ریاست کے فرائض

کسی بھی ریاست یا ملک کی کامیاب معیشت کے لیے ضروری ہے کہ اس ریاست یا ملک میں امن و امان کی صورت حال اور قانون کی بالا دستی عام ہو ۔ ملک میں امیر غریب ، طاقت ور ، کمزور کے لیے یکساں قانون رائج ہو جہاں کوئی طاقت ور ،اپنی طاقت کی وجہ سے قانون کی گرفت سے باہر نہ ہو۔ کیونکہ اگر قانون ، امیر غریب ، طاقت ور ، کمزور کے لیے الگ الگ ہو گا تو اس ملک میں طاقت ور اور امیر کے لیے جرائم کا راستہ کھلا رہے گا اور وہ ایک بے لگام ہاتھی کی مانند اپنی راہ میں آنے والوں کو کچلتے چلے جائیں گے حضرت عمر فاروقؓ کا قول ہے کہ جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں کے لوگ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں ۔ ( کنز العمال ۱۳۸ حیات الصحابہ ۱۵۴۵)

حضرت عمر فاروق ؓ کے دور ِ خلافت میں اسلامی سلطنت کئی سو ایکڑ رقبہ پر محیط تھی اور انصاف کا یہ عالم تھا کہ جنگل میں کسی بھیڑیے کو بھی یہ جرات نہ تھی کہ کسی بھیڑ پر حملہ کر سکے ۔ مورخین نے حضرت عمر ؓ کی وفات پر ایک شخص جنگل میں آہ و نقا ء کرنے لگا کہ آج خلیفہء وقت اس دنیا میں نہیں رہے لوگوں نے جب استفسار کیا کہ وہ یہ بات کس طرح کہہ سکتا ہے تو اس نے کہا کہ آج اس کی ایک بکری کو بھیڑیا شکار کر کے لے گیا ہے جب تک حضرت عمر اس دنیا میں تھے کسی بھیڑیے میں یہ جرات نہیں تھی ۔ یہی عمر فاروق ؓ ایسے بادشاہ تھے جن کا کہنا تھا کہ اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی مرتا ہے تو عمرؓ اس کے لیے جوابدہ ہیں ۔
اسلام وہ مذہب ہے جس میں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جب ایک عورت چوری کے جرم میں بادشاہ ء دنیا ودیں نبی محترم حضرت محمد ﷺ کے حضور پیش کی جاتی ہے ، قریش کے لوگ اس کی سفارش کرتے ہیں تو ارشاد کچھ یوں ہوتا ہے ۔

اگر اس عورت کی بجائے ، میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی ہوتی تو میں ان کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ۔

