فحاشی کے خاتمے کے لئے اچھی مثال

چند سال پہلے کی بات ہے جب تبلیغی جماعت کے مفتی زین العابدین رحمہ اﷲ نے فیصل آباد میں فحاشی کے اڈوں کے خلاف تقاریر اور شعلے برسانے کے بجائے عجیب فیصلہ کیا، اس واقع کی تفصیل جناب مصطفی صادق صاحب کی زبانی ملاحظہ فرمائیں، وہ لکھتے ہیں:
آج کل وقتا فوقتا اجتماعی شادیوں کا ذکر پڑھنے اور سننے میں آتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہو گا کہ اجتماعی شادیوں کی ایک تاریخی روایت جو ہر لحاظ سے مثالی نوعیت کی روایت قراردی جاسکتی ہے مفتی زین العابدین صاحب رحمہ اﷲ نے قائم کی تھی۔

اجتماعی شادیوں کا یہ واقعہ عملا رونما نہ ہو چکا ہوتا تو شاید اس پر یقین کرنا چنداں آسان نہ ہوتا۔ لیکن اسے قدرت کا کرشمہ کہئے یا حضرت مفتی صاحب کی کرامت اور ان کے مخلص دوستوں اور متعلقہ سرکاری حکام کی معاونت کا اعجاز قرار دیجئے کہ فیصل آباد کے چنیوٹ بازار کے باسیوں میں ایسی42 خواتین بھی تھیں جو مسلمان معاشرے پر سیاہ دھبوں کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ان خواتین کی کونسی مجبوریاں تھیں جو انہیں اس بازار میں لانے پر مجبور کر چکی تھیں۔ اس کا دانشورانہ تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی صاحب نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو تبلیغی مشن کا حصہ بناتے ہوئے اس مہم پر صَرف کرنے کا فیصلہ کیا کہ ان خواتین کے لئے مسلمان معاشرے کی شایانِ شان زندگی گذارنے کے مواقع فراہم کئے جاسکیں۔

چنانچہ اپنے دو اہم معاونین مولانا عبدالرحیم اشرف اور خان شیریں گل کے ساتھ شبانہ روز مشوروں کے بعد اس وقت کے پولیس حکام کو اعتماد میں لیا گیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان خواتین کو چنیوٹ بازار سے نقل مکانی کے لئے آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ پیپلز کالونی میں اعلیٰ پائے کے چند مکانات کا انتظام بھی کر لیا گیا۔ مرحلہ وار پروگرام کے مطابق جب تمام خواتین پیپلز کالونی میں اعلیٰ پائے کے چند مکانات میں قیام پذیر ہوگئیں تو حضرت مفتی صاحب کے تعاون سے بعض شرفا نے خاموشی کے ساتھ ان خواتین کے گھر بسانے کے مناسب انتظامات کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ جب ان خواتین کو ایک وسیع ہال میں جمع کیا گیا ، مفتی صاحب نے اپنی اہلیہ سمیت بعض دوسرے دوستوں کی بیگمات کو بھی ان خواتین کے ساتھ میل جول کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا اور انہیں مناسب مشورے بھی دیئے۔ اس کے بعد وہ اہم ترین مرحلہ آتا ہے جو عملی طور پر مفتی صاحب زندگی بھر تبلیغ وارشاد اور توبہ واستغفار کے لئے جانے کہاں کہاں کیا کیا معرکے سر انجام دیتے ہوں گے لیکن آج کے اس معرکے کا اپنا ہی ایک مقام تھا۔ کوئی دوسرا نہیں خود حضرت مفتی صاحب کی اہلیہ محترمہ کی روایت اس ناچیز تک پہنچی ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے توبہ واستغفار کیموضوع پر جو کچھ بھی فرمایا اس کے اثرات ایسے انمٹ اور نمایاں تھے کہ بس آنسووں کی لڑی تھی جس نے ہر آنکھ کو اشکبار کر رکھا تھا۔داستان بہت طویل ہے، خلاصہ یہ کہ ایک ایک خاتون کی رخصتی کا اہتمام کیا گیا،نکاح اور رخصتی میں دلچسپی لینے والے شرفا نے انہیں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی طرح رخصت کیا سوائے ایک خاتون کے سب کے نکاح ہوئے۔

