پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر زرعی شعبہ میں
ہمارا کسان پسماندگی کا شکار ہے وہ انسان جو دوسروں کے لیے دن رات محنت کر
کے،مٹی کا سینہ چیر کر اناج،سبزیاں،خوراک پیدا کرتا ہے اس کی فصل کو ریٹ
نہیں ملتا ۔اچھے بیج،کیمیاوی کھادیں،کیڑے مار
ادویات،ٹریکٹر،تھریشر،ہارویسٹر،اور آبپاشی کے جدید ذرائع جیسے لوازمات کی
فراہمی اور ان کے استعمال سے اوسط درجے کے کسان کے لیے بہت مشکل ہے پاکستان
میں لاکھوں ایکٹر اراضی کو استعمال میں لانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں
کی جاتی جسکی وجہ سے چھوٹا کسان سرمائے کی کمی اور آبپائشی کی نا کافی
سہولتوں کے فقدان کی بدولت قابل کاشت رقبہ کا بہت کم حصہ استعمال کر پاتا
ہے ۔زراعت ایک ایسا کاروبار ہے جسکا انحصار فصل کی بجوائی کے بعد دعاؤں پر
ہوتا ہے سیلاب،زلزلے،آندھیاں،خشک سالی،شدید گرمی ،شدید سردی وغیرہ جیسی
قدرتی آفات کسان کے لیے ہر پل پریشانیوں کا پہاڑ کھڑا کیے رکھتی ہیں اور
اکثر پکی ہوئی فصلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں ۔نہری نظام کے باوجود آبپاشی
کے ذرائع بہت کم ہیں ضرورت سے زیادہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ،نہری پانی کی
چوری،سے ٹیل کے کاشتکاروں کی فصلوں کو تباہ کر دیتی ہیں ۔کسانوں کو فصلوں
کی بجوائی و زراعت کے لیے زرعی آلات کی فراہمی کے لیے حکومتی سطح پر کوئی
خاطر خواہ انتظام نہ ہے زرعی قرضہ دینے والے اداروں کی کمی کے باعث کسان
قرضوں کے حصول کی خاطر،عام طور پر آڑھتیوں،سود خوروں سے قرضہ حاصل کرتا ہے
جسکی شرع سود انتہائی زیادہ اور من مانی ہوتی ہے فصل اچھی نہ ہونے،ریٹ کم
ملنے،قدرتی آفات کی بھینٹ چڑھ جانے کی وجہ کسان قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا
ہے حکومتی سطح کا زرعی بینک اکثر خالی رہتا ہے اور اگر قرضہ ملنے لگے تو
بھاری رشوت کا تقاضہ،بار بار کے چکر،بھی کسان کے مقدر میں لکھے گئے ہیں ۔جب
فصل تیار ہو جاتی ہے تو منڈی میں ریٹ نہیں ملتا آڑھتی من مانیاں کرتا ہے
متعدد بار تو فصل کی رقم بھی ہڑپ کر لی جاتی ہے ۔ان مسائل کے باوجود کسانوں
نے اپنی محنت جاری رکھی مگر ہر آنے والا دن کسان کے لیے بھاری ہوتا چلا گیا
بجلی کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگے،کھاد بیج کے ریٹوں میں آئے روز اضافہ
ہوتا چلا گیا مجبوری کی انتہاء کہ کروڑوں روپے کی زمین کا مالک کسان چھوٹے
سے دوکاندار سے کھاد بیج ادھار لیکر فصل بجوائی پر مجبور ہونے لگا زرعی ملک
میں کسانوں کی آواز اٹھانے والا کوئی نہ تھا جسے ووٹ کی امانت دیکر منتخب
کیا جاتا تھا کہ وہ نمائندہ بن کر کسانوں کی آواز اٹھائے گا وہی اسمبلی میں
پہنچ کر ذاتی مفادات کی جنگ لڑنے لگتا اور کسانوں کو بھول جاتا ان حالات
