چولستان جیپ ریلی!

گیارہیوں چولستان جیپ ریلی اختتام کو پہنچی، ہفتہ بھر کی اڑائی ہوئی گرد بیٹھنے لگی، قلعہ ڈیراور کے قرب وجوار میں رہنے والے روہیلے اپنے گھروں کو واپس آنے لگے۔ حیرت کی کوئی نہیں، چونکہ جیپ ریلی کا انعقاد قلعہ ڈیرکے پہلو میں ہوتا ہے، اس لئے قلعہ کے ارد گرد آباد لوگ اپنے اہلِ خانہ کو کسی دوسری جگہ منتقل کردینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، (سرکار کے اندازے کے مطابق ) دو لاکھ لوگ ریلی دیکھنے آئیں گے تو چند کچے پکے گھروں کے مکینوں کی گنجائش نہیں بچتی۔ دوسرا یہ کہ قلعہ ڈیروار کے ارد گرد کچھ کھاتے پیتے اور معقول رہائشی خود موجود رہتے ہیں، کیونکہ بہت سے ان کے ملنے والے ریلی دیکھنے آتے ہیں اور انہیں شرفِ میزبانی حاصل ہوتا ہے، بہت سے شائقین کا سرکاری افسران سے تعلق ہوتا ہے ، اس رش کے موقع پر سرکاری افسر بھی وہاں کے مقامی لوگوں کو ہی اپنے مہمانوں کی میزبانی کا شرف بخش دیتے ہیں، یہ مقامی لوگ ایسی میزبانی کو اس لئے بھی قبول کرتے ہیں کہ بعد ازاں ’صاحب‘ سے کوئی کام وغیرہ نکلوانے میں کسی حد تک آسانی رہ جاتی ہے۔ یہاں کے غریب رہائشیوں سے گھر خالی کروا لیا جاتا ہے، اگر وہ پیار سے مان جائیں تو اچھا ہے، کچھ خوشامد بھی کرلی جاتی ہے، اگر نہ مانیں تو سرکاری طریقے سے دباؤ بھی ڈال دیا جاتا ہے، کیونکہ یہاں ہر اختیار رکھنے والے صاحب نے اپنے مہمانوں کو ٹھہرانا ہوتا ہے۔ بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں تو شامیانوں کا شہر بساتے اور وہاں اپنی رونق لگاتے ہیں۔

ٹورازم ڈیپارٹمنٹ والوں کی یہ ریلی فروری کے درمیان سے قبل ہوتی ہے مگر اس کے انتظامات بہت پہلے شروع کردیئے جاتے ہیں۔ بے شمار اجلاس منعقد ہوتے ہیں، انتظامات کا جائزہ لیا جاتا ہے، ان کے لئے فنڈز مختص کئے جاتے ہیں، اور رات دن ایک کرکے انتظامیہ یہ ایونٹ منعقد کروانے میں کامیاب ہوتی ہے۔قوم کو بتایا جاتا ہے کہ اس سے چولستان کی تقدیر بھی بدل جائے گی، یہاں ترقی ہوگی، یہاں کے لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا، لوگوں کو روز گار بھی ملے گا اور آگے بڑھنے کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ افسران کے یہ اقوالِ دلپذیر سنتے ہوئے ایک عشرہ اور ایک برس ہوگیا، مگر چولستانیوں کی تقدیر نہیں بدلی، اس کی شاید بڑی وجہ تو یہی ہے کہ تقدیر حکمرانوں کے نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، دوسری وجہ شاید یہ ہے کہ ریلی منعقد کرنے والے وہاں کے رہائشیوں کی تقدیر بدلنا ہی نہیں چاہتے۔ اگر انسان کسی کام کی کوشش کرے تو اﷲ تعالیٰ راستہ نکال ہی دیتا ہے۔ گیارہ برس میں اس سال قلعہ کو جانے والی سڑک تعمیر کردی گئی ، (یہ سڑک اگرچہ پہلے سے موجود تھی مگر حد سے زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی)لاکھوں لوگوں کے خوردونوش کے لئے ’’فوڈ سٹریٹ‘‘ کے علاوہ بھی بہت سے ’ہوٹل‘ قائم تھے، مٹی تو دھند کی طرح ہر جگہ پر چھائی ہوئی تھی، عام ضرورت کی تقریباً تمام چیزیں موجود تھیں۔

حکومت کا یہ کروڑوں روپے کا ایونٹ ہوتا ہے، ایک ایک بات کو مدنظر رکھ کر اخراجات کئے جاتے ہیں، مگر لاکھوں لوگوں کے لئے سہولیات کا اندازہ لگایا جائے تو نہ ہونے کے برابر تھیں، قدم قدم پر ٹریفک جام تھی، صحرا میں مٹی تو اُڑنی ہوتی ہے، پانی کا بندوبست نہیں تھا۔ بیت الخلا بھی ڈھونڈے سے نہ ملتے تھے، تاہم فطرت کی گود بہت وسیع تھی۔ کچھ چوکوں پر ٹریفک پولیس تو دکھائی دی، مگر دوسری پولیس منظر سے غائب تھی۔ بدانتظامی کا شاہکار وہ منظر تھا جب ریلی کا آغاز ہوا۔ جہاں اونچے چپوترے پر مہمان وغیرہ بیٹھتے ہیں اور جہاں سے گاڑیوں نے سٹارٹ لینا ہوتا ہے، وہاں بھی عام گاڑیاں اور موٹرسائکل آزادانہ گھوم پھر رہے تھے۔ ریلی کے روٹ پر دونوں طرف قطاروں میں ہزاروں لوگ کھڑے تھے، ٹریک میں کوئی سوار ہے یا پیدل بے نیازی سے پھر رہا تھا۔ حتیٰ کہ جب ریلی کا آغاز ہوگیا تب بھی لوگوں کی ٹریک پر چہل قدمی میں کمی نہیں آئی اور ہر گاڑی کی آمد پر بھگدڑ مچتی تھی، گاڑی ہارن بجاتی تھی اور لوگ راستہ دیتے تھے، ہر کوئی اپنے موبائل اٹھائے تصویر بنانے کے لئے ٹریک کے قریب تر ہوجاتا تھا ۔ پولیس یقینا وی آئی پی پروٹوکول میں مصروف ہوگی، ٹریک پر شائقین کا قبضہ آخر تک قائم رہا، اور گاڑیاں بریکیں لگاتی ، ہارن بجاتی وہاں سے گزرتی رہیں۔ یہ ریلی بھی مکمل طور پر کامیاب رہی، اس پر کام کرنے والے محکمے مبارک باد کے مستحق ہیں، اب ان تمام لوگوں کو ایک تنخواہ اضافی ملنی چاہیئے، جنہوں نے دن رات ایک کرکے اسے کامیاب کروایا ہے، رہ گئے چولستانی ، تو وہ باقیات کی صفائی کریں اور دیکھیں کہ امراء کا طبقہ جب تفریح کے بعد واپس جاتا ہے تو کس طرح کی اور کتنی غلاظت باقی چھوڑ کے جاتا ہے؟ گیارہ برس سے چولستانی یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429443 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.