بزرگوں کے لیے اولڈ ہاؤس
(Hameeda Gul Muhammad, Karachi)
ایک بزرگ مو بائل ریپرنگ شا پ پر جا کر
کہنے لگے بیٹا میرا موبا ئل خراب ہو گیا ہے ذرا اسے ٹھیک کر دو۔ مو با ئل
شا پ والے نے مو بائل کا جائزہ لیا اور کہا بابا آپ کا موبائل بالکل ٹھیک
ہے ۔ تو بزرگ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا! بیٹا پھر میرے بچوں کی کال کیوں
نہیں آتی۔سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر اس پوسٹ کو پڑھ کر آنکھیں بھیگ گئیں۔
والدین جو بچوں کی ڈھال ہوتے ہیں ،خود گیلے میں سوتے ہیں بچوں کو سوکھے میں
سلاتے ہیں،خود بھوکے رہ کر بھی اپنے بچوں کوکھلاتے ہیں،اپنی خواہشات
وتمناؤں کا گلا گھو نٹ کراپنے بچوں کی ہر خواہش اورآرزوپوری کرتے ہیں ،اپنے
بچوں کی تعلیم و تربیت پر اپنی زندگی نچھاور کر دیتے ہیں مگر وہی اولاد
بدلے میں والدین کو جلی کٹی سناتی ہے ،ان کے حکم کی تعمیل نہیں کرتی،ان سے
او نچی آواز میں بات کرتی ہے،بدتمیزی و زبان درازی کرتی ہے جبکہ ارشاد ہے
کہ :والدین جب بڑھاپے کی حالت میں پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہو۔اور
ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اپنے والدین،اپنے گھر کی رونق کو گھر کا پرانہ سامان
سمجھ کر اولڈ ہاؤس چھوڑ آتے ہیں جبکہ یہ طرز عمل مغرب کا ہے جسے ہم نے جدید
فیشن سمجھ کر اپنا لیا ہے والدین کو اولڈ ہاؤس چھوڑکر آنا ہماری روایت بن
چکا ہے۔
مدر ڈے اور فادر ڈے کے موقع پر اولڈ ہاؤس میں مو جود والدین اس آ س میں
رہتے ہیں کہ کاش ان کے بچے ان سے ملنے آئے اور ان کو لے جا ئے مگر وہ ا پنی
زندگی کے آخر ی ایا م اسی آس میں گزار کر لحد میں اتار دئے جاتے ہیں۔خدارا
ان بچوں سے گزارش ہے کہ جو اپنے والدین کو اولڈ ہاؤس چھوڑآئے ہیں ان کو
واپس لے آئے کیو ں کہ والدین ہی سرمایہ حیات ہیں۔ |
|