کیا واقعی لومڑی زیادہ عقلمند تھی
(munawar ahmed khurshid, London)
مولانا سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معروف
زمانہ اورمعرکۃ الآراء تصنیف میں ایک حکایت بیان فرمائی ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل میں ایک شیر شکار کے لئے جارہا تھا۔ سرراہ اس
کی ملاقات ایک بھیڑیے سے ہوگئی۔شیر نے اس سے پوچھا بھئی کدھر جارہے ہو۔اس
نے جواب دیا ،روزی کی تلا ش میں نکلا ہوں ۔شیر نے کہا چلو پھر اکٹھے چلتے
ہیں۔دونوں دوست اپنی نادیدہ منزل کو روانہ ہوگئے۔راستہ میں ان کی ملاقات
ایک لومڑی سے ہو گئی ۔اتفاق سے وہ بھی شکار کی غرض سے جارہی تھی۔وہ بھی ان
کے ساتھ شامل ہو گئی۔تینوں نے فیصلہ کیا۔اب ہم شکار کے لئے الگ الگ روانہ
ہوجاتے ہیں۔لیکن شکار کرنے کے بعد اپنے کئے ہوئے شکار کے ساتھ ہم فلاں مقام
پر اکٹھے ہو جائیں گے۔کچھ دیر کے بعد تینوں جانور اپنے اپنے حاصل شدہ شکار
کے ساتھ واپس مقررہ مقام پر پہنچ گئے۔شیر نے ایک نیل گائے ، ،بھیڑے نے ایک
ہرن اور لومڑی نے ایک خرگوش کا شکار کیا ۔انہوں نے سارا شکار ایک جگہ ڈھیر
کردیا۔
شیر نے بھیڑے سے کہا۔تم اس شکار کی تقسیم کردو۔بھیڑے نے کہا ۔بادشاہ سلامت
آپ بڑے ہیں ۔فیصلہ آپ کا ہونا چاہیے۔شیر نے اصرار کیا۔اس پر بھیڑے نے
کہا۔میرے خیال میں آپ گائے لے لیں۔میں ہرن لے لیتا ہوں۔ ا خرگوش لومڑی کو
دے دیتے ہیں۔شیر نے کہا دیکھو میں جنگل کا بادشاہ ہوں۔بھیڑے نے کہا۔جناب ہر
کسی کو اس کا کیا ہوا شکار مل گیا ہے۔اب کسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا
چاہیے۔
شیر کو بھیڑیے کے اس گستاخانہ کلام پر سخت غصہ آیا ۔اس نے اسے ایک زور دار
تھپڑ رسید کردیا۔جس پر بھیڑیا بیچارہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔اس کے بعد شیر نے
لومڑی سے سوال کیا۔ہاں تم بتاؤ کہ یہ تقسیم کیسی ہونی چاہیے۔لومڑی نے عرض
کی۔قبلہ آپ ہمارے بادشاہ ہیں۔ہماری جان آپ پر قربان ہو۔سب کچھ آپ کا ہی
ہے۔خدا آپ کو سدا سلامت رکھے۔ میری ناقص رائے میں آپ گائے کا لنچ کرلیں،
ہرن کا عشائیہ ہوجائے اور صبح ناشتہ میں خرگوش نوش فرمالیں۔
جنگل کا بادشاہ ،لومڑی کے جواب پر بہت خوش ہوا۔اسے شاباش سے دی۔پھر حیرانگی
سےاسے پوچھا کہ یہ پُرمغز اور حکیمانہ سبق تمہیں کس نے سکھایا ہے۔لومڑی نے
دست بستہ عرض کی حضور والا میں نے یہ درس بھیڑے کے انجام سے سیکھا ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے۔ کہ اس بھیڑے کی موت کے بعد بھی بھیڑیوں نے سبق
حاصل نہیں کیا اور بڑے شوق کے ساتھ شیروں کے ساتھ شکار پر روانہ ہوتے ہیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے۔دوسروں پر ظلم وستم کرنے والے شیر بھی ایک دن ایڑیاں
رگڑ رگڑ کر اس دنیا سے بے بسی کی حالت میں چل بستے ہیں۔
ہم لوگ اپنی روزمرہ زندگی ی اس قسم کی کہانیاں پڑھتے سنتے اور اپنے ماحول
میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ بساواقات خود اس ڈرامہ کے کردار بنتے ہیں۔ بار بار
مرتے ہیں۔لیکن لومڑی کی طرح سبق حاصل نہیں کرتے۔
جب سے ہمارا پیارا وطن معرض وجود میں آیا ہے۔تاریخ شاہد کہ کس کس نے مظلوم
اور بےبس عوام کا خون جونکوں کی طرح چوسا، بڑے بڑے فلک بوس محلات تعمیر
کئے،سونے چاندی اور لعل و جواہر سے انہیں مزین کیا۔لیکن وہی عالیشان محلات
ان کی بے بسی ،بے چینی اور لاچاری کی قبریں ثابت ہوئیں۔ان سب کا دردناک
انجام تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہوچکا ہے۔لیکن کون ہیں ہے جو لومڑی کی طرح
سبق حاصل کرتے ہیں۔
فاعتبروا یا اولی الابصار |
|