختلاف بھی ہواتو میں خاموش رہالیکن جب چربہ سازی اس حد تک پہنچ گئی کہ قارئین نے باقاعدہ شکایات شروع کردیں تو اب میں اپنی خاموشی توڑ رہاہوں ۔انہوں نے لکھاکہ مظہرکلیم صاحب پر تنقید کا حق صرف ظہیر احمد یا ان جیسے رائٹر ز کے پاس اور کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ ان پر تنقید کریں تو میں اتنہائی احترام کے ساتھ یہ عرص کرناچاہوں گاکہ یہ قارئین ہی ہوتے ہیں جو ایک رائٹر کو فرش سے اٹھاکر انہیں سر کا تاج بناتے ہیں ،اس سے قبل رائٹر کچھ بھی نہیں ہوتا۔پھر اگر انہیں کوئی بات بری لگے تو اس پر احتجاج کرنابھی انہی قارئین کا حق ہے ۔سو انہوں نے اپنااحتجاج ریکارڈ کروایا۔

آج میں اپنی اسی چھوٹی سی تحریر سے ان پر تنقید کررہاہوں تو یہ میراحق ہے کیونکہ میں نے ان کی کتابیں خریدی ہیں ان پر پیسے لگائے ہیں انہیں اپنی زندگی کاسرمایہ اور وقت دیاہے بالکل میری طرح بہت سے قارئین نے یہ سب کچھ کیا۔سو یہ حق کوئی ان سے نہیں چھین سکتایہ سب کا بنیادی آزادی رائے کاحق ہے۔ سو وہ استعمال کررہے ہیں ۔

عمران سیریز کے ضمن میں بہت کچھ لکھاجاسکتاہے اس کی چربہ سازی کی داستانیں بہت طویل ہیں ۔مگر ابھی کے لئے بس اتناہی میرامقصد کسی کی دل آزای نہیں تھامگر جب اپنی محبوب ترین سیریزکو زوال کا شکار دیکھاتو بہت دکھ اور افسوس ہوا۔خدا سے دعاہے کہ عمران سیریزکو ایک اور صفی مل جائے تاکہ اس کے ندر جاسوسی ادب ایک بار پھر سے لوٹ سکے ۔جو مجھے بظاہر مظہرکلیم صاحب کے دامن سے پھوٹنے والے ان کے شاگردوں سے تو نظرنہیں آتا۔
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61294 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More