محب اللہ

حب محبت، محب محبت کرنے والا اور محب اللہ اللہ سے محبت کرنے والا

م ح ب اور ت کے جوڑ سے بنے اس لفظ محبت کے ایک ایک حرف میں معنی و مفہوم کا جہان پوشیدہ ہے اس چار حرفی چھوٹے سے لفظ ‘محبت‘ کی وسعت و گہرائی اور جامعیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر دور میں محبت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا اور تخلیق کیا جا چکا ہے کوئی بھی مکتب فکر ایسا نہیں جو اس موضوع سے خالی ہو کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں محبت کے بارے میں بات نہ ہوئی ہو محبت کے بارے میں مختلف مکاتب فکر سے متعلق مفکرین نے اپنے اپنے اندز نظر، انداز فکر اور نظریات کے حوالے سے محبت کے معنی و مفہوم اور وسعت و جامعیت پر، انسانی زندگی میں محبت کی کارفرمائی اور عمل دخل کی بابت اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات اور تحقیق و مطالعہ کی روشنی میں اپنے ذاتی افکار سے دنیا کو روشناس کیا ہے محبت کے بارے میں پہلے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آج بھی لکھا جا رہا ہے بلکہ جب تک یہ دنیا قائم ہے ہر دور میں محبت کی بات ہوتی رہے گی محبت کی بات چلتی رہے گی یوں تو محبت کو بےشمار زاویوں سے دیکھا اور پرکھا جاتا رہا ہے اور اسی کی بنیاد پر یہ رائے کہ محبت کے کئی رنگ ہیں کئی صورتیں ہیں مستند تسلیم کی جا سکتی ہے جس طرح محبت کے کئی انداز کئی رنگ اور صورتیں ہیں اسی طرح محبت کرنے والے کے لئے اپنے محبوب سے اظہار محبت کے بھی کئی انداز اور طریقے ہیں محبت کی ان بےشمار اقسام کی بنیاد انسانوں کے انسانوں کے ساتھ باہمی تعلقات پر ہے اصل میں اس محبت کا منبع و مآخذ یا سرچشمہ ایک ایسی محبت سے پھوٹتا ہے جو ازل سے جاری و ساری ہے اور انسان کی پیدائش سے ہی انسان کے وجود میں انسان کی روح میں سرایت پذیر ہے اور یہ محبت ہے انسان کی اپنے خالق اپنے مالک اور اپنے رب سے محبت یہی وہ محبت ہے جو انسان کو انسان سے محبت کرنا سیکھاتی ہے جو ایک عام انسان کو اپنے خالق کی تخلیق کردہ کائنات اور مخلوق سے محبت کرنا سیکھاتی ہے رب کے بندوں سے محبت کرنا سیکھاتی ہے اور یہی محبت ہے جو انسان کو انسان کی تکمیل کی منزل تک لے جاتی ہے کہ تکمیل انسانیت کی منزل پانا ہی تخیلق آدم کا مقصد و منشاء بھی ہے اور خالق کائنات کی رضا بھی ہے-

محبت کے تذکرے کہ بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محبت اللہ یعنی اللہ سے محبت کرنے والے کون لوگ ہیں سوچنے کی بات ہے کہ وہ کون ہو سکتا ہے کہ جو محب اللہ نہیں جو اللہ سے محبت نہیں کرتا جبکہ اللہ کی محبت تو انسان کی سرشت میں شامل ہے جب ماں باپ اولاد سے اور اولاد ماں باپ سے محبت کرتے ہیں جبکہ اللہ نے ماں باپ کو اولاد کی پیدائش کا محض وسیلہ بنایا ہے جبکہ انسان کو پیدا کرنے والی ہستی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جبکہ اللہ اپنے بندوں سے ایک ماں کی محبت سے ستر گناہ زیادہ محبت اپنے بندوں سے رکھتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بندہ اللہ سے محبت نہ کرتا ہو-

دنیا میں محبت کی جو مختلف صورتیں نظر آتی ہیں وہ سب اس ازلی و لازوال محبت کی صورتیں ہیں جو اللہ اپنے بندوں سے کرتا ہے اور یہی وہ محبت ہے جو بندہ اپنے رب سے کرتا ہے۔۔۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہر انسان محب اللہ ہے جس طرح محبت کی مختلف صورتیں ہیں اسی طرح محب اللہ اپنے رب سے محبت کے اظہار کی بھی مختلف صورتیں ہیں جو نا صرف عبادت کی صورت میں نظر آتی ہے بلکہ کبھی یہ محبت اللہ کے بندوں سے محبت کی صورت میں سامنے آتی ہے تو کبھی خلق خدا کی خدمت کی صورت نظر آتی ہے کہ اللہ کے بندوں سے محبت رکھنا اور خلق خدا کی خدمت کرنا بھی عبادت ہی کی ایک صورت ہے-

