دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
(عابد محمود عزام , Karachi)
دنیا میں آنے والا ہر فرد اپنی آنکھوں سے
وقتاً فوقتاً خودغرضی اور مفادپرستی کے مظاہر دیکھتا رہتا ہے۔ ہر دور میں
قابیل کی قبیل کا انسان اپنے مفادات کی خاطر اپنے ہی ہم جنسوں کو نقصان
پہنچاتا نظر آتا ہے۔ انسان کی اکثریت مفاد پرستی اور خودغرضی کی بھٹی میں
اس قدر پک چکی ہے کہ یہ عیوب اس کی فطرت کا جزولاینفک دکھائی دیتے ہیں۔
مفاد پرستی اور خودغرضی ہی انسان کو دھوکا دہی، چوری چکاری، ڈاکا زنی، قتل
و غارت اور دیگر جرائم پر اکساتی و ابھارتی ہے اور دنیا کا سکون چھین کر
اسے بے سکونی کا تاج پہناتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف مفاد
پرست اور خود غرض انسان ہی بستے ہیں۔ لوگ یہی خیال کرتے ہیں کہ دنیا سے
مخلص، دوسروں کے کام آنے والے اور دوسروں کی مدد کرنے والے انسان معدوم
ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں آج بھی غرض سے بالاتر ہو کر انسانیت کے لیے
کام کرنے والے بہت سے مخلص انسان دنیا میں موجود ہیں۔ آج بھی ایسے انسان اس
دھرتی پر چلتے پھرتے ہیں، جنھیں دوسروں کی مدد کرکے دلی خوشی اور سکون حاصل
ہوتا ہے، جن کو دیکھ کر یہ شعر یاد آجاتا ہے
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ انسان چاہے جتنا خود غرض اور مفاد
پرست ہوجائے، لیکن انسانیت اس دھرتی پر ہمیشہ زندہ رہے گی۔ دنیا میں سارے
انسان مفاد پرست اور خود غرض نہیں ہوتے، بلکہ انسان سے بے لوث محبت کرنے
والے انسان بھی اس دھرتی پر بستے ہیں۔ گزشتہ روز بی بی سی پر بے لوث خدمت
کی ایک داستان پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں۔ بھارت کی ریاست بہار کے دارالحکومت
پٹنہ میں گرمیت سنگھ نامی ساٹھ سالہ شخص گزشتہ 20سال سے بلاناغہ بے
یارومددگار مریضوں کی مدد کرنے میں مشغول ہے۔ وہ خود ایک بازار میں کپڑے کی
دکان چلاتا ہے، لیکن ہر روز رات کو بہار کے سب سے بڑے اسپتال میں مریضوں کی
خدمت کرنا اپنی ڈیوٹی سمجھتا ہے۔ مسٹر سنگھ نے گزشتہ 13 برسوں سے کوئی چھٹی
کی ہے اور نہ ہی پٹنہ سے باہر قدم رکھا ہے، کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ ان بے
یارو مددگار لوگوں کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ وہ اپنے پانچ بھائیوں کے ساتھ
ایک فلور پر رہتا ہے۔ تمام بھائی اپنی ماہانہ آمدنی میں سے دس فیصد مسٹر
سنگھ کے مریضوں کی دوا کے لیے عطیہ دیتے ہیں۔ وہ ہر رات نو بجے اپنا گھر
چھوڑ دیتا ہے اور کھانے اور دواؤں کے ساتھ اسپتال کے اس وارڈ کا چکر لگاتا
ہے، جہاں بے یار و مددگار چھوڑ دیے جانے والے مریض ہوتے ہیں۔ وارڈ میں پہنچ
کرمریضوں سے ان کا حال دریافت کرتا ہے، وہ ان کے نسخے دیکھتا ہے اور مہنگی
دواؤں، جانچ، اسکین اور کینسر کے مریضوں کی کیمو تھراپی کے لیے پیسے دیتا
ہے اور مریضوں کے لیے خون کا عطیہ بھی کرتا ہے۔
بے لوث قربانی کا ایسا ہی واقعہ کچھ عرصہ قبل بھی کہیں پڑھا تھا، جس نے بہت
متاثر کیا۔ مشرقی لندن میں نیو ہیم کے ”رائل ڈوکس کمیونٹی اسکول“ کی ایک
تیرہ سالہ طالبہ عالیہ احمد علی کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ دماغ
میں پانی بھر جانے کی وجہ سے عالیہ کی سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں شدید
متاثر ہو رہی تھیں۔ عالیہ کو ایک گردے کی اشد ضرورت تھی، لیکن اس کا حصول
ناممکنات میں سے دکھائی دے رہا تھا، لیکن عالیہ کے اسکول میں ہی بے لوث
قربانی پر یقین رکھنے والے 53 سالہ مسٹر رے کو جب عالیہ کی مشکل کا پتا چلا