بلاشبہ یہ ایک مثالی واقعہ ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اسی طرح ایسی عورتوں کو عزت کا مقام دے کر ان کی شادیاں کرائی جائیں۔مفتی صاحب کی یہی خصوصیات ان کے شاگرد مولانا طارق جمیل صاحب میں بھی ہیں چنانچہ اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے کئی معاشرے گندے طبقے کے لوگوں پر محنت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی ایسی خواتین، ہیجڑے اور ایکٹر راہ راست پر آگئے۔

جیسا کہ میں نے گذشتہ مضمون میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ اصل بات یہ ہے کہ خواتین کی تعداد ہر زمانے میں مردوں سے زیادہ رہتی ہے، اسی وجہ سے اﷲ نے مردوں کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت بھی دی ہے، اگر تعداد برابر ہوتی تو شاید یہ اجازت نہ ہوتی۔ لیکن ہم نے دوسری شادی، بیوہ کی شادی، رنڈے کی شادی کو گناہ کا کام سمجھنا شروع کردیا ہے جس کا نتیجہ زنا،معاشرتی بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔آئیے ذرا اس جھلک کو دیکھیں کہ دورِ صحابہ میں نکاح کیسے ہوتے تھے، اور اس وقت زیادہ شادیاں کرنے کی وجہ سے عورت کتنی قیمتی ہوتی تھی اس کی ویلیو کتنی زیادہ تھی چندواقعات ملاحظہ کریں۔

حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو آپ کے شوہر نے طلاق دی تو حضرت معاویہ اور ابوالجہم رضی اﷲ عنہما نے نکاح کا پیغام بھیجا، ایک طلاق یافتہ عورت کی طرف حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ جیسے قریشی سردار ابن سردار اور حضرت ابوالجہم بیک وقت دوشخصیات نکاح کا پیغام بھیج رہی ہیں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو علم ہوا تو اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت قیس کے اولیا سے فرمایا کہ ‘‘اما معاویہ فصعلوک’’ یعنی معاویہ انتہائی فقیر ومسکین ہیں ، لہٰذا ان سے اپنی بچی کا نکاح نہ کرو اور ‘‘اما ابوالجہم’’ رہے ابوالجہم ‘‘فلا یضع عصاہ عن عاتکہ’’ تو وہ ایسی سخت طبیعت کے ہیں کہ ان کی لاٹھی ان کے کندے سے کبھی نہیں اترتی، لہٰذا ان دونوں کو چھوڑ کر اسامہ بن زید سے نکاح کرو۔دیکھیں کیسا معاشرہ تھا کہ بیوہ کے لئے اتنے بڑے بڑے رشتے آرہے ہیں کہ نبی صلی اﷲ کو مداخلت کرکے فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب تعدد ازواج کی برکات تھیں۔

اسما بنت عمیس جو اپنے جوان شوہر جعفر طیار رضی اﷲ عنہ کے غزوہ موتہ میں شہیدہونے کے بعد بیوہ ہو گئیں ان کے بارے میں روایات میں ہے:کہ ابھی عدت گزری ہی تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا جسے حضرت اسما نے قبول کرلیا حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ نے آپ سے نکاح فرمایا اور پھر ولیمہ کیا۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے بھی آپ سے نکاح کی خواہش ظاہر کی مگر حضرت اسما بنت عمیس نے یوں کہہ کر انکار کردیا : اے ابوالحسن آپ رہنے دیں کیونکہ آپ ایک ایسے شخص ہیں کہ جن کی طبیعت میں سنجیدگی نہیں۔دیکھیں اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اگر یہ سوچتے کہ میں تو پہلے ہی دو شادیاں کر چکا ہوں مزید ایک اور شادی سے کہیں پہلی دو کا ثواب بھی کم نہ ہو جائے یا خواہ مخواہ میں مجھے خود پر اتنے سارے بال بچوں کی فکر مسلط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بیویوں میں عدل نہ ہوسکا تو قیامت میں اﷲ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا لہٰذا اطمینان قلب کے ساتھ دین ودنیا کے کاموں میں ہمہ تن مشغول رہنا چاہیے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد اسما بنت قیس کی طرف حضرت علی نے دوبارہ پیغام نکاح بھیجا جو انہوں نے قبول کرلیا۔