اب ایک نظر ڈالتے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستانپرجس کے قانون اور معاشرے کو اسلام کے مطابق ہونا چاہیے تھا وہاں کے حکمران ہی ملزموں کو بچانے کی خاطر میدان عمل میں رہتے ہیں جہاں جرم کرنے والا انصاف فراہم کرنے والوں کی پشت پناہی میں ہوتا ہے ۔ یہاں راہنما ہی رہزن بن بیٹھے ہیں ۔ حکمرانوں ہی کے بھتیجے ، رشتہ دار ، یا کسی سیاسی پارٹی کے کارکن بے گناہوں کی بے دردی سے جان لے لیتے ہیں اور کوئی سزا نہیں پاتے ۔ ہمارے ،ملک میں امن و امان کے حالات دن بدن ناگفتہ بہ ہوتے جا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں بے گناہ بے رحمی سے مرتے ہیں کیونکہ مجرموں کو بچایا جاتا ہے ۔ارض ِ وطن میں مجرموں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتابلکہ انھیں ایک اہم مقام دیا جاتا ہے ۔آئیے !پچھلے برس کے کچھ نامی گرامی مجرموں پر نظر ڈالیں ۔ یہ ایسے مجرم ہیں جن کا جرم ثابت ہوا اور انھیں وی آئی پی پروٹوکول ملا ۔ چاہے وہ ماڈل ایمان علی ہوجس کے تمام جرائم ثابت ہو چکے ہوں، اس کے باوجود جب اسے رہا کیا جاتاہے اور ایک اعلی ٰ تعلیمی ادارے میں اسے لیکچر کے لییمدعوکرے تو کیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ و ہ اس قابل ہے کہ طالب علموں کو پڑھا سکے ؟ نہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرے کی کمزوری ہے،چاہے وہ شاہ رخ جتوئی ہو جس پر قتل کا جرم ثابت ہو چکا ہو اور اسے کم عمر قرار دے کر رہا کر دیا جائے ۔ صرف اور صرف اس لیے کہ وہ ایک سیاسی کارکن کا بیٹا تھا اور اس کا باپ ایک حیثیت کا مالک تھا اور مقتول ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد تھا اور مقتول کے لواحقین کمزور تھے ، اس قابل نہ تھے کہ قاتل کے خلاف لڑ سکیں ۔پھریہ بھی ہوا کہ چیف جسٹس کا بیٹا غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو ا ، بہت دنوں تک بہت سے ثبوت اس کے خلاف پیش کئے گئے ، کئی تجزیے کئے گئے لیکن اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا کیونکہ اس کا باپ ایک طاقت ور شخص تھا ۔ سانحہ بدلیہ ٹاؤن ہو، یا کراچی کی کسی فیکڑی کو، اس وقت جلا دیا جائے جب اس میں نہ جانے کتنے ہی گھروں کے واحد کفیل مزدوری کر رہے ہوں ۔ صرف اس لیے کہ اس فیکڑی کے مالک نے بھتہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان سانحوں پر گھنٹوں بحث کی جاتی ہے ، کئی کئی دن تک یہ لوگ میڈیا کی خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں ، پھر آہستہ آہستہ یہ خبر پرانی ہو جاتی ہے اور بالآخر اس پر گرد پڑنے لگتی ہے ۔ کسی بھی ملزم کو قرار واقع سزا نہیں دی جا تی ۔ کوئی طاقت ور شخص قانون کی گرفت میں نہیں آتا ۔ سیاسی جماعتو ں کے نمائندے ایک دوسرے کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں ، ایک دوسرے کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور اس بحث میں اصل مسئلہ دب کر رہ جاتا ہے ۔اگر کسی عام آدمی سے کوئی جرم ہو جائے تو اسے سالوں اس جرم کی سزا بھکتنا پڑتی ہے اس کے برعکس سیاست دانوں کے بچے چاہے کسی کا قتل کر دیں وہ آسانی سے بری الزمہ ہو جاتے ہیں ۔ملک میں تیزی سے پھیلتی بدامنی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بدامنی پھیلانے والوں کو وڈیروں ، سیاسی کارکنوں ، کسی ایم این اے،کسی ایم پی اے کی پشت پناہی حاصل رہی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کا جرم ثابت بھی ہو جائے گا تو ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جرائم کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے ۔اگراعداد وشمار کاجائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں جرائم کی سطح بلند ہوئی ہے ۔تمام صوبائی دارلحکومت میں پچھلے ایک ماہ میں ہونے والے جرائم کے واقعات کے اعداد و شمار کچھ یوں رہے 549 سڑیٹ کرائم 520کار چوری کے واقعات 227حادثات 212 چوری اور ڈاکہ کی وارداتیں 194شہری قتل ہوئے جن میں سے کراچی میں ہونے والے جرائم کی تعداد 932 لاہور میں 694 پشاور میں 69 جبکہ کوئٹۃ میں ہونے واقعات کی کل تعداد 57رہی ۔سال کا اگر جائزہ لیا جائے تو اعداد و شمار رونگٹے کھڑے کر دینے کو کافی ہیں ۔ سال میں کل 13276 کا قتل ہوا 329 عورتیں اور بے گناہ بچیاں گینگ ریپ کا شکارہوئیں جبکہ ریپ ہونے والی عورتوں کی تعداد3285رہی ۔ 81520ڈاکے اور چوری کی وارداتیں ہوئیں جبکہ کار اور موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں کی تعداد 33243 رہی ۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو تھانوں میں رپورٹ کئے گئے یا جن پر پولیس نے کچھ نہ کچھ کام کیا ۔ ایسے نہ جانے کتنے ہی ان گنت واقعات ایسے ہیں جن کی کوئی رپورٹ درج نہیں کر وائی گئی اور نہ ہی ان پر پولیس نے کوئی کام کیا ۔ ایسے لوگ جو کسی وڈیرے یا کسی سیاسی کارکن یا کسی طاقتور شخص کے ظلم کا شکار ہوئے انھوں نے کہیں کوئی رپورٹ درج نہیں کروائی ۔ اس کی وجہ ان میں جرات کی کمی نہیں بلکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ ان طاقتور افراد کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے الٹا اگروہ ان کا نام پولیس میں لیں گے تو پولیس انھی کے اہل ِخانہ کو تنگ کرے گی۔

اب دیکھیئے !تصویر کا دوسرا رخ اگر کوئی بھوک سے نڈھال شخص چوری کر لے یا کسی پر چوری کا الزام لگا دیا جائے تو شک کی بنیاد اس کو مارمار کر لہولہان کر دیا جاتا ہے ۔ اس غریب شخصکا جرم ثابت ہو نا بھی ضروری نہیں بلکہ اس شخص پر جرم عائد ہونے کا وقت نہیں دیاجا تا ۔ لوگ اس حد تک قانون کی بے اعتدالیوں سے تنگ آ چکے ہیں کہ وہ مجرم کو خود سزا دینے کے در پے ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ ہمارے ملک میں وہ جانتے ہیں کہ قانون کسی مجرم کو سزا نہیں دے گا ۔ ایسے واقعات بھی تواتر سے خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ لوگوں نے کسی بے گناہ کو صر ف شک کی بنیاد پر بے تحاشا پیٹ ڈالا۔یہاں تک کہ بعض لوگ ان واقعات میں جان تک کی بازی ہار گئے۔ یہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس انتشار کی نشاندہی ہے جو کہ قانو ن ، پولیس پر عدم اعتماد کی غماز ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی بھوک مٹانے کے لیے چوری کرے تو ہاتھ چور کا نہیں بلکہ گلہ اس ریاست کے حکمران کا کاٹا جانا چاہیے ۔کیونکہ یہ حکمران ہی ہیں جو اس معاشرے میں امن و امان، غریبوں کی بھوک مٹانے ، انصاف کی فراہمی کے ذمہ دار ہیں اور یہ ذمہ داری وہ اس وقت پوری کر سکنے کی اہلیت رکھتے ہیں جب قانون ہر ایک کے لیے ایک سا ہوجب کوئی شاہ رخ جتوئی ، کوئی ایمان علی قانون کی گرفت اور سزاسے نہ
بچ سکے ۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 149458 views i write what i feel .. View More