تو اس نے بغیر لالچ اور زبان و مذہب کے مختلف اور ایک دوسرے سے بالکل اجنبی
ہونے کے باوجود بلا توقف عالیہ کے لیے اپنا ایک گردہ عطیہ کر کے اس کی جان
بچالی۔ جس سے ثابت ہوگیا کہ انسان سے انسانیت تک کا سفر قربانیوں اور ایثار
کے کٹھن راستوں سے گزرتا ہوا آج بھی جاری ہے۔
اگر کہیں بے غرض اور سچے ایثار کی کہانی جنم لیتی ہے تو یہ احساس دلاتی ہے
کہ انسانیت ہر دور میں زندہ تھی اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔ برے لوگوں کی
اکثریت کے بیچ بہت سے ایسے اچھے افراد بھی موجود ہوتے ہیں، جو انسانیت کے
تقاضوں پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوکر انسان کا سر فخر سے بلند کردیتے
ہیں۔ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے، خود غرضی اور مفاد پرستی کے ساتھ
انسان کا دوسرے انسانوں کے لیے ایثار اور قربانی پیش کرنے کا جذبہ بھی اٹل
حقیقت رہا ہے۔ ان سچے جذبوں کے اظہار کو ہر ذی روح محسوس کرتا ہے اور ان سے
خود میں راحت اور توانائی کی دنیا بھی بساتا ہے۔ انسانیت کے درد کو اپنے دل
میں جگہ دینے والے انسانوں کو انھی لافانی جذبوں کی بدولت انسانیت کی ایسی
بلند و بالا مسند عطا ہوتی ہے، جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔
انسان کی بے لوث قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ
سر انجام دیتی ہے اور اسے دوسرے انسانوں سے ممتازکرتی ہے۔ انسانیت سے بے
لوث محبت اور اس کی خدمت ہر انسان کی ازلی خواہش تو ہوتی ہے، لیکن اس کے
اظہار کی اسے جرات، ہمت اور استطاعت نصیب نہیں ہوتی، کیونکہ ذاتی مفادات کی
خواہش دوسروں کی خدمت کی بجائے مفاد پرستی اور خود غرضی کے محور میں چکر
لگانے پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔ حالانکہ ایثار ہی دنیا کا حقیقی حسن ہے، لیکن
نفسا نفسی کے اس دور میں دوسروں کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لیے اپنی
توانائیوں کو صرف کرنا انہونی سی بات لگتی ہے۔ ہر انسان اپنی ذات میں اتنا
مگن ہے کہ اسے دوسروں سے کوئی غرض نہیں۔ وہ اپنے مسائل اور ضروریات میں
الجھ کر اپنے ہم جنسوں سے نہ صرف دور ہوگیا، بلکہ ان کو نقصان پہنچانے سے
بھی گریز نہیں کرتا۔ وہ لوگ واقعی باہمت، قابل داد اور قابل ستائش ہیں، جو
دوسروں کے لیے اپنا وقت نکالتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں۔
ایسے لوگ اگرچہ کم ہیں، لیکن ہیں ضرور۔
اس دور میں بھی وقتاً فوقتاً درد دل رکھنے والے افراد کے انسانوں کے لیے
قربانیوں کے بے بہا واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں
اچھے اور برے انسان ضرور ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان
دوسروں کی خود غرضی اور مفاد پرستی کو دیکھتے ہوئے خود بھی ان کی راہ پر چل
پڑے، بلکہ انسان کو فی زمانہ جتنی انسانیت کی ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی
نہیں تھی۔ ہر انسان اگر یہ عہد کر لے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں
ضرورت پڑے اور موقع ملے تو ضرور دوسروں کی مدد کرے گا، مجبور اور ضرورت مند
لوگوں کی چھوٹی بڑی ضروریات حل کرنے میں مکمل تعاون کرے گا، کسی غریب طالب
علم کی تعلیم کا خرچ، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کا خرچ، کسی بے روزگار کی
نوکری کا انتظام، کسی غریب بیمار کے علاج کا انتظام اور ہر ایسا کام کرے گا
جس سے کسی انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہوتو یقین کیجیے اس سے دنیا بدل جائے
گی۔ دنیا میں سکون ہی سکون کا راج ہوگا اور محبت کی حکمرانی ہوگی۔ |
|