صحابہ کرام کے واقعات میں آپ کو ایسا بکثرت ملے گا کہ ایک ایک عورت چار چار مرتبہ بیوہ ہوئی اور کبھی بھی اس کو شادی میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا نہ تو وظیفے پڑھے اور نہ ہی بزرگوں سے دعائیں کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ام کلثوم رضی اﷲ عنہا کی طرف پیغام نکاح بھیجا، انہوں نے یہ کہہ کر پیغام مسترد کردیا کہ مجھے ان سے نکاح میں کوئی رغبت نہیں۔

امیرالمومنین نے ایک پیغام ام ابان بنت عتبہ بن شیبہ کی طرف بھیجا ام ابان رضی اﷲ عنہ نے بھی یہ کہہ کر انکار کردیاکہ سخت طبیعت کے ہیں۔یہ سارے انکار اس لئے ہو رہے تھے کہ ان کو یقین تھا کہ ہمیں اپنی مرضی کا رشتہ مل جائے گا۔

عربوں اور افغانوں کے وہ قبائل اور وہ ممالک جہاں تعددازدواج کا رواج ہے ہمارے معاشرے کے برعکس کوئی مرد جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین روزگار کا حامل ہو اپنی پھوپھی زاد ، چچازاد یا ماموزاد بہنوں سے نکاح کی کوشش کرت ہے اور یوں واہاں تعلیم سے عاری اور غریب خواتین کے والدین بھی اپنے خاندان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار مردوں کو چھوڑ کر خاندان سے باہر رشتے تلاش کرنے اور خاک چھاننے پر مجبور نہیں ہوتے۔

ہمارے معاشرے میں عورت پر ظلم ہوتا ہے ، افغانوں کے ہاں ہمارے بالکل برعکس مرد کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکی کے والدین اپنے داماد کی اچھی خاصی کھال کھینچ لیتے ہیں ، مہر کی رقم کے علاوہ لڑکی کا باپ داماد سے اپنی جیب بھرنے کے لئے بھی اچھی خاصی رقم وصول کرتا ہے اور کئی کئی لاکھ روپے وصول کرکے اپنی بچی کے نکاح پر آمادہ ہوتا ہے، یہ رسم بلاشبہ ناجائز اور حرام ہے اور شریعت اس کی حوصلہ افزائی ہر گز نہیں کرتی مگر ان باتوں کے باوجود اس سے اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں نکاح کے حق میں عورت کی کیا قدروقیمت ہے۔ہمارے معاشرے کی بے حسی دیکھیں کہ لڑکا شادی کی پہلی رات بھی عورت کے بستر پر گزارتا ہے اور بالکل شرم محسوس نہیں کرتا، ساری زندگی عورت کے برتن اور فرنیچر استعمال کرتا ہے۔
نکاح یا سوداگری! حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ نکاح میں چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں:۱۔خاندان، ۲۔دین، ۳۔حسن، ۴۔مال اور پھر فرمایا تم دین کو ترجیح دو۔اور حدیث کا مفہوم ہے کہ سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں اخراجات کم سے کم ہوں۔چنانچہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ان تعلیمات کی روشنی میں صحابہ کرام نے رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے اپنے نکاحوں کو انتہائی سادہ بنا دیا، جس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے ان کے نکاحوں میں برکت رکھ دی۔لیکن آج ہم نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ اور صحابہ کرام کی سنت سے اعراض کیا جس کی وجہ سے ساری برکتیں سلب ہوگئیں۔ آج شادیاں ہوتی ہیں جن کے لئے لوگ ساری ساری زندگی کماتے ہیں اور پھر شادی کے دو دنوں میں پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں۔مقابلہ بازی ہوتی ہے کہ فلاں نے اپنی شادی میں اتنا پیسہ ناچنے والوں پر خرچ کیا تھا ہم اتنا خرچ کریں گے۔

ایک بار حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پر سرخی دیکھی تو فرمایا یہ کیا ہے؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا حضور میں نے نکاح کیا ہے، اﷲ اکبر ایک چھوٹی سے بستی میں بسنے والوں کو بھی خبر ہی نہ ہوئی کہ اس بستی کا سب سے امیر ترین انسان نکاح کرتا ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔جس دور میں ہم جی رہے ہیں آج نکاح بہت کم ہوتے ہیں ، یا مقابلہ بازی ہوتی ہے، یا ریاکاری ہوتی ہے، یا سوداگری ہوتی ہے۔