میں تقریبا تین سال قبل پاکستان کسان اتحاد کے نام سے کسانوں کی ایک تنظیم
وجود میں آئی جو کچھ ہی عرصے بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گی اور آج پاکستان
کسان اتحاد کے نام سے ایک تنظیم ،چوہدری محمد انوراور دوسری ملک خالد محمود
،ملک محمد یسین جھجھ اور راؤ مشتاق قادر خاں کی راہنمائی میں چل رہی ہے
دونوں کا ایجنڈا کسانوں کو متحد رکھنا اور بجلی،کھاد،سپرے،سمیت کسانوں کے
دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ فصلوں کے ریٹ مقرر کروانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔کسان
اتحاد کا وجود نہ ہوتا تو شاید آج ٹیوب کے بجلی ریٹ تیس روپے سے بھی تجاوز
کر چکے ہوتے مگر کسانوں کے دھرنوں،احتجاج،مذاکرات سے بجلی کے ریٹس میں کمی
ہوئی اور دیگر معاملات میں بھی کسانوں کو ریلف ملنے لگا مگر جس ایجنڈے کے
تحت پاکسان کسان اتحاد وجود میں آیا اسکی تکمیل نہ ہو سکی ہے۔گذشتہ سال
دھان،آلو،مکئی و دیگر فصلوں کے ریٹ نہ ہونے کے برابر کسانوں کو ملے تھے آلو
کی فصل بجوائی کرنے والوں پر لاکھوں کے قرضے چڑھ گئے آلو بیچنے کی بجائے
کسان پھینکنے پر مجبور ہوئے ،دھان کی فصل کا ریٹ بھی فی ایکڑ جتنا خرچہ ہوا
اس سے نصف ریٹ ملنے سے کسان کی کمر ٹوٹ گئی بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کسانوں
کا ہلا کر رکھ دیا تو کسانوں نے اپنے پلیٹ فارم سے احتجاج کیا حکومت سے
مذاکرات ہوئے مگر خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہو سکے شائد وزیر اعظم میاں
نوزشریف نے کسانوں کی تکالیف کا تھوڑا سا اندازہ لگا لیا اور کسان ریلف
پیکج کا اعلان کیا گیا جس میں کہا گیا کہ کسانوں کو ریلف دیتے ہوئے ،ڈی اے
پی اور یوریا کھاد کی قیمتوں میں پانچ صدروپے کی کمی کا اعلان کیا گیا اور
دھان کی فصل کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے فی ایکٹر پانچ ہزار روپے کسان کو
دینے کا وعدہ ہوا مگر یہاں بھی کسانوں سے ہاتھ ہو گیا ۔کسانوں کی لسٹیں
تیار کرنے کے لیے پٹواریوں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں جنہوں نے مسلم لیگ ن کے
ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ڈیروں میں بیٹھ کر ن لیگ کے کارکنوں کی
نشاندہی پر لسٹیں بنائیں ن لیگ سے تعلق نہ رکھنے والوں کے نام ہی گول کر
دیے گئے رہی سہی کسر ن لیگ کے ڈرائیوروں،خانساموں،گن مینوں،اور یار دوستوں
کے علاوہ پٹواریوں کے منظور نظر افراد کو کسان ظاہر کر نوازا گیا ۔ڈٰی اے
پی کھادجو 3800سو روپے فی بوری سے کم ہو کر 3300سو روپے میں فروخت ہونا
تھی،یوریا کھاد جو سترہ سو روپے سے کم ہوکر بارہ سو روپے میں کسان کو ملنا
تھی وہ آج 3300کی بجائے ساڑھے انتالیس سو روپے فی بوری جبکہ یوریا بارہ سو
روپے کی بجائے ساڑھے انیس سو روپے میں کسان کو مل رہی ہے ۔آلو،دھان،مکئی کی
