لو جہاد سے مسلکی جہاد تک

ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
آج پوری دنیا میں امت مسلمہ جس نازک دور سے گزر رہی ہے شاید ہی ایسا ماضی میں کبھی ہوا ہوگا ۔ہاں یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کی آزمائش ہر دور میں رہی اور اس کو ختم کرنے کی کوشش بھی ہر دور میں ہوتی رہی لیکن ایکسویں صدی نے تو اسلام کے قلعہ میں مسلکی سیندھ لگا دی ہے ۔اس سے قبل بھی مسلکی اختلافات نے خوب ہوا دی لیکن ایسے حالات نہ تھے کہ ایک مسلک دوسرے مسلک کی نسل کشی کیلئے تیار ہو جائے ۔جہاں ایک طرف اغیار کی طرف سے لو جہاد ،گھر واپسی جیسے مہم چلائی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف اپنوں کے ذریعے سرکاری سطح پر حکومت کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ فلاں مسلک کے لوگ جہادی فکر کے حامل ہیں اس لئے ان پر پابندی ضروری ہے ۔ہائے اس بات پر سر پیٹ لینے کا دل کرتا ہے ۔یہ کیا ہو گیا ہے اسی ہندوستان کے قریہ قریہ میں ایک مسلک کے گھر میں میلاد ہو رہا ہے تو پورے محلے اور شہر کے لوگ اس گھر میں موجود ہوتے تھے وہاں یہ کبھی نہیں دیکھا گیا تھا کہ یہ فلاں مسلک کے لوگ ہیں بلکہ شیر و شکر کے ساتھ شکر پالے کے مزے ہر کوئی لیتا تھا اور عزت و احترام کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتا تھا ۔گھر آیا تو معلوم ہوا کہ ضروری نہیں تھا جانا چلو کوئی بات نہیں ۔اتنے خوشگوار ماحول کو کس کی نظر لگی کہ ایک طبقے نے دہلی کے تال کٹورا اسٹیڈیم میں پروگرام کر کے حکومت کوہی دیگر مسلک کے خلاف مہم چلانے کی صلاح تک دے ڈالی ۔ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ۔اس شرمندگی کو ہم کیا نام دیں سمجھ سے بالاتر ہے ۔مسلک الگ ہونا جرم نہیں ہے یہ بات انہیں کیوں سمجھ میں نہ آئی ہم بھی اس رسول ﷺکے امتی ہیں جس نے کہا کہ اچھے تو سبھی کہ ہیں برا میرے لئے ہے ۔جو رحمت اللعامین ہیں جن سے دشمن کو خیر کی امید تھی ۔ہم ایسی ہستی کے امتی ہیں جس جیسا کوئی انسان نہ نبیوں میں نہ انسانوں میں آج تک پیدا ہوا ۔تمام نبیوں کے سردار تمام دنیا والوں کے لئے سراپا رحمت ہی رحمت کے امتی کبھی ایسا ہو جائیں گے یہ کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔عالم عرب میں مسلکی اختلاف نے اس قدر زور پکڑا کہ اکیلے شام میں اب تک پانچ لاکھ افراد شہید ہو چکے ہیں اور پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے پھر مسلکی آگ اور بھڑک رہی ہے بلکہ اغیاروں سے مدد لی جارہی ہے اپنے نبی کی امت کی نسل کشی کرنے کیلئے روس اور فرانس وغیرہ سے بمباری کرائی جا رہی ہے ۔ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہم اس نبی کے امتی ہیں جس نے فرمایا کہ ایک انسان کی ناحق موت پوری انسانیت کی موت کے مترادف ہے ۔آخر یہ آگ کب بوجھے گی ۔ہم تو اسلام کا پرچم دنیا میں لہرانے آئے تھے دوسرے کے پرچم تلے کیسے آگئے ہم تو پوری دنیا کو اﷲ کی غلامی میں ڈالنے آئے تھے ہم دوسروں کے غلام کیسے بن گئے ۔ہم تو دنیا میں الفت و محبت کا پیغام پہنچانے آئے تھے ہمیں دہشت گرد کے لقب سے نوازا جا رہا ہے ۔یہ کیا ہو رہا ہے اس سے نکلنے کے اسباب کیا ہیں یہ سبھی مسلمانوں کو معلوم ہے لیکن ہمارے اندر کسی کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہی نہ رہی تب تو ہم مسلم کہلانے کے بھی حقدار نہ ہونگے ۔مسلمان تو آفاقی نظریہ کا حامل ہوتاہے جس کے نزدیک نہ کوئی سرحد ہوتی ہیں نہ کوئی مسلک وہ تو آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں اور غیروں کے لئے بھی رحمت ہوتے ہیں ۔کتنا ہی اچھا ہوگا کہ اس چنگاری کو جو دہلی کے تال کٹورا اسٹیڈیم سے جو نکلی ہے وہیں دفن کر دیا جائے اور پھر سے ایک دوسرے کے گلے لگ کر تمام دنیا والوں کے لئے رحمت بن جائیں ۔دنیا کو اب دکھانے کی باری آئی ہے کہ یہ وہ حقیقی اور پر مسرت نظام ہے جس کو ابھی تک آپ نے اپنایا نہیں ہے اسی میں سب کی بھلائی کا راز مضمر ہے۔ اور تم سب کوپلٹ کر اسی کی آغوش میں پناہ ملے گی،جس چین اور سکون کے لئے دنیا ترس رہی ہے وہ اسلام کے پاس ہے آؤ اور اپنی پیاس بجھاؤ ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 102201 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.