شاید آپ کو یہ لفظ بہت عجیب لگے کہ نکاح کے بجائے سوداگری کا کیا مطلب ہے؟

جی جناب آج کے دور میں بہت سارے لوگ سوداگری بھی کرتے ہیں۔ یعنی بولی لگاتے ہیں اتنی اتنی رقم دو گے تو نکاح ہوگا۔

ظاہر بات ہے جب اس طرح دونوں طرف سے جب سودا کیا جاتا ہے تو پھر وہ محبت اور پیار کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتا جو ایثار کے جذبے سے اﷲ تعالیٰ پیدا فرمادیتے ہیں۔ چنانچہ میاں بیوی دونوں اپنے اپنے ہتھیار استعمال کرنے کی ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں اگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں نکاح میں کم سے کم خرچ کیا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ ایثار والا معاملہ کیا جائے تو اﷲ تعالیٰ میاں بیوی کے دل میں اس ایثار کی وجہ سے محبت اور الفت پیدا فرماتے ہیں اور اس طرح ان کی ساری زندگی اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ایثار کرتے ہوئے گزرتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں دوسری بڑی خرابی رشتے کے انتخاب میں غلط ترجیحات ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو ترجیح بتائی وہ "دین " ہے ، یعنی لوگوں کی مختلف ترجیحات ہوتی ہیں بعض حسن کوترجیح دیتے ہیں اور بعض خاندان کو، بعض مال کو اور بعض دین ، ان میں سب اعلیٰ چیز جسے ترجیح دینی چاہئے اور ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھنا چاہئے وہ دین ہے۔ ہر انسان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں اس کا خیال بھی رکھا جا سکتا ہے لیکن دین کے بعد یعنی پہلی ترجیح دین ہونا چاہئے اس کے بعد باقی تین چیزوں میں جیسے مناسب ہو کر لیا جائے ، مثلا
۱۔ دین۲۔خاندان ۳۔مال ۴۔حسن
۱ٍ۔دین ۲۔مال ۳۔حسن ۴۔خاندان
۱۔دین ۲۔حسن ۳۔خاندان ۴۔مال
۱۔دین ۲۔خاندان ۳۔حسن ۴۔مال

ایک صاحب کہنے لگے یہ بچے میری پہلی بیوی سے ہیں جن کو میں نے طلاق دے دی تھی ، جب ان سے پوچھا کیوں طلاق دی ؟ کہنے لگے بدزبان تھی، اس پوچھا اب اس کا نکاح ہوگیا؟ کہنے لگے تھوکے ہوئے مال کو کون چاٹتا ہے۔۔۔۔؟؟؟؟؟ (استغفراﷲ)

ان صاحب نے جیسی بھی بات کی بہرحال ہمارے معاشرے کی صحیح تصویر کشی کی ہے۔اس کے مقابلہ میں صحابہ کے زمانے میں جو کچھ ہوتا تھا اسے دیکھ کر اﷲ تعالیٰ کو قرآن میں کہنا پڑا کہ اﷲ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم بیوگان کے نکاح میں غیر معمولی رغبت کے باعث انہیں عدت گزرنے سے قبل بھی نکاح کے سلسلے میں کسی نہ کسی طرح ضرور یاد کرو گے، لہٰذا اس رغبت وشوق کی رعایت کی خاطر تمہیں اشارہ اور گول مول طریقے سے عدت سے قبل بھی پیغام نکاح بھیجنے کی اجازت ہے۔