فصل کا کوئی پرسان حال نہیں زراعت کی تباہی کا یہ عالم ہے کہ پٹہ پر زمین
لیکر زمیندارہ کرنے والے تیار فصلیں چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں کہ ریٹ مل نہیں
رہا پٹہ کہاں سے ادا کریں گے غرضیکہ ایک بار پھر کسان مطالبات پورے نہ ہونے
پر سڑکوں پہ آنے کا اعلان کر رہا ہے پبدرہ فروری کو کسان اتحاد نے پنجاب
اسمبلی کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا حکومت نے کسانوں کا احتجاج
روکنے،تتر بتر کرنے کے لیے مذاکرات کی دعوت دی اور گزارش کی کہ احتجاج کی
کال واپس لی جائے کسان اتحاد نے احتجاج کی کال واپس لینے کی بجائے تاریخ
بڑھا دی ۔تین چار روز حکومتی عہدیداروں،وزرا،جسمیں،رانا ثنااﷲ،سیکرٹری
پنجاب،سی سی پی او اور کمشنر پر مشتمل ٹیم سے پاکستان کسان اتحاد کے چیرمین
،چوہدری محمد انور،مرکزی صدر،راؤ طارق ارشاد،سنئیر نائب صدر،ملک محمد
احمد،اﷲ دتہ ہانس اور سرگرم راہنما کسان اتحاد میاں احمد فراز مانیکا نے
مذاکرات میں شرکت کی ۔میاں احمد فراز مانیکا ترجمان پاکستان کسان اتحاد کے
مطابق حکومت کو مطالبات پیش کیے گئے جسمیں تنظیم پر درج سینکڑوں مقدمات ختم
کیے جائیں،زراعت پر فوری ایمرجنسی نافذ کی جائے،آلو کا ریٹ چالیس روپے فی
کلو مقرر کیا جائے،زرعی ٹیوبویلوں کا بقایا معاف کر کے زرعی ٹیوب ویل کو
بجلی فری فراہم کی جائے یا زیادہ سء زہادہ پانچ روپے فی یونٹ مقرر کیا
جائے،گندم کی امدادی قیمت پندرہ سو روپے فی من مقرر کی جائے اور باردانہ
اوپن کیا جائے،زراعت پر جی ٹی ایس ختم کیا جائے ،گندم کی طرح کپاس ،آلو،چاول،گنا،مکئی،کی
بھی امدادی قیمت مقر کی جائے،پاک انڈیا تجارت ختم کی جائے ،ڈیزل کی قیمت
میں مزید کمی کی جائے،گنے کی ادائیگی فوری کی جائے،مگر مذاکرات بڑھ ہی نہ
سکے اور پہلی سٹیج پر ہی نا کام ہو گئے ہیں اس پر کسانوں نے فیصلہ کیا ہے
کہ چونکہ حکومت کی ناقص پالیسوں کی وجہ زراعت تباہ ہو کر رہ گئی ہے جس کے
اثرات سے پورے پاکستان کا کسان معاشی بدحالی کا شکار ہے اس لیے اپنے حقوق
حاصل کرنے کے لیے اب چوبیس فروری کو پنجاب اسمبلی کے سامنے پاکستان بھر سے
کسان احتجاج کریں گے اور مطالبات کی منظوری تک کفن پوش احتجاج جاری رکھیں
گے۔ان حالات میں حکومت کو ہوش کے ناخن لینا ہونگے کیونکہ اگر زراعت تباہ ہو
گئی پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔اگر زراعت کو بچانا ہے
تو انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ کسان برادری کفن اٹھائے سڑکوں پر حق
مانگتی نظر آئے گی جو کسی بھی حکومت کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہو سکتے
ہیں۔اس لیے حکومت وقت کو بادشاہی دربار سے نکل کر کسانوں کی خود بات سننا
ہو گی ورنہ درباری کسانوں کو لولی پاپ دینے کے چکر میں بادشاہی داؤ پر لگا
بیٹھیں گے۔ |