یہ محبت ہی ہے جو ایک عام انسان کو حب کے راستے پر ڈال کر سب سے محبت کرنا سیکھاتی اور محب اللہ بناتی ہے کہ جو شخص رب سے محبت کا دعوے دار ہوتا ہے یہ ممکن نہیں کہ وہ رب تعالیٰ کے بندوں سے خالق کی مخلوق سے محبت نہ کرتا ہو محب اللہ کی ہر ادا سے، ہر انداز سے، ہر عمل سے اپنے محبوب کی محبت جھلکتی ہے اس کی رضا اور اسکی مرضی کی متابعت کا اظہار دکھائی دیتا ہے اور یہی محبت یہی طرز عمل محب اللہ کو اللہ کے بندوں میں مقبول و محبوب بناتا ہے اللہ تو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہی ہے اللہ کے بندے بھی محب اللہ سے محبت کرنے لگتے ہیں اور محبت کا یہ سلسلہ عام محبت سے خاص اور خاص محبت سے عام محبت کا سفر کرتی ہوئی پھر خاص محبت سے جا ملتی ہے اور یہی ملاپ انسان کی تکمیل ہے کسی کو حقیر نہ جانو کسی کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھو کہ سب ہی اللہ کے بندے ہیں اور اللہ اپنے تمام بندوں سے پیار کرتا ہے-

محبت ہی وہ تریاق ہے جو نفرت کے زہر پر غالب آتا ہے دوسروں میں نفرت نہ تلاش کریں بلکہ وہ پوشیدہ محبت تلاش کرنے کی کوشش کریں جو بظاہر آپ کو نظر نہیں آ رہی کہ یہ جذبہ تو اللہ رب العزت نے اپنے ہر بندے کے خمیر میں شامل کیا ہے پھر کیوں یہ غصہ اور نفرت کی فضا انسان کو ایک دوسرے سے دور لے جا رہی ہے کیوں اس دنیا کو دوزخ بنا رہی ہے کیا ہم انسان محبت سے دور ہیں کیا ہمیں خود سے محبت نہیں رہی یا ہم محبت چاہتے ہی نہیں کہ جو ہماری سرشت میں شامل ہے-

محبت سب کے لئے ہے ہر انسان محب اللہ ہے جو انسانوں سے محبت کرتا ہے جو خلق خدا سے محبت کرتا ہے جو اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور وقتاً فوقتاً اپنے عمل سے اس کا اظہار بھی کرتا ہو وہی محب اللہ ہے یا یہ کہ جو اپنے جذبہ کا اعلانیہ اظہار نہیں کرتا وہ جذبہ محبت سے عاری ہے یا جو سر عام اللہ ہو اللہ ہو کا باآواز بلند ورد کرتا دکھائی دے رہا ہے رب سے اپنی محبت کا اظہار اعلانیہ کر رہا ہے صرف وہی اللہ سے محبت کرنے والا یا محب اللہ ہے تھوڑا سا غور کریں تو ہر انسان میں کسی نہ کسی صورت وہ محبت ضرور دکھائی دے گی جو کسی نہ کسی واسطے سے انسان کے دل میں اللہ سے محبت کی صورت مؤجزن ہے سو آپ بھی ہر انسان سے محبت کریں کہ ہر انسان کے دل میں میں کسی نہ کسی صورت میں اللہ کی محبت موجود ہے-

اگر کوئی کسی سے یا خود سے ناراض ہے تو کیوں کوئی کسی سے یا خود سے نفرت کرتا ہے تو کیوں کوئی تو وجہ ہوگی کوئی تو راز ہوگا کوئی تو سبب ہوگا اپنی محبت سے یہ راز معلوم کرنے کی کوشش کریں دوسروں کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کریں اپنی محبت سے نفرت کی آگ پر غلبہ پانے کی کوشش کریں کہ اللہ رب العزت نے اپنی قدرت و حکمت سے انسان کو بہت کچھ نوازا ہے انسان کو علم و تدبر کی دولت عطا فرمائی ہے کتاب حکمت عنایت فرمائی ہے رب تعالیٰ نے خود اپنے آپ سے اور اپنی مخلوق سے محبت کرنے کی راہ انسان کو دکھائی ہے رب اور اس کے رسول پاک نبی آخری الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی و متابعت سے کلام الٰہی کی روشنی میں اپنے دلوں میں پروان چڑھتی محبت کو محبت کو تلاش کریں اور اس محبت کی روشنی سے نفرت انگیز اندھیروں سے انسانی زندگی کو نجات دلائیں اس یقین کے ساتھ کہ اللہ نیکی کے ہر کام میں ہمارا حامی و مددگار ہے-
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 457012 views Pakistani Muslim
.. View More