یاد رکھیے! کل آپ کی بیٹیوں میں سے بھی کسی کو طلاق ہو سکتی ہے، اگر آپ اپنے قول وعمل سے اپنی بیوی پر اضافی ترس کا ثواب حاصل کرنے کی خاطر اپنے خاندان کا جمود توڑنے کو تیار نہیں تو ممکن ہے کہ آپ کی کسی بچی یا پوتی، نواسی کو طلاق ہو اور وہ بھی ‘‘ تھوکے ہوئے مال’’ کی فہرست میں اس طرح سے داخل ہو جائے کہ آپ کے خاندان کا کوئی مناسب اور اس بچی کا ہم پلہ اور کفو اس سے نکاح کو ‘‘ تھوکے ہوئے مال کو چاٹنا’’ سمجھے اور اس نکاح پر آمادہ نہ ہو یا ممکن ہے کہ آپ کی کوئی بچی حسن وجمال والی نہ اور آپ کا متوقع داماد یہ سوچ کر اسے مسترد کردے کہ شادی زندگی میں صرف ایک بار ہوتی ہے، جیسا کہ آپ نے اپنی باری میں بھی یہی سوچاتھا تو مسلمانوں بتاو کیا یہ عورت پر ظلم نہیں ؟؟ اگر ظلم ہے تو ظالم کون ہے۔۔۔؟؟ کیا اب بھی وہ شخص ظالم نہیں جو استطاعت کے باوجود ان حالات میں بھی ایک زوجہ پر قناعت کو سعادت سمجھے۔۔۔۔؟

کئی ایسے واقعات بھی مشاہدے میں آتے رہتے ہیں کہ ایک شخص کی بیٹی کا رشتہ نہ ہوا، اس کی عمر بڑھنے لگی تو اس نے ہر طرف سے ناکام اور پریشان ہوکر بالاخر اپنی بیٹی کو کالج میں داخل کردیا کہ خود ہی کسی سے دوستی لگا کر شادی کرلو۔

اب آپ خود سوچیں اس صورت میں کیا ہوگا۔۔۔؟؟ کیا وہ لڑکی دوستی لگا کر شادی کرلے گی۔۔۔؟؟ کیا ہوگا یہی نا کہ وہ کبھی ایک سے دوستی لگائے گی کبھی دوسرے سے۔ لڑکوں کو تو کوئی مسئلہ نہیں شادی تو وہ اپنی مرضی سے کریں گے کیونکہ یہ زندگی میں صرف ایک بار کرنی ہے، البتہ اس لڑکی سے دوستی وقت گزاری اور شہوت پوری کرنے کے لئے لگائیں گے، اس طرح اس بے چاری کی عزت بھی تار تار ہو جائے گی اور شادی بھی نہیں ہوگی۔

آئے دن اخبارات میں پڑھنے اور سننے میں یہ خبریں آرہی ہیں کہ فلاں لڑکی اپنے اہل خانہ کی رضامندی کے بغیر اپنے ایک شناسا کے ساتھ گھر سے نکل گئی بلکہ معاملہ اب تو اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ مسلمان لڑکیاں اپنے غیر مسلم ساتھی ، عاشق اور دوست کے ساتھ نکل جارہی ہیں ، ابھی چند دن پہلے مسلمانوں کے اجتماعی و دینی معاملات میں دلچسپی رکھنے والے ایک صاحب علم نے اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ میرے رہائشی شہر کے قریب ایک صنعتی شہر میں 200 سے زائد مسلمان لڑکیوں نے غیر مسلموں سے شادی کرلی ہے اور اس سیبھی کربناک و افسوسناک خبر یہ کہ حیدرآباد کی ایک اعلی تعلیم یافتہ شکل و صورت کی مالک دولت مند باپ کی 24 سالہ بیٹی ایک موچی ذات کے 40 سالہ ہندو سے عشق و معاشقہ کے بعد شادی کرلیتی ہے اور جب اس شادی کو رسمی شکل دینے کی بات آئی تو اس تقریب میں اس لڑکی کا نام نہاد مسلمان باپ اپنے پچاس سے زائد رشتہ داروں کے ساتھ بڑی گرم جوشی سے شرکت کرتا ہے ، یہ اور اس قسم کی خبریں جو آئے دن اخبارات کی زینت بن رہی ہیں اس امر کی عکاسی کررہی ہیں کہ موجودہ دور میں مسلمان نہ صرف اپنا دین و اخلاق بلکہ اپنا تشخص بھی کھوتے جارہے ہیں۔
Syed Abdulwahab Sherazi
About the Author: Syed Abdulwahab Sherazi Read More Articles by Syed Abdulwahab Sherazi: 78 Articles with 74003 views Writer, Speaker, Mudarris.
www.nukta313.blogspot.com
.. View More